کیا ماہِ صیام میں بھی سیاست کرنا ضروری ہے؟
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہِ صیام عبادات کرنے اور برکتیں سمیٹنے کا مبارک مہینہ ہے اور برسہا برس کی روایت رہی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اِس مقدس مہینے میں اپنی ہرقسم کی روز مرہ سرگرمیوں کو انتہائی محدود کرکے ساری توجہ، تو بہ و استغفار اورزیادہ سے زیادہ عبادات کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے پر مرکوز کردیتے ہیں ۔ مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ پاکستانی قوم کا یہ دوسرا ماہِ صیام ہے کہ جس کا بیشتر حصہ عبادات کے بجائے سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ گزرے برس رمضان کے مہینہ میں پاکستانی عوام کی سحری و افطاری سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں اچانک اقتدار سے رخصت ہونے پر آہ و فغاں سنتے ہوئے گزری تھی تو رواں برس کا ماہِ صیام پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسوں اور ریلیوںکی زد پر آیاہواہے۔ بظاہر عمران خان ریاستِ مدینہ تشکیل دینے کے دعوی دار ہیں ، لیکن دوسری جانب اُنہیں اِس بات کی ذرہ برابر بھی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اُن سے عقیدت اور محبت رکھنے والے پیروکاروں کو ماہِ صیام میں سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے کتنی مادی تکلیف اور روحانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔
عمران خان کی طرف سے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے لوگوں کو مادی و ظاہری مشکلات میں مبتلا کرنا تو بالکل سمجھ میں آتاہے کیونکہ ہر سیاست دان اقتدار پانے کی حرص میں یہ ہی کچھ کیا کرتاہے ۔ مگر جس طرح سے پاکستان تحریک انصاف رمضان المبارک میں اپنے کارکنان کی توجہ روحانی اُمور سے ہٹاکر سیاسی سرگرمیوں کی طرف منتقل کرنے پر اصرار کرتی آرہی ہے ۔یقینا یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔حالانکہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت تھوڑی سی عقل مندی اور سیاسی فہم و فراست سے کام لیتی تو وہ اِس ماہ رمضان میں اپنی تمام تر سیاسی سرگرمیوںکو مکمل طو رپر معطل کرکے مستقبل میں کئی سیاسی اہداف بھی حاصل کرسکتی تھی ۔ مثال کے طورپر ایک ماہ کے لیے سیاسی سرگرمیاں معطل ہونے سے پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھی تھوڑا سا سانس لینے کا موقع مل جاتا اوربے چارے کارکنان جو کم و بیش ایک برس سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمران خان کی احتجاجی تحریک کا ایندھن بنتے آرہے ہیں ، اُنہیں بھی تھوڑا ذہنی سکون ، جسمانی آرام اور معاشی عافیت حاصل ہوجاتی اور وہ حکومت مخالف کسی نئی تحریک چلانے کے لیئے خود کو اچھی طرح سے تازہ دم کرلیتے۔ نیز ایک ماہ کے لیے سیاسی سیز فائر کرنے سے پی ٹی آئی کی قیادت کو ازسرنو اپنی سیاسی و احتجاجی حکمت عملی ترتیب دینے کا بھی کچھ وقت میسر آجاتا۔ کیونکہ جس تواتر کے ساتھ اَب تک پی ٹی آئی قیادت کی سیاسی حکمت عملیاں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں ۔اُن کی وجوہات کا جائزہ لینے کا یہ سنہری وقت تھا۔ جبکہ ایک ماہ تک زمان پارک میں سیاسی کے بجائے روحانی سرگرمیوں کے شروع ہوجانے سے ملک بھر میں یہ تاثر بھی اُجاگر ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے سیاسی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے جملہ کارکنان کی اُخروی عاقبت کی بھی خوب فکر ہے۔
مگر شومئی قسمت کہ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو معطل یا کمی کرنے کے بجائے ،بے پناہ اضافہ کردیا ہے ۔جبکہ دوسری طرف حکومت نے بھی پی ٹی آئی کی طرف سے پھینکے جانے والے احتجاجی پتھر کا جواب انتظامی اینٹ سے دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان محاذ آرائی کی اِس ساری صورت حال سے ہر پاکستانی انتہائی بُرے طریقے سے متاثر ہورہاہے اور اُسے لمحہ بہ لمحہ ملکی سیاسی حالات سے باخبر رہنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ حکومت اور عمران خان کی درمیان جاری اقتدار کی جنگ میں فی الحال کس کا پلہ زیادہ بھاری ہے ۔ہر تھوڑی دیر کے بعد نیوز چینل یا پھر سوشل میڈیا کو ملاحظہ کرنا پڑتاہے ۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کا وہ قیمتی وقت جو فرض اور نفلی عبادات میں صرف ہونا چاہیے ،وہ بڑی بے دردی کے ساتھ غیر ضروری سیاسی سرگرمیوں میں ضائع ہورہا ہے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف سے یہ مطالبہ کرنا کہ ماہِ صیام کے بقایا ایّام میں اپنی سیاسی سرگرمیوں سے دست بردار ہوجائے ،اِس لیئے قطعی بے معنی اور اپنا سر دیوار سے ٹکرانے کے برابرہے کہ سرِدست عمران خان کو کرسی اقتدار کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور وہ جلدازجلد واپس واپس وزیراعظم ہاؤس میں پہنچنا چاہتے ہیں اور اپنے اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے ابھی تو انہوں نے صرف دو ماہِ رمضان کی روحانی ساعتوں کو سیاست سے آلودہ کیا ہے۔لیکن غالب امکان یہ ہی جب تک اُنہیں مسند اقتدار پر دوبارہ سے بٹھایا نہیں جاتا وہ کسی بھی آنے والی اچھی یا بُری ساعت کی کوئی خاص پرواہ نہیں کریں گے۔
ہاں ! وہ عام لوگ جو عمران خان کی جانب سے لگائے جانے والے بعض خوش کن اور دلفریب سیاسی نعروں کے سحر کا شکار ہوکر سیاست کے بخار میں مبتلا ہیں ۔اُنہیں بہرحال ضرور یہ نصیحت کی جاسکتی ہے کہ وہ رواں ماہِ صیام میں اپنا دل سیاست کے کانٹوں میں اُلجھانے کے بجائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے میں لگائیں ۔تاکہ وہ اپنے دامن کو دنیا بھر کی سیاسی آلودگی سے بھرنے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ ماہِ رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹ سکیں ۔ کیونکہ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اگلا ماہ ِ صیام کس خوش نصیب شخص کو دیکھنے کو ملے اور کس کو نہ ملے ۔ جہاں تک بات سیاست کی ہے تو یہ رمضان المبارک کے اختتام کے بعد بھی کی جاسکتی ہے ۔ ویسے بھی جس طرح کی نفرت آمیز اور پرتشدد سیاست کی راہ پر عمران خان چل نکلے ہیں ،اُس کا انجام اور نتیجہ ایک دو دن یا پھر ایک دو ماہ میں نہیں آیا کرتا۔ بلکہ ایسی سیاست کو اپنے منطقی انجام تک پہنچے میں کئی برس درکار ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭