لبرل جمہوریت کابحران
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
”جب مذہب ابدی حقائق کی ارفع اقلیم کوترک کردیتاہے،اورنیچے اترکے دنیاوی جھمیلوں میں دخل اندازی شروع کردیتاہے،تووہ اپنی اور دنیاومافیہاکی ہرشے کی ہلاکت کاباعث بن جاتاہے”۔(عثمانی سیاستدان،مصطفی فاضل پاشا،1867ئ)
10اپریل2018کوقومی قانون سازمجلس(پارلیمان)سے اپنے ہفتہ وارخطاب کے دوران ترکی کے طاقتورصدرطیب اردگان اور ان کے وزیرتعلیم عصمت یلمازکے مابین ایک مختصرگفتگوہوئی،جس کے کچھ حصے غلطی سے ٹیلی ویژن پرنشرہوگئے جبکہ مائیکروفون کوبندرکھنے کااہتمام تھا۔ یہ ایک دلچسپ منظرتھا۔اپنے خطاب کے درمیان میں،اردگان نے یلماز کواسٹیج(پوڈیم)پربلایا،اورالحادی الہیات پررپورٹ کے بارے میں دریافت کیا،جس کاذکران کے کلیدی سیاسی اتحادی”دولت باغچہ لی”نے کچھ گھنٹے قبل ہی اپنی ایک تقریرمیں کیاتھاجب وزیر نے،بصداحترام،اپنے صدرکواس رپورٹ کے نتائج کی بابت آگاہی دینے کی کوشش کی،تو اردگان کویہ کہتے ہوئے سناگیا، نہیں،ایسانہیں ہوسکتا۔
مذکورہ رپورٹ کوچندہفتے قبل ہی ترکی کی وزارتِ تعلیم کی ایک مقامی شاخ نے تیارکیاتھا،اوراس نے اردگان حکومت کونوجوان نسل کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی الحادی الہیات کے حوالے سے متنبہ کیاتھا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت کی زیرنگرانی چلنے والے مذہبی اسکولوں کے اندربھی الحادی الہیات کاکھوج ملا،یہاں تک کہ دینی تعلیم دینے والے امام حطیب نامی مکاتیب کے اندربھی،جہاں اردگان کے دورِحکومت میں حکومتی ترغیبات اورسرکاری بھرتیوں کے طفیل داخلوں کی تعدادآسمان کو چھوچکی ہے،طلبہ کی ایک کثیر تعداد اسلام پرایمان کھورہی تھی۔رپورٹ کے نتیجے کے مطابق مکمل الحادکواختیارکرنے کی بجائے، (ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھنے والے)نوجوانوں کی کثیر تعداد الحادی الہیات کاانتخاب کر رہی ہے۔اس سے مرادہے کہ ایک نئی پاک باز /نیکوکارنسل کی آبیاری کے واسطے ہونے والی اردگان حکومت کی جان توڑکاوشوں کے باوجود،ترکی کے نوجوانوں کاایک قابل ذکر حصہ اسلامی عقیدے سے دورہٹتے ہوئے،ایک غیرمعین وغیرواضح خدا پر یقین کرنے کاانتخاب کررہاہے۔
حالیہ برسوں کے اندراس سماجی رجحان کامشاہدہ بہت سے دوسرے ترکوں کوبھی ہواہے،اوراس وقت یہ معاملہ ترک قوم کے ہاں زبان زدِ عام بن چکا ہے۔ہماری نوجوان نسل الحادی الہیات کی جانب کیوں کرمائل ہورہی ہے؟اس سوال کے حوالے سے(ترکی کے)پرنٹ میڈیامیں سیکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں اورٹی وی پردرجنوں مکالماتی نشستیں منعقدہوچکی ہیں۔ اپریل2018میں ڈائریکٹرمذہبی امور،علی ایرباش نے پہلے پہل توالحادی الہیاتی عقیدے کے فروغ کی بابت منظرعام پرآنے والی رپورٹوں کی مکمل تردیدکی نیزاس امکان کویکسرجھٹلایاکہ ہماری قوم کاکوئی فرد(الحادی الہیات)ایسے گمراہ کن تصورمیں دلچسپی لے سکتاہے۔تاہم پانچ ہی مہینوں کے بعدایرباش کے محکمے نے الحادی الہیات کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔
سوال یہ ہے کہ ترک قوم میں الحادی الہیات کی وباکیوں پھیل رہی ہے؟اس الحادی الہیات کی وباجیساکہ ترکی کے قدامت پرست مذہبی حلقے اس کومنسوب کرتے ہیں،کے پسِ پردہ قوت کیاہے؟اردگان کے بعض حمایتی پنڈتوں نے اس سوال کاجواب اسی شے میں کھوجا ہے کہ مغربی سازش کے اندازِجہاں بینی کی بنیاد پریہ وباپھیل رہی ہے۔مثال کے طورپر دنیائے صحافت (میڈیا)کے معروف مسلمان مبلغ نہادہاتپ اوغلو کے نزدیک”مغربی سامراج”نے جلیل القدرترک قوم کوالحادی الہیات کاٹیکہ لگایا،بالخصوص ایسے وقت میں ترکی کو کمزورکرنے کے واسطے جب وہ آخرکاردوبارہ سے شاہراہِ عظمت پرگامزن ہے نیزاپنی اسلامی بنیادوں کی جانب پلٹ رہاہے۔ اعلیٰ سطح کے سرکاری مذہبی رہنما علی ایرباش کے نزدیک ، نوجوان ترک نسل کے الحادی الہیات کی جانب مائل ہونے کے پیچھے حقیقی قوت،مغربی مبلغین ہیں،جومفروضے کے طورپراس جتن میں ہیں کہ نوجوانوں کواسلام سے دور کرنے کی غرض سے الحادی الہیات کی جانب متوجہ کیاجائے اورپھربعدازاں ان کومسیحی بنالیاجائے۔
تاہم دوسرے ترکوں کے نزدیک الحادی الہیات سے متعلق تمام تربحث ایک بہت بڑی سازش کی بجائے اعلیٰ درجے کی ستم ظریفی پر مبنی ہے:ترک قوم،جواپنی99فیصد مسلم آبادی پر اکثروبیشترفخرکااظہارکرتی ہے،اس کے اندرایک ایسے وقت میں اسلام سے بے نظیردوری وقوع پزیر ہورہی ہے جب اسلام کے علمبرداریعنی اسلامیت پسند بشمول صدرطیب اردگان اوربرسراقتدارجسٹس اور ڈیولپمنٹ پارٹی میں اردگان کے وفادارحضرات،ماضی کے مقابلے میں سیاسی اعتبارسے نسبتاًبہت زیادہ طاقتور ہیں۔ درحقیقت،کوئی اس طرح سے استدلال کرسکتاہے کہ یہ ایک ستم ظریفی نہیں ہے بلکہ ایک قابل فہم سلسلہ علت ومعلول ہے:
اسلامسٹوں(اسلامیت پسندوں)کے اقتدارمیں ہونے کی بدولت ہی اسلام سے دوری میں اضافہ ہورہاہے۔چونکہ جسٹس اورڈیولپمنٹ پارٹی کااقتدار،یقینی طورپر استبدادی، بدعنوان اورظالم ثابت ہوچکاہے،چنانچہ بعض ایسے لوگ جواس پارٹی کی طاقت اورایجنڈے سے خار کھاتے ہیں،وہ اسلام سے بھی دوری اختیارکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ترکی میں بہت سے لوگ یہی دلیل دے رہے ہیں۔ایسے لوگوں میں سے ایک تمل قاراملااوغلو ہیں،جوحزبِ سعادت کے رہنماہیں۔جسٹس اورڈیولپمنٹ پارٹی کی ماننداس پارٹی کی جڑیں بھی اسلام ازم(اسلامیت)میں پیوست ہیں،تاہم اس نے اردگان حکومت کے خلاف مرکزی سیکولرحزب اختلاف کے ساتھ اتحادقائم کر لیا ہے۔ قاراملااوغلونے جون2019 میں کہاتھاکہ مذہب کی نمائندگی کے دعویداروں کی بدولت ترکی میں خوف وآمریت کاراج ہے،اوراسی وجہ سے لوگ اسلام سے دوربھاگ رہے ہیں۔قاراملااوغلوکی چھوٹی سی پارٹی مذہبی قدامت پرستوں کی ایک ایسی اقلیت،جس کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے،کی نمائندگی کرتی ہے جواردگان حکومت سے تنگ ہے۔ ایسے ترک رائے دہندگان کے سامنے دونئی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں،جو”اے کی پی”کے مرکزی سابقہ اہم رہنما ہیں انہوں نے اپنی راہوں کواردگان سے جداکرلیاہے:سابق وزیراعظم احمدداوداوغلوکی رہنمائی میں فیوچر پارٹی اورسابقہ ماہرمعاشیات علی باباجان کی زیرِ قیادت تحریک نجات میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔
امریکامیں رہائش پزیرترک ماہرسماجیات مجاہدبیلی جی ایک دوسرے نقادہیں،جوایک باعمل مسلمان ہیں اورالحادی الہیات کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کوترکی اسلام ازم (اسلامیت )میں مذہبیت کے بحرانکاایک حصہ قراردیتے ہیں۔ان کے نزدیک،مصطفی کمال کے سیکولرنظام کوآخرکارشکست سے دوچارکرنے کے بعدترکی مذہبیت نے آزادی کے ساتھ سانس لینے کاآغازکیاہے۔تاہم،اس کے نتیجے میںترکی مذہبیت کوآزمائش کی ایک بھٹی سے گزرناپڑاہے۔یہ مذہبیت سیاسی اعتبارسے کامیابی سے ہمکنارہونے کے باوجود روحانی اعتبار سے ناکام ٹھہری ہے۔مزیدیہ کہ الحادی الہیت کاظہوراس ڈرامائی ناکامی کاایک نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات اس پرزوردیناچاہیے کہ اس عمل کاتعلق کمالی سیکولر ازم یعنی جدیدترکی کے بانی سیاست دان مصطفی کمال کی ریاستی سیادت کے تحت کارفرماسیکولرائزیشن منصوبے کے ساتھ بہت ہی کم ہے۔اس کے برخلاف،یہ ایک نامیاتی سیکولرائزیشن ہے جوکلیتًاپرامن ہے اور ریاستی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ سرکاری پالیسیوں کے باوجودرونماہورہاہے۔یہ ایک مقامی اورترک روشن خیالی کانتیجہ ہے نیز مابعد اسلامسٹ(اسلامیت پسند)جذبے کا ثمرہے۔اپنے والدین کے مذہبی دعوں،جنہیں وہ ریاکارانہ یامنافقانہ سمجھتے ہیں،سے مایوس ہو کرنوجوان نسل انفرادی روحانیت اورروایت کے ایک خاموش انکارکاانتخاب کررہی ہے۔
یادرہے کہ پچھلی دہائی میں جوکچھ ترکی میں ہواہے،وہ اس سے بدرجہاکم ہے جوپچھلی چاردہائیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہو چکا ہے۔وہاں بھی معاشرے کے نسبتاًزیادہ بلند آہنگ اسلامی طبقے،جسے سیکولرحکومت کے تحت لگ بھگ ایک صدی تک دیوارکے ساتھ لگا دیاگیاتھا،نے ایک انقلابی ولولے کے ساتھ دوبارہ سے اقتدارحاصل کرلیا۔ایران میں 1979 سے شروع ہونے والااسلامی انقلاب زیادہ واضح اورخونی اوصاف سے متصف تھا۔اس کے برعکس،ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت میں زورپکڑنے والا انقلاب نسبتًا ملائم، بتدریج،جمہوری اورقدرے پرامن تھا۔تاہم اس کے باوجوددونوں ملکوں کے حوالے سے یہ کہنابجاہے کہ یہاں نافذ اسلام ایک انتقامی جذبے کے تحت سیاسی قوت کی صورت میں سامنے آیا،لیکن اس سے صرف غیرمتوقع نتائج برآمدہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ1979کے ایرانی انقلاب کواپنے اصل مقصدیعنی ایرانی معاشرے کی دوبارہ سے اسلام کی جانب واپسی کی بجائے،کم ازکم جزواہی سہی تاہم اس کے الٹ،یعنی ایران کی اسلام سے دوری،کے حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔تہران جانے والے غیر ملکی روزمرہ زندگی میں اکثروبیشتران نتائج کامشاہدہ کرتے ہیں۔نکولس پیلم ایسے ہی ایک سیاح ہیں جودی اکانومسٹ اخبارکے مشرق وسطی میں نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ان کو2019کے موسم گرمامیں ایرانی انٹیلی جنس نے ہفتوں تک حراست میں رکھااورپھررہائی کے بعدہی وہ درج ذیل مشاہدات کورپورٹ کرنے کے قابل ہوئے۔”ایران کی مذہبی شہرت کے باوجود تہران شایدمشرق وسطیٰ کاوہ دارالحکومت ہے جوسب سے کم مذہبی ہے۔اخبارمذہبی رہنماوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں،جوقسط وارڈراموں میں معاشرے کے بڑوں کاکرداراداکرتے ہیں،لیکن میں نے ان کواشتہاری بل بورڈوں کے علاوہ گلیوں محلوں میں کبھی نہیں دیکھا۔بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں کے برخلاف، تہران میں اذان کی صداتقریبا سنائی ہی نہیں دیتی۔نئی مساجدکی تعمیرکے واسطے ایک بھرپورمہم برپاہے،تاہم جمعہ کے روزنمازجمعہ ادا کرنے کی بجائے لوگوں کی اکثریت آرٹ گیلریزکوجاتی ہے۔شراب ممنوع ہے تاہم پیزاکے مقابلے میں گھر پر شراب زیادہ جلدی پہنچائی جاتی ہے۔اپنے گھروں کی محفوظ چاردیواری کے اندرخواتین اکثروبیشتراپنے سرکوڈھکنے والے حجابات کواتاردیتی ہیں،جب وہ انٹرنیٹ پر گفتگوکرتی ہیں۔تاریک سینماہال،اخلاقی نظم وضبط کا نفاذکرنے والی پولیس کی نگاہ سے بچنے کاموقع فراہم کرتے ہیں۔کیفے میں خواتین بے اطمینانی کے سبب اپنے اسکارف کھول دیتی ہیں۔قدرے زیادہ شوخ وبے باک خواتین دس برس کی قیدکاخطرہ مول لے کرگلیوں میں بے حجاب نکلتی ہیں۔ایران خودکوایک ملائی حکومت قراردیتاہے،اس کے باوجودمذہبیت کوتلاش کرنا پریشان کن حدتک مشکل معلوم ہوتاہے نیزحقیقی مذہبی پیروکارکسی اقلیت کی مانندحاشیے تک محدوددکھائی دیتے ہیں۔
عمل صالح سے ہمہ گیردوری،اسلام کی تشکیلِ نوکی بابت ایرانی انقلاب کے ولولے کی ناکامی کی صرف ایک جہت ہے۔اسلام سے کھلم کھلا انحراف نسبتاًزیادہ سنگین جہت ہے یعنی ایک انتہائی ناگوارفعل جس سے روکنے کے واسطے اسلامی جمہوریہ ایران سزائے موت کے نفاذکی خواہاں ہے۔جیساکہ میں نے کسی دوسری جگہ لکھاکہ ایران مسلم اکثریت کاحامل ملک ہے جومرتدین کی تعدادکے اعتبارسے سرفہرست ہے۔ ان سابقہ مسلمانوں کی اکثریت مسیحیت اختیارکرتی ہے جس کی بدولت ایرانی کلیسا،دنیاکاسب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والاچرچ ہے۔ایک مطالعے کے مطابق،1960سے لیکر2010 تک کے درمیانی عرصے میں دائرہ اسلام سے نکل کر مسیحیت اختیارکرنے والوں کی تعدادتقریباایک لاکھ تھی جواب ایک حالیہ مطالعے کے مطابق یہ تعداد ڈھائی سے لیکرپانچ لاکھ لوگوں کے لگ بھگ تک پہنچ چکی ہے۔مذہب بدلنے والوں میں سے بعض خفیہ طریقے سے اپنے نئے عقیدے پرعمل کرتے ہیں اوربعض اپنی جانوں کوبچانے کے واسطے بیرون ملک فرارہوجاتے ہیں۔
علاوہ ازیں،کچھ ایرانی مرتدین مسیحیت اختیارنہیں کرتے بلکہ اس کی بجائے کھلم کھلاملحدبن جاتے ہیں۔ایسے لوگوں میں سے ایک اعظم کمگویان نامی خاتون ہے جوتاثینی حوالے سے سرگرم ہے اوربمشکل ہی ایرانی انقلاب کے ہاتھوں سے محفوظ رہی،بیرون ملک منتقل ہوگئی اورکئی کتابیں بشمول ”لادینیت، مذہب سے چھٹکارااورانسانی مسرت ” تحریرکیں ۔ ایک دوسری کتاب میں،مذکورہ خاتون نے نہایت پرجوش اندازمیں اس بارے میں لکھاکہ1979کے بعدایران میںاسلام نے تین متواترنسلوں کی زندگیوں،خوابوں، امیدوں اورامنگوں کوکیسے تباہ کرڈالا۔ یقیناان تمام عوامل کے پس پردہ قوت،اسلام بذاتِ خودنہیں تھابلکہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ بظاہریوں دکھائی دیتاہے کہ مابعدانقلاب کے ایران میں ان دونوں کوباہم گڈمڈکردیناآسان ہے۔
عرب دنیاسے متعلق بھی جان لیجیے۔یقینایہ ایک بڑااورمتنوع منظرنامہ ہے،جومختلف سیاسی تواریخ اورنظاموں کے علاوہ جداجدا فرقوں،نسلوں یاقبائل کے حامل22آزاد ممالک پرمشتمل ہے۔تاہم،عرب دنیامیں لادینیت کی ایک نئی لہرکے آثارکامشاہدہ ممکن ہے۔پرنسٹن اورمشی گن کی دانش گاہوں میں واقع عرب بیرومیٹرنامی ایک تحقیقی نیٹ ورک نے حال ہی میں اس قسم کے چندآثارکونشان زدکیاہے۔چھ عرب ممالک(الجیریا،مصر،تیونس،اردن،عراق اورلیبیا)میں ہونے والی رائے شماری میں اس تحقیقی نیٹ ورک کے محققین نے اس بات کودریافت کیاکہ عرب مذہبی جماعتوں اوررہنماؤں کے حوالے سے بدظن ہورہے ہیں۔چنانچہ پانچ برس کے عرصہ میں اسلامی جماعتوں پراعتبارنہ کرنے والے عراقیوں کی تعداد51سے بڑھ کر78فیصدتک پہنچ گئی تھی،متذکرہ بالاممالک میںاسلامی جماعتوں پراعتبارکاتناسب2013میں35فیصدتھا،جو2018میں گھٹ کر20فیصد رہ گیا۔مسجدمیں جانے والوں کی تعدادمیں بھی اوسطا دس فیصدسے زیادہ کمی ہوئی،نیز2013میں اپنے آپ کوغیرمذہبی کہنے والے عربوں کی تعداد8فیصدتھی جو2018میں13 فیصد ہوگئی۔
ایساکیوں کرہورہا ہے؟ایک جواب یہ ہے کہ حال ہی میں عرب دنیاکے اندراسلام کے نام پربہت زیادہ خطرناک واقعات رونماہوئے ہیں۔ ان واقعات میں شام،عراق اوریمن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پرہونے والی خانہ جنگیاں شامل ہیں،جہاں متحارب گروہوں نے اکثروبیشتر انتہائی ظالمانہ اندازمیں خداکے نام پرجنگ میں حصہ لیاہے۔ان جنگوں سے متاثرہونے والے لاکھوں مقامی اوردوربیٹھ کران حالات کا مشاہدہ کرنے والے،دونوں ہی مذہبی سیاست کے ہاتھوں شدیدصدمے اورمایوسی کے تجربے سے گزرے ہیں،نیز چند ایک نے عمیق سوالات کواٹھاناشروع کردیا۔سخت سوالات پوچھنے اوران کے نتیجے میں مذہب سے ہاتھ دھوبیٹھنے والوں میں سے ایک،بغدادکارہائشی52برس کاعمررسیدہ ابو سمیع نامی شخص ہے،جس نے ایکڈھکے چھپے عراقی ملحد کی حیثیت سے اپریل2019میں امریکاکے خبررساں ادارے قومی ”این بی سی”نشریاتی کمپنی سے بات چیت کی۔رپورٹ کے مطابق،اس نے کہاکہ ہم سنتے تھے کہ اسلام امن کا دین ہے،تاہم داعش نے عفریتوں اوروحشیوں،بلکہ ان سے بھی بدترسلوک کیااوراسی نکتے کے سہارے ابوسمیع نے ایک بڑامقف اختیارکیاکیااسلام ایک امن پسندمذہب ہے؟ بالکل نہیں،اورمیں ایسے مذہب کاحصہ بن کرنہیں رہناچاہتا۔
ایک دوسراعراقی شہری،اسلامسٹ(اسلامیت پسند) دانشوراورمحقق”غالب الشابندربھی اس صورتحال کاجائزہ لے رہاہے اورایک مسلمان کی حیثیت سے اس بابت پریشانی کاشکار ہے۔وہ تنبیہ کرتاہے کہ اسلامی جماعتوں کی الٹی حرکتوں کی بدولت لادینیت کی ایک لہرعراق میں پھیل جائے گی۔یہی وہ حرکتیں ہیں جس نے لوگوں کواسلام ودیگرمذاہب کوترک کرنے پرمجبورکردیاہے۔داعش اوراس کے ذیلی گروہوں کی بربریت کے علاوہ،بشارالاسدحکومت کے جبرکے نتیجے میں،کٹے پھٹے ہمسایہ ملک شام میں بھی ایسا ہی رجحان موجود ہے: شامی نوجوانوں کے ہاں ارتداد میں اضافہ۔ تشدد اور انتشار کی اس صورتحال کے بیچوں بیچ، مصری لکھاری شام العلی لکھتاہے کہ مذہب (اسلام) پرہونے والی تنقیدپہلے سے زیادہ زورپکڑچکی ہے،اور بہت سے شامی نوجوان بالخصوص یورپ کے باسی،اپنے قدیم مذہبی طرزِحیات کوترک کررہے ہیں۔وہ مزیدکہتاہے کہاجتماعی سطح پربھی عرب سوشل میڈیامذہب مخالف نقادوں اور ان کے(مذہب دشمن) موادسے لبالب ہے،جواس بات کی پرجوش دعوت دیتاہے کہ مذہبی اساطیرکی حیثیت کوازسرنو طے کیاجائے،یاپھروہ مذہبیت کاخوب ٹھٹھااڑاتاہے۔
سوڈان بھی اسلام ازم(اسلامیت)کے ایک ہولناک تجربے سے گزراہے۔مسلم اکثریت کی حامل افریقی قوم نے 1989 تا 2019 کا عرصہ، فوجی صدرعمرالبشیرکی آمرانہ حکومت کے تحت گزاراہے۔2019کے اوئل میں ہونے والے عوامی احتجاجوں یاسوڈانی انقلاب کے نتیجے میں البشیرکااقتدارختم ہوا،اوراس کی حیران کن بدعنوانی بھی آشکار ہوئی : سیکورٹی فورسزنے350ملین ڈالرکی نقدی صرف اس کی رہائش گاہ سے برآمدکی۔یہ ایک عوامی سبق تھاکہایک شخص جس نے اپنے غربت زدہ ابتدائی حالات کاذکرکرتے ہوئے ہمیشہ عوامی جذبات کوبھڑکایاتھا،وہ صر ف عوام کی نسلوں کی تباہی کے واسطے اپنے لالچ اورہوس کوچھپارہاتھااورعوام نے واقعی یہ سبق سیکھ لیا۔قطری نژاد ایک ممتازمسلم عالم، عبدالوہاب الآفندی کے بقول،مابعدانقلاب دورکے سوڈان میںاسلام ازم بدعنوانی ،منافقت،ظلم اوربدعقیدگی کانشان بن گیا۔معروف معنوں میں سوڈان ہی وہ پہلاملک ہے جوحقیقی معنوں میں(اسلامیت پسندوں کا)مخالف ہے۔
اس موقع پریہ نشاندہی کردیناشایدکارآمدثابت ہوکہ ہم یہاں دوباہم منسلک مگرامتیازی رجحانات کے متعلق بات کررہے ہیں۔ ترکی، ایران، سوڈان اورکسی بھی دوسرے ملک میں اسلام ازم(اسلامیت)بیزاری،عین ممکن ہے کہ خوداسلام بیزاری کی جانب لے جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیزاری،لادینیت یاالحادی الہٰیت یاپھرمسیحیت کی جانب لے چلے یاپھر ہو سکتاہے کہ مذکورہ امرکے سبب انسان نسبتاًکم سیاسی عقیدے کی آرزوکرنے لگے۔موخرالذکرسبب یقیناتمام مابعداسلامسٹ پس منظروں میں موجودہے،اورہوسکتاہے کہ آخرمیں مذکورہ رجحان(نسبتاًکم سیاسی عقیدے کی آرزو)مکمل ترکِ اسلام کے مقابلے میں زیادہ زورپکڑلے۔تاہم اسلام ازم کوسنی یاشیعہ اسلام کے مرکزی دھارے سے جداکرناسہل نہیں ہے۔اسلامسٹ(اسلامیت پسند)جماعتیں مثلاًمصرمیں اخوان المسلمون،شایدمذہب کوسیاست سے مزیدآلودہ کررہی ہوں نیزدہشت گردگروہ اس آلودگی میں اندھادھندتشددجیسے گمراہ کن عنصرکا اضافہ کررہے ہیں۔تاہم یہ سبھی لوگ(اسلامیت پسندجماعتیں اوردہشت گردگروہ) اسلام کی فقہی روایت یعنی نفاذِشریعت کے علمبرداربن رہے ہیں۔وہ شریعت جس کی مرکزی تعبیرات ایسے احکامات پرمبنی ہیں جن کی قبولیت جدیدزاویہ نگاہ کیلئے دشوارہے مثلاً مرتدین اور توہین رسالت کے مجرموں کیلئے سزائے موت،زانی کیلئے سزائے رجم، چوروں کے ہاتھ کاٹنا،کئی گناہوں پرسرعام کوڑے مارنا، خواتین پرلباس کے ضابطوں کی پابندی ، عورتوں پرمردوں کی حاکمیت،غیرمسلموں پرمسلمانوں کی برتری،اورمجموعی طورپرایک ایسے تنگ نظرمعاشرے کاکلی تصورجونہ صرف مذہب پراستوارہے بلکہ مذہب اس پہ نگہبان ہے۔
شامی نژادعوامی دانشورمحمدشاہرور(متوفی2019)نے،جن کے اسلام سے متعلق اصلاح پسندتصورات کوعرب دنیامیں بڑے پیمانے پر موضوع بحث بنایاگیاہے،اس نکتے پرزور دیاہے کہ مسئلہ صرف اسلامسٹوں(اسلامیت پسندوں)کی جانب سے نہیں ہے جوشایدنفاذ شریعت کے واسطے مخصوص سیاسی لائحہ عمل کے حامل ہیں،بلکہ مرکزی دھارے کے ان روایتی اہل علم یعنی علماکی جانب سے بھی ہے جوشریعت کی قدیم تعبیرات کے علمبردارہیں۔اپنی ایک تحریرمیں مسلمانوں کوتنقیدی استدلا ل کی دعوت دیتے ہوئے شاہرور نے لکھا:
ابتدامیں ہم سمجھے کہ اسلام ازم(اسلامیت)کوعلماکے ہاں موجودٹھوس علمی روایت سے انحراف کی حیثیت سے بیان کیاجائے گا،اور ہمیں علماسے توقع تھی کہ وہ اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں)نیزسیاسی اسلام اورساری دنیاکومسلمان کرنے سے متعلق ان کے جارحانہ جذبات کی تردیدکریں گے۔ہمیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب ہم نے ذی وقارعلماکی جانب سے کسی قسم کے تردیدی بیان کی بجائے ایسی قانونی تشریحات سنیں جوبنیادی طورپراسلامسٹوں(اسلامیت پسندوں)کے من گھڑت دعوں سے اغماض برتتی تھیں ۔ہم نے تب جانا کہ درحقیقت ارتداد،جہاداورجنگ وجدل سے متعلق علماکی تعبیرات اسلامسٹوں کی آراسے زیادہ مختلف نہ تھیں۔اس پس منظرمیں، معاصرزمانے میں اسلام بیزاری صرف اسلامسٹوں(خواہ اخوان المسلمون جیسی سیاسی تحریکوں کی صورت میں متعین ہو،یا پھرانتہائی رخ پردہشت گردوں کی صورت میں سامنے آئے)کی بدولت ہی نہیں ہے،بلکہ قدامت پسند سنی،سلفی،یاشیعہ علما کے کارن بھی ہے،جوحریت،مساوات اورانسانی حقوق جیسے جدیدتصورات کے مخالف مذہبی نقطہ ہائے نظرکے حامی ہیں۔ مثال کے طورپرسعودی عرب کی مثال لے لیجیے،جس نے حال ہی میں اخوان المسلمون جیسے اسلامسٹوں کی غضب ناک طریقے سے مخالفت کی ہے،تاہم اپنے ہاں شریعت کی سخت ترین قسم کونافذبھی کررکھاہے۔سعودی حکمران لادینی افکارسے متعلق کسی بھی قسم کی تبلیغ،یامذہب اسلام کے بنیادی ارکان پرسوال اٹھانے کودہشت گردی کے برابرجرم قراردیتے ہیں ۔ تاہم جیساکہ حاکم خطیب جیسے صحافی کے مشاہدے میں آیا،سعودی بادشاہت کے بہت سے شہری اسلام سے منہ موڑرہے ہیںاوران میں سے بعض ویب گاہ پر اپنے خیالات وضاحت سے لکھ رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ ان پرنافذکردہ اسلام کی سخت تعبیرکاجبرہے اوردوسری وجہ اس امکان پر مبنی ہے کہ ایک متبادل دنیاکاذائقہ چکھاجائے۔بقول خطیب دیگر اشیاکے علاوہ،غالباجوشے سعودی باشندوں کوان کے مذہب سے دور لے جارہی ہے،وہ سعودی عرب میں نافذکردہ سخت گیراورغیرانسانی اسلامی قانون نیزمعلومات اور بڑے پیمانے پرترسیل معلومات تک آسان رسائی ہے۔عقیدے سے دوری کے اصل تناسب کااندازہ لگانادشوارہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی(باقاعدہ)سروے نہیں ہے نیزبیشترلوگ اس موضوع پربات کرنے میں محتاط ہیں۔تاہم یہ معاملہ نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ دیگرہمسایہ بادشاہتوں میں بھی نہایت سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیارکرتاہوادکھائی دیتاہے،جسے میڈیابھی اٹھارہاہے کہ ہمارے خلیج فارس کے معاشروں کی نوجوان نسل میں لادینیت کوقبول کرنے کارجحان بڑھ رہاہے۔
(لادینی فکرکی ترویج میں)انٹرنیٹ اوربالخصوص سوشل میڈیاایک کلیدی کرداراداکرتاہے جیساکہ اکثروبیشتراس جانب اشارہ کیاجاتا ہے،تاہم محض ایک برآمد شدہ ملحدانہ خیال کے علمبردارکی حیثیت سے نہیں جیساکہ قدامت پسندوں کاعمومی ایقان ہے،بلکہ ایک آزادمقام کی حیثیت سے،جہاں لوگ(مذہب سے متعلق)اپنے داخلی اضطراب کوبیان کرسکتے ہیں اوران میں ایک دوسرے کوشریک کر سکتے ہیں۔
جیساکہ عبداللہ حمید الدین نے2019میں شائع ہونے والی اپنی کتابTweeted Heresies Saudi Islam in Transformation”‘ٹویٹڈ ہیرسیز سعودی اسلام ان ٹرانسفرمیشن”میں اس بات میں اس بات کواجاگرکیا۔نوجوان نسل کے ہاں عقیدے سے محرومی میں اضافہ ہورہاہے،حمیدالدین اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ ایساصرف ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کی بناپرنہیں ہوتاہے،بلکہ اس کی ایک وجہروایتی مذہبی علماکی جانب سے دیے جانے والے گھڑے گھڑائے جوابات پر شک اوراضطراب بھی ہے۔
ایسی ہی کہانیاں مراکش سے سننے کوملتی ہیں جہاں سیاست اورقوانین قدرے نرم ہیں لیکن روایتی اسلام اورجدیداقدارکے مابین کشمکش ہنوزبرقرارہے۔اس کشمکش کی بدولت ترکِ اسلام کرنے والوں میں سے ایک سابقہ مسلمان محمدنامی شخص ہے،جس نے ایک مغربی استادکے ساتھ بات چیت کی۔بظاہریہ دکھائی دیتاہے کہ اس کے مسلمان ساتھیوں کی خودر استی اس کے لادین ہونے کی وجہ بنی۔اس کے ترکِ دین کابنیادی محرک اہل اسلام کے ہاں اس حقیقت کامشاہدہ تھاکہ وہ اپنے آپ کوایک حتمی صداقت کے واحد مالک سمجھتے ہیں ۔ وہ اس بات پریقین رکھتے تھے کہ صرف اورصرف مسلمان ہی جنت میں داخلے کے مستحق ہیں۔توباقی دنیاکاکیا بنے گا؟محمدنے اپنے آپ سے سوال کیا۔نیزیہ بھی کہ میرے ایک ہم جماعت کی ماں یہودی تھی۔میں اس اچھی خاتون کے دوزخ میں جانے کاسوچ بھی نہیں سکتاتھا۔دیگرمراکشی ملحدین اپنے ترکِ اسلام کی بابت ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہیں۔عبداللہ نامی ایک سابقہ مسلمان کے نزدیک، اس کے ترکِ دین کی کلیدی وجہ اس کے رابطے میں آنے والے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے ہاں ہم جنس پرستوں سے نفرت
تھی۔ اس کاسوال تھاکہاگرخدا نے ہی ہم جنس پرستوں کوپیدافرمایاہے توپھر وہ ان کے گناہوں کے سبب ان کوکیوںکرپھٹکارسکتا ہے؟ ۔ ایک دوسرے سابقہ مسلمان کے نزدیک،صنفی امتیازجیسے اخلاقی مسائل کی بدولت جنم لینے والا تذبذبہی اس کے ترکِ دین کی حتمی وجہ ثابت ہوا۔
یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر شمالی افریقا سے لیکرجنوب مشرقی ایشیاتک اسلامسٹ(اسلامیت پسند)اورقدامت پسندعلمامسلمانوں کو فرداوررائے کی آزادی یاصنفی امتیازجیسی جدیداقدارکے خلاف متنبہ کررہے ہیں۔ملائیشیامیںلبرل ازم اورتکثیریت کے خلاف مساجدمیں خطبے دیے گئے،جبکہ اس کے سابق وزیراعظم نے انسانی حقوق پرستی کی مذمت کی۔سعودی عرب میں،وزارتِ تعلیم کے تحت سرکاری اسکولوں میں ایک پروگرام رواں دواں ہے،جولبرل ازم،سیکولرازم اورمغربیت کے خلاف مدافعت پیداکرتاہے۔ اورترکی میں اردگان کے حامی دانشورلبرل جمہوریت بحران کاشکارہے کی دہائی دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔