وکلا ء کنونشن میں نواز شریف کی آہ وبکا!
شیئر کریں
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستان، جمہوریت اور عوام کا مقدمہ لڑرہے ہیں ۔لاہور میں ایوانِ اقبال میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک، انصاف کی حکمرانیکے لیے تھی،اوریہ کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔سابق وزیر اعظم نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاناما پیپرز کے سینکڑوں ناموں میں میرا نام نہیں اور جب سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائر کی گئی تھیں تو عدالت نے انہیں بے معنی قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک فیصلہ 20 اپریل اور دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا، ان فیصلوں کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں تاہم چند سوال ایسے ہیں جن سے عام شہری بھی پریشان ہورہے ہیں ۔پاناما پیپرز کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے پر عمل درآمد کے باوجود اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدمیں نے فوری طور پر عہدہ چھوڑ دیا، میرا جرم صرف یہ تھا کہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔ان کا کہنا تھا کہ عوام نے 3 مرتبہ مجھے اپنی محبت سے نوازا، پاکستان کے عوام کو کسی نئے امتحان میں نہ ڈالا جائے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد سے لاہور تک 4 دن میں عوام نے نیا حوصلہ دیا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ انتخابی نتیجے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھرپور عوامی حمایت ملی، تاہم انہیں ایک آمر نے عہدے سے ہٹا دیا لیکن اس موقع پر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ عوام کے اس وقت کے مقبول لیڈر بھٹو کو عہدے سے ہٹانے والے آمر کی گود میں ہی ان کی سیاسی پرورش ہوئی اور اس آمر کی گود میں بیٹھ کر ہی انھوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی خود اپنی ہی جماعت کے ایک شریف النفس وزیر اعظم کو گھر بھجواکر اپنا راستا صاف کیا تھا۔
نواز شریف کو وکلا ء سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم کی وہ تقریر بھی یاد آگئی جس میں انھوں نے کہا تھا عوام کی رائے کبھی غلطی پر نہیں ہوتی انھوں نے اس کاذکر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالواسطہ طورپر ہدف تنقید بناتے ہوئے الزام عاید کیا کہ اس ملک میں عوام کی رائے کو مسترد کرکے منتخب پارلیمنٹ کو گھر بھیجا گیا۔نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لیے مولوی تمیزالدین کیس اور ظفرشاہ کیس کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ تاریخ نے اس فیصلے کو بھی ان فیصلوں میں شامل کردیا جو بے توقیر ہوچکے ہیں ۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ’طاقت اور عدالت کے اس گٹھ جوڑ نے ملک کو آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا ہے، ایسے بھی جج دیکھنے میں آئے جنہوں نے آمروں کی شخصی وفاداری کا حلف اٹھایا اور ایسے بھی جج دیکھے جنہوں نے آئین سے روگردانی کی۔انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا گیا ہے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ غلط بنیادوں پر غلط اندازمیں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔فیصلہ عدالت پر چھوڑنے کااعلان کرنے کے ساتھ ہی انھوں نے عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اُکساتے ہوئے کہا کہ اب میں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ، کیونکہ معاملات پر حکمت عملی کا اختیار عوام کی پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے۔
وکلا کنونشن سے میاں نواز شریف کے اس خطاب سے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیاہے کہ نواز شریف کے پاس اب مستقبل کے لیے عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مستقل کے منصوبوں کاذکر کرنے کے بجائے لوگوں کو گرما رہے ہیں ، اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ نواز شریف ایک بار پھر ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں میاں برادران اس سے قبل 1993 اور 1999میں اقتدار سے فارغ ہوئے تھے اور اس کے بعد ان کا زیادہ تر وقت عدالتوں اور جلا وطنیوں میں گزرا تھا‘ یہ لوگ اگراس وقت کو ا یک نعمت سمجھ لیتے ،اقتدار سے محرومی کے عرصے میں ٹسوے بہانے کے بجائے اس دوران پاکستان کے عوام کو درپیش تمام ایشوز کا مطالعہ کرتے۔اپنی پارٹی میں موجود ماہرین کی ٹیمیں بناتے‘ ان کے ساتھ رابطے رکھتے اورعوام کو درپیش تمام ایشوز کے خاتمے کے لیے جامع پالیسیاں بنا تے اورجوں ہی دوبارہ حکومت ملتی یہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیتے تو آج ملک میں مسائل کا اتنا انبار نہ ہوتا،یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کی قیادت نے اس طرف توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اور اقتدار کی محرومی کے دور میں مستقبل کی منصوبہ کرنے کے بجائے اس مدت کو زحمت سمجھ لیااور ٹسوے بہانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی پر وقت ضائع کردیا ،جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں نے نقصان اٹھایا‘ پیپلزپارٹی سندھ سے بھی صاف ہو رہی ہے اور میاں نواز شریف تیسری بار سڑکوں پر ہیں اگر یہ لوگ سنبھل گئے ہوتے اور انھوں نے سوچا ہوتا کہ برا وقت کسی بھی وقت آسکتاہے تو آج شاید اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے۔
یہ 20کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘کیا ان 20 کروڑ لوگوں میں سے ایسے چندہزار سمجھ دار‘ ایماندار‘ دانش مند اور جینئس لوگ تلاش نہیں کیے جا سکتے جو ہمارے مسائل کو سمجھتے بھی ہوں اور انھیں حل کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں ‘ اگر اس ملک میں ایسے چندہزار لوگ نکل سکتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ ن‘ مسلم لیگ ق‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایسے لوگوں کو تلاش کیوں نہیں کرتی؟یہ ان کے تھنک ٹینکس کیوں نہیں بناتی اور یہ تھنک ٹینکس ملک کے لیے پالیسیاں کیوں نہیں بناتے؟‘ تمام جماعتوں کی قیادت اگریہ طریقہ کار اختیار کرلیں اور اقتدار سے محرومی پر ٹسوے بہانے اور اپنے ہی ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو مطعون کرنے کی کوشش کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دیں شاید آگے چل کر کامیاب بھی ہو جائیں گے اور ملک کو اچھی قیادت بھی مل جائے گی بصورت دیگر ہماری موجودہ قیادت کی طرح آنے والے لوگ بھی دبئی جاکر باقی زندگی آہیں بھرتے گزار دیں گے۔
میاں نواز شریف کو چاہیے یہ عوامی تحریک کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کی گنتی بھی کریں وہ روزانہ چند لمحوں کے لیے اکیلے بیٹھا کریں اور اپنی خامیوں اور ملک کے مسائل کا تجزیہ کیا کریں ان کا حل نکالا کریں اور یہ عہد کیا کریں اللہ تعالیٰ نے اگر انھیں ایک اور موقع دیا تو یہ معاملات کو ماضی کی طرح نہیں چلائیں گے یہ نئی ٹیم بھی بنائیں ‘ یہ اپنے دروازے کھولیں گے پارٹی کو وسیع کریں گے اور نئی سوچ اور نئی اپروچ متعارف کرانے کی کوشش کریں گے تا کہ ملک آگے بڑھ سکے۔
میاں نواز شریف کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ وہ اس طرح عوامی اجتماعات اور اپنے حامی چند سو وکلا کے اجتماع میں عدلیہ پر لعن طعن کرکے عدالت عظمیٰ کے نہ جھکنے اورنہ بکنے کا تہیہ کرکے عدالتی کرسی پر بیٹھنے والے جج حضرات کو دباؤ میں لاکر ان کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے، نواز شریف کو اس بات پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ عدلیہ کے خلاف ان کی ان کے رفقا کی مسلسل لاف زنی کے باوجود ابھی تک سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے انتہائی تحمل سے کام لیتے ہوئے ان کے ساتھ نرمی کارویہ اختیار کیے رکھا ہے اور عدلیہ کی کھلے عام توہین کے باوجود ان کو توہین عدالت کاکوئی نوٹس نہیں بھیجا ہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات اس معاملے کو اپنی انا کامسئلہ نہیں بنانا چاہتیں اور قانون کو اپنا راستا اختیار کرنے کاموقع دینا چاہتے ہیں ، اورسپریم کورٹ کے جج صاحبان کا یہ رویہ نواز شریف کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
امیدکی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گے اور اپنی بدعملیوں پر شرمساری کارویہ اختیار کرکے عوام کو عدلیہ کے خلاف اُکسانے کے بجائے عدلیہ کو اپنا کام غیر جانبدارانہ طور پر انجام دینے کاموقع دیں گے۔