عمران خان کیخلاف تحریک ِ عدم اعتمادناکام ہو گی؟
شیئر کریں
خبرگرم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر ِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کافی ہوم ورک مکمل کرلیاہے سابق صدر ِصف علی زرداری کے ذمے جو ٹاسک تھا وہ پورا کر کے کراچی گئے تھے۔ بہت سی چیزیں طے ہوچکی ہیں، قیادت نے اب صرف وقت کا تعین کرنا ہے شنیدہے کہ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد مارچ کے پہلے ہفتے میں جمع کرائی جائے گی اس حوالہ سے اگلے دوتین روز بہت اہم ہیں اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آصف زرداری کی تجویز سمیت ق لیگ کے مطالبات پر بھی غور کرنے کے لیے نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں اہم فیصلے کریں گے شہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی ، مریم نواز ، حمزہ شہباز سے بھی اس میں مشاورت کی جائے گی۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے ق لیگ کی جانب سے پیش کی گئی شرائط غیرمتوقع نہیں تھی کیونکہ ق لیگ نے ہمیشہ حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور انپے کارڈ کادرست استعمال کیاہے یہی وجہ ہے مسلسل انکارکے باوجود عمران خان مونس الہی کو وفاقی وزیر بنانے پر مجبورہوگئے اسی لیے کہا جاتاہے سیاست میں کوئی چیزحرف آخرنہیں ہوتی جبکہ مسلم لیگ Q کے مطالبات کے حوالے سے ن لیگ میں بھی تقسیم موجود ہے۔ چوہدری شجاعت کی مشروط حمایت سے بھی واضح ہے کہ حکومتی اتحادی جماعت اپنی راہ جدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے موجودہ حالات کے تناظرمیں 27مارچ کو بلاول بھٹوزرداری کی قیادت میں کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ بھی خاصا اہمیت کاحامل ہے یہ بات بھی قابل ِ ذکرہے کہ ق لیگ کی حمایت کے ساتھ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد کا منظر نامہ پی ٹی آئی کی بجائے اْن لوگوں کے لیے تھوڑا پیچیدہ ہو جائے گا جو عمران خان کیخلاف ایک دوسرے کا ساتھ بہ امرمجبوری دے رہے ہیں کیونکہ ہر جماعت کے الگ الگ مسائل ہیں نون لیگ چاہتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے نئے انتخابات کرائے جائیں، پیپلز پارٹی اور ق لیگ موجودہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی سندھ اور مسلم لیگ Q کی پنجاب میں اقتدارمیں شمولیت کے بغیرکوئی اہمیت ہے نہ حیثیت اور مزے کی بات یہ ہے کہ فضل الرحمان تو اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں چاہے ان کے عہدے کی مدت ایک دن ہی کیوں نہ ہو یعنی ہر اپوزیشن جماعت کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔
جب سے PTIاقتدارمیں آئی ہے عمران خان حکومت کو قومی اسمبلی میں کبھی بھی عددی اکثریت نہیں ملی یہی وجہ ہے کہ عمران خان مختلف جماعتوںکے اتحاد کی بدولت حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے دوسری طرف اپوزیشن میں سے کوئی بھی وزیراعظم بن جائے، نئی بننے والی حکومت اپنے اتحادی پارٹنرز کے ساتھ انتہائی کمزور ہوگی کیونکہ ان لوگوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ق لیگ کے لیے موجودہ صورتحال ایک سنہرا موقع ہے جس میں وہ پرویز الٰہی کے لیے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا عہدہ چاہتی ہے۔ پرویز الٰہی حکومت کا باقی رہ جانے والا ڈیڑھ سال کا عرصہ پنجاب کے حکمران کی حیثیت سے پورا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی پارٹی میں دوبارہ جان ڈال سکیں لیکن یہ بات نون لیگ کے لیے انتہائی ناقابل قبول ہے کیونکہ وہ اپنا گڑھ سمجھا جانے والے صوبے سے اپنی مخالف سمجھی جانے والی جماعت کے حق مین دستبردار ہو کر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی شریف خاندان جانتا ہے کہ پنجاب کو پرویز الٰہی کے حوالے کرنے کا مطلب اپنی سیاست کو نقصان پہنچانا ہوگا اسی لیے جب شہبازشریف وزیر ِ اعلیٰ تھے انہوں نے ایک باربھی چوہدری برادران کو گھاس نہیں ڈالی نہ وہ مستقبل قریب میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کااحساس مسلم لیگ Q کوبھی ہے اسی لیے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے چودھری برادران نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ شرائط ماننے کی صورت میں پنجاب اور مرکز میں ان ہاؤس تبدیلی کی یقینی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔
محمد زبیر نے کہا کہ ق لیگ کے رہنما پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ہماری ترجیح تو نہیں ہوسکتی، اس حوالے سے بات چیت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ن لیگ قیادت نے فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جن پر اتفاق کرآسان نہیں ہوتا کوشش کی جارہی ہے کہ ایسا فیصلہ کریں جو ملک کے لیے بہتر ہو۔ اْن کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی عدم اعتماد میں ساتھ دیں، 172 ارکان کی حمایت اتحادیوں کے بغیر بھی ہمیں حاصل ہے، جن میں پی ٹی آئی کے ناراض ارکان شامل ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میرے خیال میں موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ ق کو دیا جانا ممکن ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن حالات بتاتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی اور حکومت مخالف جماعتیں اور رہنما اپنی اپنی بولیاں بول کراڑ جائیں گے اور ان آئندہ عام انتخابات تک اسی تنخواہ پرگذاراہوگا کیونکہ اسی میں ان کی سیاسی بقاہے اب یہ لوگ اتنی بھی سردردنہ لیں تو انہیں خدشہ ہے ہماری سیاست کہیں دم ہی نہ توڑجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔