پاکستان میں بڑھتا ہوا فرقہ واریت کا زہر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
___________
فرقہ واریت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پاکستان سمیت دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ فرقہ واریت نے نفرت اور تعصب کی ایسی آگ جلائی کہ نہ مساجد و مدارس محفوظ ہیں اور نہ ہی مکاتب و دفاتر۔ مذہبی و سیاسی قائدین، خواص و عوام سب فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
بر صغیر میں فرقہ واریت برسوں سے چل رہی ہے اور شیعہ سنی مسالک میں اختلافات پہلے سے ہیں لیکن ماضی میں یہ اختلافات پر امن طریقے سے حل ہو جاتے تھے اور بڑے پیمانے پر کبھی نہیں پھیلتے تھے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اب اس میں تشدد کا عنصر کیوں آ گیا ہے۔ جب ایک دفعہ شدت کا عنصر آیا اس کے بعد پھر کبھی ختم نہیں ہوا۔پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے فرقہ وارانہ دہشت گردی کرتی ہیں۔ ان تنظیموں میں بعض مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے جنگجو گروپ بھی سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں بہت سارے فرقہ وارانہ گروپ ایک موقع کی تلاش میں تھے کہ انھیں جگہ ملے اور وہ اپنے نیٹ ورک کو فعال بنا سکیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمانوں کے دو فرقوں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع میں اختلافات کو ابھارنے اور ان دونوں فرقوں میں صدیوں سے موجود اختلاف رائے کو پرتشدد کارروائیوں کی شکل دینے میں فرقہ وارانہ تحریری مواد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے برصغیر میں شیعہ سنی اختلافات پر فسادات کے واقعات پیش آتے تھے لیکن ان کی شدت یا شکل ایسی نہیں تھی جیسی کہ آج کے پاکستان میں نظر آتی ہے۔جہاں ریاست، مذہب اور سیاست کو یکجا کر دے اور جہاں شدت پسندانہ نظریات کی حامل مذہبی جماعتوں کو ایک عرصے تک حکومتی سرپرستی میں ایک زرخیز میدان میسر ہو تو وہاں اس قسم کے حالات ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے کے بعد یہاں فرقہ وارانہ مواد کی اشاعت محدود پیمانے پر شروع ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ہمسایہ ملک ہندوستان کے مسلمان علما کی جانب سے ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف لکھے گئے مواد کو پاکستان کی شکل میں ایک بڑی مارکیٹ مل گئی۔
امریکی اخبار فارن پالیسی نے بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے مذموم بھارتی عزائم کو بے نقاب کیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے کافی عرصہ سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس میں بھارت کے مذموم عزائم کے حوالے سے بھی خبردار کیا جا رہا ہے۔پہلے تو بھارت صرف خطے میں ہی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے لیکن جب سے اسے داعش کا ساتھ ملا ہے تو اس نے مذہبی گروپس خاص کر نوجوانوں کو استعمال کر کے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مذہبی تحریکوں کے ذریعے انتہاپسندی اور دہشت گرد نظریات کو فروغ دیا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہندو نیشنلزم انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ زیادہ ہندوستانی علاقائی اور عالمی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہوں۔
بھارتی دہشت گردی صرف پاکستان تک ہی موقوف نہیں بلکہ کشمیر میں بھی بھارت میں موجود انہی دہشت گردعناصرنے بھیانک کردار ادا کیا۔خود داعش نے گزشتہ برس بھارت میں موجود اپنے دہشت گرد گروپوںکا باضابطہ اعلان بھی کیا تھا۔ایسا ہی داعش کا ایک گروپ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف دہشت گردی میں بھی ملوث ہے۔ داعش نے کشمیر میں مرنے والے اپنے 3ساتھیوں کا ذکر اپنے جریدے البنا میں کیا ہے۔ اقوام متحدہ بھی کیرالہ اور کرناٹکا میں دہشت گرد گروپس کی موجودگی کا انکشاف کر چکا ہے ۔
فرقہ واریت پھیلانے والے بدبخت عناصر دراصل بھارت کی مذموم سازشوں کی تکمیل میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اس لئے ایسے عناصر کو اپنی صفوں میں تلاش کر کے باہر نکالنا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اگر خود باخبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس سازش کو ناکام بنانے اور سازشی عناصر کو منظر عام پر لانے کے لئے کیا کِیا گیا۔کیا دینی معززین کے اجلاس سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ایسے اجتماعات مذہبی ہم آہنگی کے لئے تو درست ہو سکتے ہیںلیکن سازش کو تلاش کر کے ناکام نہیں بنا سکتے۔اس کے لئے انٹیلی جنس کی ضرورت ہے اور ہمارے ملک کو یہ وسائل حاصل ہیںاِس لئے ضروری ہے کہ بیانات سے آگے اقدام ہو اور سازشی بے نقاب ہو کر گرفتار ہوں۔تمام مذہبی رہنمائوں اور علماء کرام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد اْمت کو فروغ دینے کے لئے تمام کاوشیں بروئے کار لانا ہونگیں تاکہ دشمن کو اس محاذ پر بھی عبرتناک شکست ہو۔ حکومت کو ایسی راہ نکالنی ہو گی کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مل جل کے بیٹھیں اور جو گروہ کشیدہ صورتحال پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں انھیں یہ بات باور کرائی جائے کہ پاکستان ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭