طیارہ حادثہ اور سوالات
شیئر کریں
قوم کے ساتھ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ من حیث القوم فکر صحیح سے محروم ہو گئی۔ پی آئی اے کا حادثہ تو بہت چھوٹا ہے۔فکرِ صحیح سے محرومی ہماری ہر تکلیف کو دُگنا کردیتی ہے،حادثوں کومزید بھیانک بنادیتی ہے۔
کورونا وبا کے ہنگام حکومتوں کے تیور تبدیل نہیں ہوئے۔ معمول کی اموات کو غیر معمولی قراردے کر قوم کو زندگی کے تحفظ کا درس جاری ہے، لوگوں کی آزادیاں سلب کی جارہی ہیں۔ معمول کے امراض کو کووڈ۔19 کے کھاتے میں ڈال کر غیر معمولی اقدامات اور امداد کی یافت کا سفاکانہ کھیل چاروں کھونٹ رچایا جارہا ہے۔ روزانہ ایک ایک آدمی کے مرنے کی الٹی سیدھی گنتی کی جارہی ہے۔دوسری طرف طیارہ حادثے میں سینکڑوں جانوں کے زیاں کو معمول کی ایک کارروائی اور مقدس دن کے مرتبے والی موت کہہ کر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کیا واقعی ہمارے اندر کوئی شرمناک سقم اور کرب ناک خلل ہے؟
حادثات تو کیا، یہاں کسی بھی قومی جرم کے درست تعین کی کوئی سچی روایت نہیں۔ ذمہ داروں کے تعین میں غیر ذمہ داری ہماری قومی شناخت ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمیں اس پر شرم بھی نہیں آتی۔ پاکستان کی سرزمین 83 جان لیوا فضائی حادثوں کی تاریخ رکھتی ہے، مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگے۔ رواں برس کے پانچ ماہ بھی ابھی پورے نہیں ہوئے کہ تین فضائی حادثے ہوچکے۔ مگر قومی سطح پر کسی ”مے ڈے مے ڈے“ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔پی آئی اے کا ایک فوکر ایف 27 طیارہ ملتان میں 10 جولائی 2006 کو 45 مسافروں کی زندگیاں نگل گیا۔ قومی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ 28/جولائی 2010ء کو پیش آیا، جس میں نجی ائیرلائن ائیر بلو کا ایک طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے جاٹکرایا تھا، طیارے میں 152 مسافر تھے۔ ایک اور نجی ائیرلائن بھوجا ائیر کا طیارہ 20 / اپریل 2012کو لوئی بھیر کے قریب گرکر تباہ ہوا تھا، جس میں 127 مسافر تھے۔ ان میں سے کوئی طیارہ ایسا نہیں تھا، جس کے حادثے کی ذمہ داری مردہ پائلٹ پر نہ ڈال دی گئی ہو۔ 7 /دسمبر 2016 کو پی آئی اے کا مسافر طیارہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے گر کر تباہ ہوا تھا، جس میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47 افراد چل بسے تھے۔ چونکہ یہ طیارہ اے ٹی آر پہلے سے ہی تنقید کی زد میں تھا۔ اس لیے کسی مردہ پر اس کی ذمہ داری ڈالنا دشوار محسوس ہوا۔ چنانچہ اس کی تحقیقات کو ہی مردہ خانے میں ڈال دیا گیا۔
پی کے 8303 کا دکھ اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ طیارہ اپنی منزل پر زمین کو چھوکر موت سے بغلگیر ہوا۔پی آئی اے کا یہ طیارہ فرانس میں بنایا گیا تھا۔ پی آئی اے نے اسے آئرلینڈ کی ایک کمپنی ایوی ایشن ہاؤس سے 2014 میں لیز پر لیا تھا۔اس لیے یہ زیادہ پرانا بھی نہیں تھا۔ البتہ پی آئی اے کے بیڑے میں شامل ہونے سے پہلے یہ ایسٹرن چائنا کا تقریباً دس سال حصہ رہا۔ طیارے کی دستیاب معلومات سے اندازا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بڑی خرابی نہیں تھی۔ گویا اس نوع کے حادثے کے لیے یہ طیارہ کسی خطرے کی پہلے سے نشاندہی نہیں رکھتا تھا۔ پی کے 8303 ایک بج کر پانچ منٹ پر لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ اِسے دو بج کر پینتالیس منٹ پر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ہوائی میدان پر اُترنا تھا، دو بج کر پینتیس منٹ پر یہ زمین چھونے کے لیے اُترنے کے مقام پر پہنچ گیا تھا۔سادہ سوال یہ ہے کہ طیارہ اپنے مقام پر پہنچ کر اُترنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوا؟اگر ائیر ٹریفک کنٹرول ٹاؤر سے پائلٹ کیپٹن سجاد گل کی گفتگو کے اُس محدود حصے (پوری گفتگو جاری نہیں کی گئی، جو بجائے خود شکوک پیدا کرنے کا باعث ہے)کو بغور سنا جائے تو اس میں ایک تنبیہ کرنے والی آواز سنائی دیتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ آواز ”لینڈنگ گیئر“سے متعلق ہے۔ اب ذرا ریڈار ڈیٹا کو دیکھ لیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بدقسمت طیارے نے دو بج کر پینتیس منٹ پر زمین کو چھو لیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں جب تنبیہ آمیز آوازیں پائلٹ کا پیچھا کررہی تھیں، اے ٹی سی ٹاؤر کو بھی صاف سنائی دے رہی تھیں تو کنٹرول ٹاؤر نے اس طیارے کو پہلی لینڈنگ کے لیے مجبور کیوں نہیں کیا؟ یہ سوال ایک اور ضروری مطالبے کی طرف راغب کرتا ہے کہ کنٹرول ٹاؤر اور پائلٹ سجاد گل کے درمیان مہیا گفتگو سے پہلے کا ریکارڈ اب تک کیوں عوام کے لیے فراہم نہیں کیا؟ اس میں ایسا کیا ہے کہ اُسے مخفی رکھا گیا۔ گفتگو کا وہی حصہ واضح کرسکے گا کہ کنٹرول ٹاؤر اورپائلٹ کے درمیان جو کچھ ہوا، اس کا پس منظر درست طور پر کیا ہے؟ اور کیوں طیارہ پہلی لینڈنگ نہیں کر سکا؟یہ پہلو اس لیے بھی اہم ہے کہ چیئرمین پی آئی اے نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زمین کو چھونے کے بعد فضا میں چکر لگائے کا فیصلہ پائلٹ نے خود کیا تھا۔ اُنہیں کنٹرول ٹاؤر سے کہا گیا کہ دونوں رن وے خالی ہیں وہ کسی بھی جگہ اُتر سکتے ہیں۔کیا پائلٹ اپنے لینڈنگ گیئر کی تنبیہ آمیز آوازیں نہیں سن رہا تھا، کیا اُسے معلوم نہیں تھا کہ اُسے پہلی لینڈنگ کو ہی ہر صورت ممکن بنا ناہے، جب جہاز میں کوئی تکنیکی مسئلہ رونما ہوجائے تو یہ یقین کسی بھی طرح نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی دوسرا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ چنانچہ یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ پائلٹ نے لینڈنگ کرنا چاہی تھی یا نہیں؟ پائلٹ کو پہلی لینڈنگ کے لیے کنٹرول ٹاور نے مجبور یا آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی یا نہیں؟
اس بحث میں طیارے کی دوتصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ کے دونوں انجن پر رگڑ کے نشانات ہیں۔ ایسے ہی نشانات ائیرپورٹ کے رن وے پر بھی 4500سے 7000فٹ کے درمیان موجود ہیں۔ مطلب واضح ہے کہ طیارے پہلی بار زمین سے ٹکڑایا تو گھسٹتارہا اور طیارے کے زمین پر آنے سے قبل ہی اس کا لینڈنگ گیئر پس کشیدہ یا شکستہ تھا۔ تصاویر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جہاز پر ایک سرخ رنگ کا نشان ہے۔ یہ دراصل جہاز میں ایک طرح سے جنریٹر چلنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب جہاز کے انجن اور الیکٹرک نظام ناکارہ ہوجاتے ہیں تو یہ بجلی کی متبادل سپلائی لائن مہیا کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ جو دستی (مینوئل) طریقے سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انجن فضا میں بلند ہونے سے پہلے کام چھوڑ چکے تھے، اور بجلی کا خودکار نظام بھی کام نہیں کررہا تھا۔ظاہر ہے یہ مباحث اپنے تمام سروں میں پرواز سے متعلق عالمی حفاظتی معیارات سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل جہاز میں جانچ پڑتال کے عمدہ نظام کے باوجود کیونکر پیدا ہوسکتے ہیں؟
کیا اس کا کوئی تکنیکی جواب موجود ہے؟
طیارے کے المناک حادثے کے بعد ہمارے سامنے دو طرح کے واضح ردِ عمل موجود ہیں۔ایک لہر میں پائلٹ کو سلام کیا جارہا ہے، اُس کے مضبوط اعصاب اور حادثہ کے ہنگام انتہائی ہموار آواز کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں ہموار پروازوں میں بھی کبھی کسی پائلٹ کی مسافروں سے گفتگو میں ڈھنگ کے تین فقرے بھی ہموار محسوس نہیں ہوتے۔ یہ اپنی قومی زبان میں بھی گفتگو اٹکتے لٹکتے اور کھٹکتے ہوئے کرتے ہیں۔ فضائی میزبانوں کی گلابی اردو کا حال تو بالکل نہ پوچھیں۔ مگر ایک شور شرابے میں ایسی ہموار گفتگو کا سراغ لگانا اور اس پر ایک عمومی فضا قائم کردینا کمال ہی لگتا ہے۔ دوسری جانب کچھ ماہرین اپنے ہوابازی کے تجربے سے انتہائی تکنیکی گفتگو کے ساتھ ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں وہ اس بدقسمت طیارے کی تمام ذمہ داری پائلٹ پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ یہ پہلو دار، لچھے دار اور پیچ دار ردِ عمل کی لہر اپنے پیچھے کیا مقاصد رکھتی ہے، مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ مردوں سے سوال نہیں پوچھے جاسکتے، اوروہ زندوں کے لیے بہترین راہِ فرار ہوتے ہیں۔ ردِ عمل کی یہ دونوں لہریں منظم طور پر مختلف جوانب سے عوام میں انڈیلی جارہی ہیں۔ حالانکہ طیارے کا المناک حادثہ پہلے اور اپنے آخری سوال میں صرف ومحض ہوائی سفر کے ہیلتھ اینڈ سیفٹی نظام سے جڑا ہے۔ آپ ذرا گوگل صاحب کو زحمت دیں تو آپ کوایسی تصاویر مل جائیں گی جو طیارے کی پرواز سے پہلے بکروں کی قربانی کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ہمارا ردِ بلا اور انسدادِ خطرات کا تصور ہے۔ جب آپ جہاز اڑاتے ہیں تو پھر جہاز کے لیے آپ کو جہاز کے حفاظتی طریقوں کی پیروی کرنا پڑے گی۔ ہمارا یہی تصور عالمی سطح پر ہماری ائیرلائنز کے جرمانوں کی حقیقت بھی واضح کرتا ہے۔
پی آئی اے جہازوں کے تمام حالیہ حادثات اندرون ملک رونماہوئے ہیں۔ درحقیقت پی آئی اے کا ہیلتھ اینڈ سیفٹی نظام دوغلا ہے۔ پی آئی اے عالمی سطح پر حفاظتی انتظامات کے سخت قواعد، جرمانوں کا خوف اور کسی قسم کی رعایت نہ ہونے کے باعث تمام ضروری اور مطلوبہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ اس کے برعکس ملکی سطح پر من مانی کے وہی پاپی تیور ہیں جو احتساب سے بے پروائی، طاقت ور کی باز پرس سے درگزر کے قومی رویے کے پیدا کردہ ہیں۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے ملکی حادثات قومی سطح پر کسی کو جھنجھوڑتے نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے نامناسب رویہ خود چیئرمین پی آئی اے کا دکھائی دیتا ہے۔ اُنہوں نے اس المناک حادثے کے حوالے سے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ بدقسمت طیارے میں جان ہارنے والوں کو رمضان المبارک میں بلند درجہ ملنا تھا۔ پی آئی اے کا طیارہ ایک حادثہ ہے جس میں موت کا انتخاب مسافروں نے مرضی سے نہیں کیا۔ مسافروں کی چیخوں، اُن کی جلی لاشوں اور ان کی روح فرسا آوازوں کو ہمارے مذہبی جذبات کے استحصال کے لیے استعمال کرنا حددرجہ سفاکی ہے۔ یہ مذہبی سوچ نہیں مذہبی جذبات کااستحصال ہے۔ چیئرمین پی آئی اے ادارے کی بہتری اور مسافروں کے سفر کو محفوظ رکھنے کی منصبی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اُنہیں مسافروں کے تحفظ کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، اُن کے اخروی مرتبے کے تعین کا نہیں۔ مسافر تو خلد نشین تھے، مگر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اس حادثے کے بعد آخرت میں کس طرح جواب دیں گے؟لہذا اُن کے پاس بات چیت کے لیے جو کچھ بھی ہونا چاہئے وہ صرف اُن کی اپنی منصبی ذمہ داریوں کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ تکنیکی طور پر سوالات کو ادھورا چھوڑ کر روحانی خم وپیچ میں اپنی ذمہ داریوں سے گریز کی روش تعمیر وطن میں مدد نہ دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔