میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ذہانت برائے فروخت

ذہانت برائے فروخت

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۷ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

آغا شورش کاشمیری نے قلم فروشی کو جسم فروشی سے بھی بد تر کاروبار قرار دیا تھا۔ گزشتہ روز پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے اعتزاز احسن کو انتہائی منافق اورذہانت فروش انسان کہا ہے ۔ بلا شبہ ذہانت فروشی بھی قلم فروشی اور جسم فروشی کی طرز کا کاروبار ہے اور بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہی کاروبار پھل پھول رہا ہے ۔ جاگیردار اور سرمایہ دارذہانت کے سب سے بڑے خریدار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی ذہانت غریبوں کے حقوق حاصل کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہونے کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہے ۔
اعتزاز احسن سمیت اس ملک کے ہزاروں وکیل اپنی ذہانت سے سرمایہ داروں کے ناجائز اور غیر قانونی کاموں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں ، حق تلفی اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں ان کی وکالت اور دفاع کرتے ہیں ، غریبوں اور مظلوموں کی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر عدالت سے اپنے حق میں فیصلے کراتے ہیں ، مجرموں کو بے گناہ اور اور بے گناہوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے اپنی تمام ذہانت بروئے کار لاتے ہیں ۔ گزشتہ روز ڈہرکی پولیس کی شرمناک پولیس گردی سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی جب میٹرک کا امتحان دینے والی دو طالبات کو نقل کرنے کے الزام میں پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا اور انہیں موبائل میں بٹھا کر شہر بھر میں گھومتے رہے۔ یہ بچیاں اور ان کے گھر والے کیونکہ ذہانت خریدنے کے اسباب نہیں رکھتے لہٰذا اس زیادتی پر کسی کو عدالت میں گھسیٹنے اور سزا دلوانے سے بھی عاجز ہیں ۔
ذہانت کے خریدار عظیم جرائم کے مرتکب ہونے کے بعد بھی عدالتوں سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، عدالتوں نے ہمیں با عزت بری کردیا ہے اور اب جبکہ آصف علی زرداری بھی اپنے مخالفین کو کرپشن کے طعنے دینے لگے ہیں اور شہباز شریف کے پیٹ سے لوٹی ہوئی دولت باہر نکالنے کے بڑہکیں مار رہے ہیں تو چشم فلک کو بھی اس منظر پر یقین نہیں آرہا ہوگا۔ دراصل یہ سب کمال ہے اس ذہانت کا جو بازاری جنس بن کر مارکیٹ میں دستیاب ہے اور اس کی قیمت جاگیرداروں اور سرمایہ دارں کے لیے بہت معمولی ہے ۔ ہمارے ملک کے صحافیوں ، کالم نگاروں ،ٹی وی اینکرز اور میڈیا گروپس کے مالکان کو بھی اللہ نے خوب ذہانت سے نواز رکھا ہے اور وہ اس کی قیمت بھی خوب وصول کر رہے ہیں ۔ ملک کے ایک نامور صحافی ، کالم نگار اور ٹی وی اینکر کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم آدھا سچ بھی لکھ اور بول نہیں سکتے ۔ اصل میں میڈیا کا یہ سارا گورکھ دھندا ہے، ہمارے ملک میں میڈیا کا حسن کرشمہ ساز جو کام کر رہا ہے وہ تباہ کن ہے ۔کنفیوژن پیدا کرنا ، ہر معاملے کو متنازعہ بنانا ، اصلاح کے علمبرداروں کو یکسو نہ ہونے دینا ، انہیں اپنے بنائے ہوئے ہنگامی ایشوز میں مشغول رکھنا ، سچ کو چھپانا ، نان ایشوز کو ایشوز اور حقیقی ایشو ز کو نان ایشو بنا کر پیش کرنا ، اپنی تہذیب و ثقافت اور عقائد و اقدار کو فرسودہ ظاہر کرنا اور مغربی و ہندو تہذیب و افکار کو قوم پر مسلط کرنا ، میڈیا کی ذہانت کا زیادہ حصہ اس قسم کی منفی سرگرمیوں اور ملک و قوم کے مفاد کے خلاف ہی استعمال ہو رہاہے ۔
میڈیا میں برائے فروخت ذہانت کے خریدار ملک کے سیاستدان بھی ہیں اور عالمی طاقتیں بھی ہیں ۔ میڈیا وار کا زمانہ ہے، ملکوں کو غیر مستحکم کرنے ان میں افرا تفری پھیلانے ، قوموں کو انتشار اور تفرقہ بازی کا شکار کرنے ، ان میں احساس کمتری پیدا کرنے ،ان کی خود اعتمادی مجروح کرنے کے لیے میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ میڈیا کے ذریعے ملکوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر اثر انداز ہوا جاتا ہے ظاہر ہے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے میڈیا گروپس مالکان یا صحافیوں کو خریدا جاتا ہے ۔ جو لوگ جنگ میں دشمن کے سہولت کار بن جائیں تو انہیں باغی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں میڈیا میں بیٹھے دشمن کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے کی کسی میں جرا¿ت نہیں اور ایسے صحافیوں کو باغی قرار دے کر قانون کی گرفت میں لانے کی کوئی مثال اب تک قائم نہیں کی جا سکی ۔
ذہانت اللہ تعالیٰ نے مذہبی لوگوں کو بھی خوب عطا فرمائی ہے ۔ ذہانت کی اس قسم کے خریدار بھی زیادہ تر جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں ۔ اب تو ضمیر کی ملامت سے بچنے کے لیے صنعتکاروں اور بڑے کاروباری حضرات نے اپنے ہاں ایک شریعہ ایڈوائزر کی جاب بھی وضع کر لی ہے ۔ پہلے جو ظالمانہ پالیسیاں احساس گناہ کے ساتھ اختیار کی جاتی تھیں اب شریعہ ایڈوائزر کی رہنمائی اور شرعی تصدیق کے ساتھ ضمیر کے اطمینان کے ساتھ اختیار کی جا رہی ہیں ۔ شرعی مشیر کاکام بنیادی طور پر یہ رہ گیا ہے کہ وہ کمپنی کی جاری پالیسیوں کو شرعی جواز فراہم کرنے کے لیے اپنی فقاہت اور ذہانت استعمال کرے ۔ ہمارے ملک میں لیبر اتنی سستی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ سے اپنا ماہانہ خرچ نہیں پورا کر سکتے، سرمایہ دار مکمل دن ان کا خون نچوڑتے ہیں انہیں کسی دوسرے کام کا نہ وقت دیتے ہیں اور نہ جسمانی طاقت اور معاوضہ اتنا کم دیتے ہیں کہ بیچارہ نہ اپنے بیماروں کا علاج کرنے کے قابل ہوتا ہے اور نہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے اور شریعہ ایڈوائزر انہیں مطمئن کرتے ہیں کہ کیونکہ آپ حکومت کی جانب سے طے کردہ کم از کم تنخواہ دے رہے ہیں اس لیے آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے بنی اسرائیل کی اس عورت کو خبر دی جسے اللہ نے جہنم میں اس لیے ڈالا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر رکھا، نہ اسے کھولتی تھی کہ وہ چل پھر کر اپنا پیٹ بھر لے اور نہ خود اسے کھانے کو دیتی تھی، یہاں تک کہ بلی مر گئی ۔ ہمارے ہاں مزدوروں کو گویا ملازمت میں باندھ دیا جاتا ہے اور پھر بھی اسے اتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا کہ اس کی ضروریات پوری ہوسکیں نتیجتاً سنگین المیے جنم لے رہے ہیں ۔
منفی کاموں کے لیے ذہانت بیچنے والے اور ذہانت خریدنے والے دونوں مجرم ہیں۔ کاش ہم سمجھ سکتے کہ ذہانت انسانوں کو دھوکہ دینے کے کام تو آسکتی ہے لیکن قیامت کے دن کے مالک کو دھوکہ نہیں دے سکتی ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں