میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان کے تین صوبوں میں دہشت گردی

افغانستان کے تین صوبوں میں دہشت گردی

منتظم
منگل, ۲۷ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

افغانستان کے تین مختلف صوبوں میں طالبان اور داعش کے متعدد خونریز حملوں میں بیس فوجیوں سمیت 23 افراد ہلاک ہوگئے، پہلا اور بڑا حملہ مغربی صوبے فرح کے ضلع بالا بلوک میں افغان آرمی کے کیمپ پر کیا گیا جس میں اٹھارہ فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوگئے، افغان طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے، صوبہ ہلمند میں دو خودکش حملوں میں دو اہل کار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے، دارالحکومت کابل کے سفارتی علاقے میں جہاں سکیورٹی ہر وقت ہائی الرٹ رہتی ہے، افغان انٹیلی جنس ایجنسی (این ڈی ایس) کے دفتر کے قریب خود کش حملے میں تین شہری جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے، حملہ آور بظاہر اچھے لباس میں ملبوس تھا، حملہ صبح کے وقت کیا گیا جب لوگ دفتروں میں آرہے تھے۔ خودکش حملہ آور نے جیسے ہی سفارتی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی اس کے متعلق شبہ گزرا اور ابھی سکیورٹی چیکنگ ہونے والی تھی کہ اس نے خود کو اڑا لیا اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے، صوبہ ہلمند میں شِدت پسندوں نے بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی فوجی گاڑی سے ٹکرا دی جس میں دو فوجی جاں بحق ہوگئے۔تین صوبوں میں مختلف مقامات پر بیک وقت حملے افغانستان میں مخدوش صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں امریکی اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد افغان علاقوں میں تو طالبان کا کْلّی یا جزوی کنٹرول ہے اور یہاں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، بعض علاقوں میں تو طالبان نے اپنی عدالتیں قائم کررکھی ہیں اور لوگ اپنے امور کے تصفیے کے لیے ان علاقوں سے رجوع کرتے ہیں اور یہاں انہی کے احکامات چلتے ہیں لیکن دارالحکومت کے ہائی سکیورٹی زون میں بھی تسلسل کے ساتھ خودکش حملے ہورہے ہیں اور فوجیوں کی چلتی گاڑیوں کو بھی ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ان دہشت گردانہ حملوں سے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سکیورٹی امور امریکی اور افغان فورسز کے ہاتھوں سے پھسلتے جارہے ہیں ان حالات میں تصّور کیا جاسکتا ہے کہ اگر امریکی اور نیٹو فوجی مستقبل قریب میں واپس چلے گئے تو کیا افغان فورسز زیادہ دنوں تک اس صورت حال کے مقابل ٹھہر سکیں گی؟ جو حالات زمین پر موجود ہیں ان سے تو نہیں لگتا اور نہ ہی با خبر حلقے افغان سکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں کے متعلق زیادہ خوش فہم ہیں۔
افغان حالات کی وجہ سے پاکستان کو بھی اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے اور ابھی حال ہی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے میونخ میں سکیورٹی کے متعلق ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ ختم کردیئے گئے ہیں اور اس وقت دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں پاکستان کے اندر ہورہی ہیں ان میں وہ دہشت گرد ملوث ہیں جو افغانستان سے پاکستان آتے ہیں، داعش بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہی ہے اور کابل میں خودکش حملہ اسی نے کرایا ہے، افغانستان میں داعش کی موجودگی کی اطلاعات تو کافی عرصے سے تھیں اور بعض حملوں سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ اسی پیٹرن پر ہورہے ہیں جو داعش نے عراق اور شام میں متعارف کرایا تھا، حامد کرزئی تو برملا کہہ رہے ہیں کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں میں بھر کر لایا جارہا ہے، یہ ’’ہیلی کاپٹر سروس‘‘ کس نے شروع کررکھی ہے اور کون اس کے اخراجات برداشت کررہا ہے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے، حامد کرزئی کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو اس سے با خبر کردیں لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ افغان حکومت اپنے ملک میں حفاظتی اقدامات کی بجائے پاکستان پر الزام تراشیوں پر تیار رہتی ہے اور ہر بڑے حملے کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے، غالباً اس کا یہ خیال ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر حملے کسی ملک کی معاونت کے بغیر کوئی تنظیم اپنے طور پر نہیں کرسکتی۔ ایسے ہی حملوں نے امریکا کو بھی یہ باور کرا رکھا ہے کہ یہ حملے ان دہشت گردوں کی جانب سے ہوتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں، حالانکہ پاکستان پورے خلوص سے یہ کوششیں کررہا ہے کہ افغانستان میں حالات پر امن ہوجائیں، کیونکہ اس کا پاکستان کو بھی فائدہ ہے، اس سلسلے میں جو امن کانفرنسیں ہورہی ہیں پاکستان ان میں باقاعدگی سے حصہ لے رہا ہے، ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں بھی عالمی کانفرنس ہونے والی ہے جس میں روس، امریکا، چین، پاکستان اور بھارت شریک ہوں گے، امریکا چونکہ بھارت کو افغانستان میں کردار سونپ رہا ہے اور اس بات کا متّمنی ہے کہ وہ افغانستان میں وسیع تر کردار ادا کرے اس لیے اس ضمن میں بھارت کو بھی متحرک کیا گیا ہے جبکہ بھارت خطے میں عدم استحکام کا سب سے زیادہ ذمے دار ہے اور افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گرد داخل کرتا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کو متعدد بار اس امر کے ثبوت مہیا کیے ہیں کہ یہاں ہونے والی بہت سی وارداتوں میں ایسے لوگ ملوث پائے گئے ہیں جن کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں لیکن افغان فورسز اپنے ملک میں تو ان ٹھکانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتیں جبکہ امریکا پاکستان کیی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ تنِ تنہا لڑی ہے جبکہ افغانستان میں نیٹو ملکوں کی فورسز کی موجودگی میں کابل کے سفارتی علاقے بھی دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں، ایسے میں اگر امریکی افواج واپس چلی گئیں تو دہشت گردی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ امریکا کو علاقے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا چاہئیے، اپنی تازہ پالیسی میں تو اس کا سارا انحصار طاقت کے استعمال پر ہے، لیکن بظاہر یہ پالیسی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، افغان طالبان نے مذاکرات کی جو پیش کش کی تھی اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا تو پھر سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ تا شقند میں جو مذاکرات ہونے والے ہیں روس اور چین بھی اس میں شریک ہیں دونوں ملکوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان میں امن قائم ہوجائے، روس کو تو افغانستان میں فوج داخل کرنے کا تجربہ بھی ہے اور پھر وہاں سے دریائے آمو کے پار واپس جانے کا بھی، اس لیے روس کا مشورہ زیادہ بہتر اور حقیقت پسندانہ ہوسکتا ہے، افغانستان میں غیر ملکی فوجیں داخل تو اپنی مرضی سے ہوتی ہیں لیکن واپسی میں افغانوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ امریکا روس کی حکمتِ عملی سے سبق سیکھ کر ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے افغانستان سے غیر ملکی فوجیں واپس جاسکیں، اگرچہ بعد میں عدم استحکام کے خدشات رہیں گے لیکن یہ معاملہ خود افغانوں پر چھوڑ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، موجودہ حالات میں تو لگتا ہے کہ خون بہتا رہے گا اور تشدد کی وارداتیں کم نہیں ہوں گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں