میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محاذ آرائی نہیں۔۔ مذاکرات

محاذ آرائی نہیں۔۔ مذاکرات

ویب ڈیسک
منگل, ۲۷ مئی ۲۰۲۵

شیئر کریں

آواز
۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

 

سیاسی تناظر میں ایک دھماکہ خیز خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کی کوششیں ایک بار پھر تیز ہو گئیں۔ اسی سلسلہ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کیلئے خاموش سفارتکاری میں شامل امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز اور تاجرشامل ہیں۔ ان کا ہدف ہے کہ تحریک ِ انصاف کے تمام گرفتاررہنمائوں کو حکومت سے جتنی ریلیف مل سکتی ہے مل جائے لیکن چونکہ حالات اس وقت تحریک انصاف کے موافق نہیں ہیں ، اس لئے ان کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ لوگ بانی کی رہائی کی تازہ کوششوں کے سلسلے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پہنچ چکے ہیں ۔یہ گروپ اس وقت لاہور میں موجود ہے اور اپنے کچھ معززکرم فرمائوں کی وساطت سے معاملات کا جائزہ لے رہاہے۔ ان میں سے چندافرادکا خیال ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین چاہتے ہیں کہ ان کے لئے آنے والے الیکشن تک حالات جوں کے توں رہیں۔ شنیدہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک گروپ نے چند ماہ قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران ایک سینئر عہدیدار کے ساتھ ساتھ عمران خان سے جیل میں ملاقات کی تھی لیکن دوبارہ وفد تاحال اب تک عمران خان سے ملاقات میں کامیاب نہیں ہو پایا لیکن اس کے باوجود اس وفد کیلئے آئندہ ہفتے کے دوران ہونے والے رابطوں کو اہم سمجھا جا رہا ہے ۔جس کے لئے بیوروکریسی کے کچھ اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی ضروری ہیں۔ کہاجارہاہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں بیوروکریسی کو کچھ تحفظات بھی ہیں لیکن اپنے تحفظات کااظہار تو وفدبھی کررہاہے۔ دوسری جانب پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کی کاوشیں جاری ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف مذاکرات کے لئے سرگرم ہیں ۔پاک بھارت کشیدگی کے باعث پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل رک گیا تھا ۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مذاکرات پی ٹی آئی کے حامیوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے عمران خان کے قانونی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ اسی تناظرمیں سینیٹر عرفان صدیقی کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا دروازہ کھلتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں،پاک فوج کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہمارا کام سیاستدانوں سے سیاسی مذاکرات کرنا نہیں، بانی پی ٹی آئی جس انجام سے دو چار ہیں اس کا راستہ انہوں نے خود چنا اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دے دے کر پی ٹی آئی کے ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات چیت نہیں کررہی تو ہم کیا کریں۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہمارا کام سیاستدانوں سے سیاسی مذاکرات کرنا نہیں، بانی پی ٹی آئی سے نہ کوئی نوری ملا ہے نہ ناری اورنہ ہی خاکی۔عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی فوج کی دہلیز پر کب سے بیٹھے ہیں، اگر یہ ڈیل اور ڈھیل نہیں چاہتے تو پھر وہاں کیوں بیٹھے ہیں؟، بانی پی ٹی آئی کیا چاہتے ہیں یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔
سیاسی مبصرین کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی میں یہ احساس بڑھتاجارہاہے کہ محاذ آرائی کسی مسئلے کا حل نہیں مذاکرات ہی مسائل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے حالیہ چندمہینوں کے دوران، کچھ غیر رسمی رابطوں کے باوجود کسی اہم پیشرفت کی اطلاع نہیں ملی اس میں کوئی شک نہیں محاذ آرائی کے سبب9مئی اور 26نومبرکے واقعات رونما ہوئے جنہوںنے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ۔اب کارکنوںمیں اتنا خوف و ہراس ہے کہ وہ سڑکوںپر آنے کیلئے تیا رنہیں کیونکہ محاذ آرائی کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔وہ بھی اس ماحول میں جب پاکستان کی موجودہ فوجی و سیاسی قیادت ایک پیج یر اکٹھی ہیں۔ اس لئے مذاکرات ایسی کوششوں میں پیشرفت نہ صرف سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے طرز عمل اور پارٹی کے غیر ملکی چیپٹرز بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے پیغامات پر بھی منحصر ہے کہ وہ حالات کے سیاق و سباق کو مدنظررکھتے ہوئے مذاکرات کریں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ تو متعدد مرتبہ کہ چکی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گی، اس کی بجائے سیاسی جماعتیں اپنے مسائل آپس میں خود حل کریں۔ لیکن اس کے باوجود، پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ایسے بیانات کے باوجود اہم عہدیداروں کے ساتھ پس پردہ بات چیت کیلئے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی دانست میں مذاکرات کے لئے ہر چینل استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ اسے کسی منطقی انجام تک پہچایا جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس،پرجوش و جذباتی کارکنوں کی سوشل میڈیا مہم کے دوران عسکری قیادت پر مسلسل تنقید کسی بھی ممکنہ مفاہمت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ فوج پر تنقید پر مبنی مہمات، پر غلط معلومات پھیلانا، اور بین الاقوامی لابنگ کی کوششیں بشمول واشنگٹن اور لندن پر اثر انداز ہونے کی کوششوں نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ۔ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت میں سے کچھ نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے جارحانہ ہتھکنڈوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً ایسی کوششوں کو زیادہ نقصان ہوا ہے جن کا مقصد عمران خان کیلئے ریلیف کا حصول ہے۔ پارٹی کے اندر اس بات کا اعتراف بڑھ رہا ہے کہ پارٹی کو بامعنی مذاکرات کے قابل بنانے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی جارحانہ پالیسی کو کم کرنا ہوگا۔تحریک انصاف کے سینئر رہنما سینیٹر علی ظفر کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر بات کرنا چاہتی ہے تو براہ راست ان سے یعنی بانی پی ٹی آئی سے بات کر لے ۔علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کو کسی سے بھی مذاکرات سے منع کر دیا ہے اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو خود ان سے بات کر لے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ فی الحال کسی سے مذاکرات نہیں ہو رہے ۔البتہ عمران خان کی رہائی کے لئے کاوشیں جاری ہیں عمران خان سیاسی قیدی ہیں اور کروڑوں پاکستانی ان کے ساتھ ہیں ۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے قسمت میں بہتری بالخصوص عمران خان کی مشکلات میں کمی کا انحصار پارٹی کی جانب سے مثبت رویہ اختیار کرنے، معیشت کی بہتری کی کوششوں میں خلل نہ ڈالنے اور ریاستی اداروں پر تنقید روکنے پر ہوگا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں حکام کے ساتھ رابطوں کی کوشش کے ساتھ تجزیہ کار اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ کوششیں مفاہمت کے نئے مرحلے کا اشارہ دیتی ہیں یا پھر محاذ آرائی کے ذریعے پی ٹی آئی ایک اور موقع ضائع کر دے گی ۔ایسا ہوا توعمران خان شاید کبھی رہا نہ ہو سکیں کیونکہ لگتاہے اسٹیبلشمنٹ انہیں کوئی رعایت دینے کو تیا رنہیں ہے ،ویسے پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے لیکن فی الحال زمینی حقائق یہ بتارہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو محاذ آرائی کی سیاست ترک کرکے عمران خان کی رہائی کے ایک نکاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں