سردار مینگل کی مراجعیت
شیئر کریں
بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کے مابین قریبا دوسال قربت رہی ،اس امتزاج پر گہرے شبہات کا اظہار ہو تا رہا ،بلکہ ہنوز نقد و جرح کا سامنا ہے ۔چناں چہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مراجعیت اختیار کر لی اور کمزور و مصلحت کوش حزب اختلاف کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔ حکمران اتحادسے مفارقت کا اعلان پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل نے بدھ17جون 2020ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا کہ مزید تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں ہو گا ۔ حکمران اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں مشاور ت کے بعد کیا گیا ۔ بی این پی نے25جولائی2018ء کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی چار نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف کا حکومت بنانے میں ساتھ دیا تھا۔ بی این پی ساتھ نہ دیتی تو شاید تحریک انصاف کی حکومت تشکیل نہ پاتی یا انہیں حکومت سازی میں مزید مشکلات کا سامنا ہوتا۔ یہ جماعت عام انتخابات میں صوبے کی بڑی قوم پرست جماعت بن کر سامنے آئی۔ بلوچستان اسمبلی کی سات جنرل نشستیں جیتیں۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد اس وقت ان کے صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تعداددس ہے۔ صوبے میں حکومت بنانے کا ماحول نہ بن سکا۔ اس بنا بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور پشتونخو ا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھ گئیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مرکز میں تحریک انصاف کی مشروط حمایت کر رکھی تھی۔ یعنی اپنے چھ نکا ت کے ساتھ اتحاد کا حصہ بنی۔
یہ نکات اس طرح ہیں۔1۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ پختہ عزم کے ساتھ حل کیا جا ئے گا اور مستقبل میں جبری گمشدگیوں کا تدارک کیا جائیگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائیگا۔2۔بلوچستان کے جغرافیائی شناخت کا تحفظ کیا جا ئے گا۔اس سلسلے میں تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ 3۔وسائل کی تقسیم شفاف اور منصفانہ انداز میں کی جائے گی۔ معدنی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے مقامی سطح پر ریفائنریز لگائی جائیں گی۔4۔بلوچستان سے نقل مکانی کے خدشات ختم کرنے کے لیے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کی خاطر بڑے ڈیمز بنائے جائیں گے۔5۔وفاق اور فارن سروسز کی ملازمتوں میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹے پر عملدرآمدکیا جائے گا۔6۔تمام افغان مہاجرین کو با عزت طریقے سے وطن واپس بھیجا جائے گا۔گویا یہ نکات وفاق کے ہاں توجہ کے لائق نہ ٹھہرے ۔
بی این پی کے نزدیک لا پتہ افراد یا گمشدگیوں کا نکتہ سردست فوری توجہ کا حامل تھا ۔ اس ضمن میںاختر مینگل نے کہا تھا کہ اگر ان کے چار ووٹوں سے کوئی لاپتہ بلوچ منظر عام پر آتا ہے تو وہ حکومت سازی میںتحریک انصاف کی حمایت کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ تب عمران خان نے واضح بھی کیا تھاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ان کے بس سے باہر ہے۔ جس کے لیے طے ہوا کہ سردار اختر مینگل کی ملاقات افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کرائی جائے گی۔ مگر بظاہر یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان پہلا معاہدہ18اگست2018ء کو ہوا۔ جس کے لیے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور سردار یار محمد رند کوئٹہ آئے اور یہاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بہر حال اس عرصہ بی این پی بارہا معاہدے پر عملدرآمد کی جانب توجہ دلاتی رہی۔ معاہدے کے نام پر بی این پی نے صدر مملکت کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو ووٹ دیا۔ نیز اس شرمناک کھیل کا حصہ بھی بنی جس کی بنیاد پر پارلیمانی سیاسی روایات و اقدار کا جنازہ نکالتے ہوئے میر صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ جس میں وائٹل رول پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا۔ اس گندے کھیل کی شروعات بلوچستان سے ہو ئی۔ جہاں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان کے علاوہ جمعیت علماء اسلام ف ، بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی ،بی این پی عوامی اور مجلس وحدت مسلمین اس کھیل کا حصہ تھیں۔پھر سینیٹ الیکشن میں یکجائی دکھائی ۔سینٹ کے انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے ضمیر فروخت کیے۔ جس کے نتیجے میں کئی آزاد امیدوار سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے جن میں صادق سنجرانی بھی شامل تھے۔ چناں چہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی بی این پی ناروا سیاست کا حصہ بنی تھی۔فوج کے سربراہ کی توسیع کا معاملہ گنجلک ہوا تو بھی بی این پی ہمنواء بنی رہی ،اور آرمی ایکٹ منظوری میں اپنی ہاں شامل کرلی ۔سردار اختر مینگل اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی جماعت نے ان مواقعوں یا مشکل وقتوں میں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا۔ بی این پی لاپتہ افراد قضیہ کے باب میں مقتدرہ سے کچھ نا کچھ حاصل بھی باور کراتی ہے ۔یعنی بلوچ عوام کو بتایا گیا کہ وہ (بی این پی) کوشش یا معاہدے کے تحت 418لاپتہ افراد کی بازیابی میں سر خرو ہوئی ہے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ معاہدے کے بعدبھی 500افراد لاپتہ ہوئے۔اور مزید ایک ہزار افراد لاپتہ کرد یے گئے۔ان کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔
اس ذیل میں یہ حقیقت مد نظر رہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق دعوے دار سیاسی جماعتیں اور دیگر فورمز حکومت کو مطلوب لاپتہ افراد کے کوائف فراہم نہیں کرسکی ہیں۔بلکہ ان کے دعوئوں میں مبالغہ کا عنصر شامل رہا ہے ۔ لاپتہ افراد بارے کمیشن بھی بارہا نشاندہی کرچکا ہے کہ کمیشن کو مطلوب معلومات مہیا نہیں کی جاتیں۔ یقینا بلوچستان کے اندر سے لوگ لاپتہ افراد ہورہے ہیں۔ مگر یہ پہلو نگاہ میں رہے کہ صوبے کے اندر چند مسلح تنظیمیں ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد وابستہ ہیں۔ جو براہ راست عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیںجو عسکریت پسندوں کے لیے مختلف نوعیت کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ چناں چہ یہ حقیقت سردار اختر مینگل پر بھی پوری طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلح عملیات ہوں گی تو لوگ لازم لاپتہ ہوں گے۔بلا شبہ کسی کا ماورائے عدالت غائب کیا جانا خلاف ِ قانون ہے۔ لہذاعسکریت پسندی کو صوبے کی سیاسی جماعتیں کیا حیثیت دیتی ہیں؟ کچھ عرصہ قبل ضلع قلات کے نواح میں ایک جھڑپ میں کالعدم تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی کے دو افراد شہداد بلوچ اور احسان بلوچ مارے گئے۔ تنظیم نے اپنے لوگوں کے مرنے کی تصدیق کرلی ہے،کہا کہ فورسز سے جھڑپ میں ان کے دو کامریڈجاں بحق ہوگئے۔ تربت کا رہائشی شہداد بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا اور یونیورسٹی کے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری کے لیے ایڈ مشن بھی لے رکھا تھا جو مارچ 2015ء میں ایک بار تربت سے لاپتہ بھی ہوچکا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اْن کی بازیابی کے لیے آواز بھی اٹھائی تھی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سردار اختر مینگل آگاہ تھے کہ ان کی حکمران اتحاد سے تعاون کی سیاستاس ذیل میں بھی کارگر ثابت نہیں ہوگی۔ اپنے اس فیصلے و معاہدے سے ان کو رجوع کرنا ہی تھا۔ چناں چہ سوال یہ ہے پرکیوں حکمران اتحاد کا ساتھ دیا؟۔ یہ اہم سوال ہے اور آئندہ دنوں شاید مترشح ہوں ۔ بی این پی روز ِ اول سے اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ دو کشتیوں کی سواری عوام میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھی جارہی۔خواہ جواز کے لیے کتنے نکات پیش کیے گئے ہوں۔ بہر حال تحریک انصاف انہیں منانے کے ضمن میں اب بھی پراْمید ہے۔ حکمراں اتحاد اس علیحدگی کے بعد بھی چنداں تشویش میں نہ ہے وہ اس لیے کہ متحدہ حزب اختلاف علی الخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر کا سودا کرنے والے ار کین (حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ) موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔