جونیئرپاس………سینئرماتحت،سندھ میں بیوروکریسی میں عجیب وغریب تماشا
شیئر کریں
بدعنوان لوگ پی پی پی کی قیادت کے پسندیدہ بن جاتے ہیں،بڑے الزام والا قریب بھی بڑاہے
پیپلزپارٹی کی قیادت غلام قادر تھیبو اور خادم حسین بھٹی کوآئی جی بنانے کاآسرادے کراپنے کام لے رہی ہے
الیاس احمد
2008ء سے جو پیپلزپارٹی نمودار ہوتی ہے اس نے تو قانون ‘ آئین اور حکمرانی کے اصول توڑنے کے ریکارڈ قائم کردیے ہیں پی پی نے 2008ء سے لے کر2017ء تک ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ پی پی نے وہ کام کیا ہے جو قانون کے زمرے میں نہیں آتا۔ کرپٹ لوگ تو پی پی پی کے پسندیدہ بن جاتے ہیں جس پر جتنے کروڑوں روپے ہڑپ کرنے کا الزام لگتا ہے پی پی پی قیادت اس کو اتنا ہی قریب کرلیتی ہے پی پی پی کے دور میں شاہ زر شمعون‘ ثاقب سومرو‘ لئیق میمن‘ سیدفرازشاہ‘ اویس مظفرٹپی‘ شعیب قریشی‘ منظور کاکا‘ جیسے لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور بیرون ملک عیش کی زندگی گزاررہے ہیں پی پی پی کی حکومت نے اب تک ان کی وطن واپسی کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ کیونکہ وہ کمائو پوت تھے وہ خود کھاتے تھے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کو بھی کھلاتے تھے اس لیے ان پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپر کو نئے مقدمات میں پھنسایا جائے دونوں بہن بھائیوں کی اسی میں خوشی ہے کہ یہ کرپٹ لوگ ملک سے باہر ہی رہیں تو بہتر ہے خیر سرکاری افسران کے ساتھ جو حشر کیاگیا ہے وہ تو تاریخ کا حصہ ہے آڈٹ آف ٹرن کے نام پر جو ریکارڈ بنائے گئے ان کو بیان کیا جائے تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس پرسپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے فوری طور پر ایکشن لیا اور سینکڑوں آف ٹرن پروموشن ختم کر ڈالے یہاں تک کہ اعلیٰ افسران کو باقاعدہ شوکاز نوٹس ملے۔ ان کی عدالتوں میں سرزنش ہوئی تب جاکر آئوٹ آف ٹرن پروموشن ختم ہوئے اب ایک نیا کھیل کھیلا جارہا ہے سنیئرگریڈ کے افسران کو جونیئر گریڈ کے افسران کے ماتحت بنایا گیا ہے۔ اس کی مثال پولیس افسران میں دیکھی جاسکتی ہے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ سے غلام قادر تھیبو اور خادم حسین بھٹی سینئر ہیں لیکن پھر بھی وہ آئی جی کے ماتحت کام کررہے ہیں حکومت سندھ کا فرض تھا کہ جب آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی تعیناتی ہوئی تھی تب غلام قادر تھیبو اور خادم حسین بھٹی کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردیتی۔ اس کے علاوہ رضوان میمن گریڈ21کے چیف سیکریٹری ہیں لیکن محمد وسیم گریڈ22میں چیئرمین منصوبہ بندی وترقیات بورڈ کے طور پر کام کررہے ہیں یہ انوکھی مثال ہے کہ گریڈ22کا افسر گریڈ21کے افسر کے ماتحت کام کررہا ہے لیکن اس پر حکومت سندھ کو کوئی پریشانی نہیں ہے اس طرح محکمہ خزانہ میں تو حد کردی گئی ہے گریڈ20کے حسن نقوی کو سیکریٹری خزانہ مقرر کیاگیا ہے لیکن گریڈ21کے ڈاکٹر نور عالم کو ان کا ماتحت بناکر اسپیشل سیکریٹری بنادیاگیا ہے یہ بھی انوکھی مثال ہے کہ اگر گریڈ20کا افسر گریڈ21کے افسر سے سینئر اور اونچی پوسٹ پر ہے اور گریڈ21کا افسر گریڈ20کے افسر کے ماتحت کام کررہا ہے یہی حشر آڈٹ آف ٹرن پروموشن کے وقت کیاگیا تھا جب نچلے گریڈ کا افسر فوری طور پر ایک یا دو آڈٹ آف ٹرن پروموشن لے کر جس افسر کے ماتحت کام کرنا تھا
اس کا سینئر بن جانا تھا لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے آئوٹ آف ٹرن پروموشن ختم کیے اور پھر جب سب کو اپنا حق ملا تو اب حکومت سندھ نے نئے طریقے سے جونیئر افسران کو سینئر افسران کا باس بنادیا ہے اس صورتحال میں بیورو کریسی بھی پریشان ہے کیونکہ سینئر افسران کی حق تلفی ہورہی ہے اگر نور عالم کو سیکریٹری خزانہ بنادیا جائے یا پھر ان کو کسی دوسرے محکمے مین سیکریٹری بنادیا جائے تو کیا قیامت آجائے گی اور اس طرح غلام قادر تھیبو اور خادم حسین بھٹی کو وفاق میں بھیجا جاتا ہے تو کیا پریشانی ہوگی اصل میں حکومت سندھ ایسے اقدام کرکے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے سیکریٹری خزانہ پر اخلاقی دبائو ڈال کر کام لیے جاتے ہیں اور غلام قادر تھیبو اور خادم حسین بھٹی کو آئی جی بنوانے کاا ٓ سرا دے کر اپنے کام لیے جارہے ہیں۔