عبرت ناک جیت
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
جس اسمبلی کے پہلے اجلاس کی ابتدا ہی چور چور کے نعروں سے ہو، اس اسمبلی کے مستقبل کا فیصلہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے اب تو ویسے بھی 2024 کے انتخابات میں جیتنے والے ہارنے والوں سے زیادہ پریشان ہیں اور انہیں حکومت سازی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ 8فروری کی رات پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں قوم کے مستقبل پر ڈاکا ڈالا گیا۔ن لیگ، پی پی اور ایم کیو ایم کی "عبرت ناک جیت ” ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جہاں عوام کے ووٹ کی قدر نہ ہو وہ ملک دنیا میں تماشا بن جاتا ہے۔ ساڈی گل ہوگئی ہے اور ان کے حواریوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ابھی حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے میں بھی تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا اور آپکی طرف سے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی بازگشت شروع ہو چکی تھی جو اب شدت اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے ہمارے تمام اثاثے گروی رکھے جا چکے ہیں۔ اگر کچھ بچا ہے تو اسے نجکاری کے نام پر فروخت کرنے کی پالیسی بھی آپ لوگوں نے بنا لی ہے۔ مزید گروی رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اثاثے باقی نہیں رہے۔ ابھی آئی ایم ایف کی ایک قسط تقریباً 27 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنی ہے اور مزید آٹھ ارب ڈالر قرض لینے کی تذکرے شروع ہو چکے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آ رہا کہ یہ قرض واپس کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کیاہوگی؟ آمدنی کے وہ کون سے ذرائع ہیں کہ جس سے پاکستان سے یہ بوجھ کم کیا جا سکے گا؟ یہاں تو مزید بوجھ بڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں کیا عوام نے ان جماعتوں کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ پاکستان کو مسائل اور مصائب کی دلدل سے نکالنے کے بجائے اسے مزید مشکلات میں دھکیل دیں ہمارے سیاستدانوں نے روایتی طرز عمل پر اسی طرح قرض لیا اور اس سے نہ صرف اپنی عیاشی کے سامان پیدا کیے بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کرپشن کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنائے اورپھر آخر میں قرض کی ادائیگی کا بوجھ پاکستان کی عوام پر ڈال کے حکومت کرنے والے افراد کنارہ کشی اختیار کر جاتے ہیں ۔ عوام پہلے ہی بجلی گیس کے بلوں اور اشیاء ضرورت کی مہنگائی کی چکی میں پسے جا رہے ہیں اور آئندہ لیا جانے والا قرض آئی ایم ایف نے پہلے سے زیادہ کڑی شرائط پر دینا ہے۔
الیکشن سے پہلے ہمیں روایتی سیاسی وعدوں اور دعووں کے سبز پاغ دکھائے گئے 200یونٹ اور 300 یونٹ مفت بجلی کا لالی پاپ دیا گیا۔ ہمیں اس بات کو ذہن میںرکھنا چاہیے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آئی ایم ایف کڑی شرائط پر قرضہ دیگا جو عوام پر مہنگائی بم بن کر گرے گا۔ اب تو عوام کی رگوں میں وہ خون بھی باقی ہی نہیں بچا جسے ہمارے حکمران چوس سکیں تو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق ملک میں غریب انسان اپنے نہیں تو اپنے بچوں کے زندہ رہنے کے لیے کیا طوفان لا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں ابھی سے کر لینا چاہیے اور بنا کسی سیاسی وابستگی کے صرف ایک پاکستانی بن کر سوچیں کہ عوام کی بقا اور ملکی استحکام کے لیں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ آنے والے طوفان کی زد میں سب نے آنا ہے کسی کو بھی سیاسی وابستگی کی بنا پر کوئی استثنا نہیں ملے گا،سوائے انکے جنکا سب کچھ باہر ہے۔ وہ بڑے آرام سے پاکستان کو چھوڑ جائیں گے۔ اس پر ہمیں سب کو ذرا نہیں بلکہ پورا سوچنا چاہیے کہ نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل لے کرکے 50روپے کے اسٹیمپ پیپر پر علاج کروانے کے بہانے ملک سے گیا تھااور پھر باہر سے ایک سازش اور ڈیل کے ذریعے بھائی کووزیراعظم بنوایا، پھر نیب قوانین میں ترمیم کروائی پھر ڈیل کرکے مقدمات ختم کروائے ،پھر ڈیل کرکے ملک واپس آنے کی راہ ہموار کی، پھر ڈیل کے تابع ائیر پورٹ پر بائیو میٹرک ہوا، پھر ڈیل کے تحت یکلخت سارے مقدمات خارج ہوئے ، پھر ڈیل کے تحت الیکشن لڑنے کی اجازت ملی، پھر ڈیل کے تحت پی ٹی آئی کو ختم کرکے انتخابی نشان تک چھین لیا گیااور مخالف کو کمپین تک نہ کرنے دی گئی، پھر ہر طرح کی سپورٹ کے باجود جب الیکشن میں صرف سترہ سیٹیں ملی تو اس کے بعد امیدواروں کے رزلٹ روک لیے گئے اور پھر اپنی مرضی کے جعلی رزلٹ تیار کروائے گئے۔ حالانکہ آٹھ فروری کوہونے والے انتخابات سے قوم کوامیدتھی کہ اس کے بعدملک میں استحکام آئے گا اورنئی حکومت ایک واضح مینڈیٹ سے ملک کوبحرانوں سے نکالنے میں کرداراداکرے گی لیکن وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر ملک کی خدمت کرتے ، سیاسی پارٹیاں اقتدارکے لیے غیر جمہوری قوتوں سے تعاون لینا بند کرتی مگراقتدارکی دوڑمیں اپنے عہدکاپاس نہیں کیاگیا۔ دنیا کے ہر ملک میں الیکشنز قومی وحدت اور استحکام کا باعث بنتے ہیں لیکن پاکستان میں ہرانتخاب کے بعد مزید تباہی و بربادی کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بھی سیاسی جماعتیں کرسی کے لیے دست وگریبان ہیں ایٹمی ملک کی صلاحیت کے حامل ملک کی سیاسی جماعتوں کارویہ بچگانہ اورغیرجمہوری ہے۔ یہ کیسے الیکشن ہوئے ہیں کہ جس کے بعدجیتنے اور ہارنے والے دونوں دھاندلی کی شکایات اوراحتجاج کررہے ہیں۔ کسی کی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور اوپر سے چیف کمشنرراولپنڈی کی پریس کانفرنس نے ملک کی چولیں ہلاکررکھ دی ہیں ۔لیاقت چٹھہ کے الزاما ت کوآسانی سے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ اتنے اہم عہدے پرفائزشخص کے الزامات کی تحقیقات کسی غیر ملکی ایجنسی سے کروائی جائیں۔ ملکی اداروں نے تو اپنی ساکھ خود ہی تباہ کرلی ہے ۔بالخصوص الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت عوام کے ووٹ کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ملک اب مزید کسی آئینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔عوامی مینڈیٹ پر ڈاکاڈالنے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے والوں کوفوری طورپر قانون کے کٹہرے میں لاکرآئین پاکستان کو اصل حالت میں نافذ العمل بنانا پوری قوم اورعدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت جمہوری استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے۔ ملک کے باشعور عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ تمام ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ یہ ملک آگے چل سکے،عوام کو ان کا حق دینے سے ہی ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا، ملک کے 25کروڑ عوام اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی امید رکھتے ہے، اس وقت پاکستان کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی بحران جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔