ٹرائل کورٹ کو 6 ماہ میں فیصلے کا حکم کیس پر اثر انداز ہوگا، درخواست میں موقف
شیئر کریں
اثاثوں کی جو تعریف فیصلے میں کی گئی وہ بلیک لاء ڈکشتری میں کہیں نہیں ہے، نواز شریف کی درخواست
سابق وزیراعظم نواز شریف نے پانامہ فیصلے کیخلاف ایک اور نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی ہے جس میں تین رکنی بنچ کے 28جولائی کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے ہفتہ کے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکلاء کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے ائی ٹی پر اعتراضات قبل ازوقت قرار دیکر مسترد کیے گئے ٹرائل کورٹ کو چھ ماہ میں فیصلے کا حکم کیس پر اثرانداز ہوگا قانون ٹرائل کورٹ کی کارروائی کی مانیٹرنگ کی اجازت نہیں دیتاعدالتی احکامات شفاف ٹرائل کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہیںفریقین کی جانب سے دائر درخواستوں میں ایف زیڈ ای کا کہیں کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا جو درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی تو اس کی بنیاد پر پر نا اہل کیسے کیا جا سکتا ہے اثاثوں کی جو تعریف فیصلے میں کی گئی وہ بلیک لاء ڈکشنری میں کہیں نہیں ہے عدالت اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی کہ نااہلی ٹھوس شواہد پر ہی ہو سکتی ہے انکم ٹیکس قانون کے مطابق تنخواہ وہی ہے جو وصول کی گئی ہو ایف زیڈ ای کی تنخواہ قابل وصول تسلیم کر لی جائے تو بھی نااہلی نہیں بنتی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم موجود ہے معاملہ متعلقہ فورم پر جاتا تو دفاع کا موقع بھی ملتاتنخواہ نہ لینا اور اسکا دعوی بھی نہ کرنا بے ایمانی قرار نہیں دیا جا سکتاوصول نہ کی گئی تنخواہ کو زیادہ سے زیادہ غلطی قرار دیا جا سکتا ہے بے ایمانی نہیں درخواست میں عدالت عظمی سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت اٹھائیس جولائی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ واپس لے اور عمران خان شیخ رشید اور سراج الحق کی درخواستوں کو کالعدم قرار دے درخواست میں نظر ثانی درخواست پر فیصلہ انے تک پانامہ کیس پر عملدرامد روکنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔