میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی

کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

اہم شخصیات کی سیکورٹی پر مامورنفری کو ایک ماہ کے لیے طلب کرلیا گیا
وحیدملک
کراچی پولیس نے مردم شماری میں نفری فراہم کرنے کےلئے اہم شخصیات کو دی جانے والی سیکورٹی ایک ماہ کیلئے واپس کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں پولیس کی جانب سے شہر کی اہم شخصیات کو خطوط ارسال کردیے گئے جس میں پولیس نے اہم شخصیات کو ایک ماہ کے لیے اپنی سیکورٹی پر پرائیویٹ گارڈ رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایس ایس پی سیکورٹی کا کہنا ہے کہ سیکورٹی واپس لینے کا عمل روٹین معاملہ ہے جو سالہا سال چلتا رہتا ہے، آئندہ ماہ مردم شماری کے دوران سیکورٹی کیلئے کراچی پولیس کو 8 ہزار اہلکار فراہم کرنے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ ایس ایس پی عمران ریاض کا کہنا ہے کہ مردم شماری ایک اہم اور حساس قومی معاملہ ہے اور اسی وجہ سے سیکورٹی واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس اس سے قبل عام انتخابات اور پولیو مہموں کی سیکورٹی کیلئے بھی اہم شخصیات کو فراہم کی جانےوالی سیکورٹی واپس لیتی رہی ہے جب کہ پولیس صرف ان شخصیات سے سیکورٹی واپس لے رہی ہے جن کے پاس ضرورت سے زیادہ نفری موجود ہے۔ ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ پولیس کا مقصد اہم شخصیات کو سیکورٹی فراہم کرنا نہیں بلکہ عام شہریوں کی جان و مالکا تحفظ ہے۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم شخصیات سے پولیس سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے کے بعد ان شخصیات میں بے چینی پھیل گئی ہے اورانہوں نے پولیس سیکورٹی برقرار رکھنے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
سخت سیکورٹی تھریٹ ہونے کے باوجودفش ہاربرسیکورٹی سے محروم
دہشت گردی کے خدشے پر سیکورٹی ہائی الرٹ کرنے کے باوجود کراچی فش ہاربر میں شدید سیکورٹی خدشات ظاہر کئے گئے ہیں۔ کراچی فش ہاربر کے چاروں طرف اہم ملکی دفاعی اداروں کا بڑا سیٹ اپ ہے مگر 6 مختلف ممالک کے باشندوں سمیت آنے جانے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کراچی فش ہاربر میں سیکورٹی کی ذمہ داری فش ہاربر اتھارٹی کی ہے لیکن فشری میں سیکورٹی انتظامات زیرو ہیں۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق فشری میں 24گھنٹے کے دوران 30سے 35ہزار افراد کام کرتے ہیں جن میں بنگالی، برمی، بھوٹانی، افغانی، اور ایرانی باشندوں سمیت نامعلوم پاکستانیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ فشری میں ماہی گیری ، مچھلی اور جھینگے کی نیلامی کا کام ہوتا ہے۔خاص طور پر روز صبح 4بجے مچھلیوں کی نیلامی کا کام شروع ہوتا ہے تو ہزاروں افراد یہاں جمع ہوتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں کہیں بھی کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ یا چیکنگ کا نظام موجود نہیں۔فشری میں آنے جانے والی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تلاشی نہیں لی جاتی۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق فشری سے باہر آنےوالی گاڑیوں سے محض گیٹ پاس لیا جاتا ہے۔فشری ذرائع کے مطابق فش ہاربر کے چاروں طرف اہم ملکی دفاعی ادارے قائم ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے پیش نظر اس سلسلے میں پولیس اور متعلقہ اداروں کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
منگھوپیر مقابلے میں ہلاک دہشت گردوں سے 11پولیس افسران اور اہم شخصیات کی ہٹ لسٹ بھی ملی ہے
منگھوپیر میں آپریشن کے دوران دو دہشت گردوںکو مقابلے کے بعد ہلاک کردیا گیا،ہلاک ملزمان کے قبضے سے اسلحہ ، دستی بم، لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکل سمیت 11اہم شخصیات کے ناموں کی فہرست بھی برآمد ہوئی ہے۔ منگھوپیر غازی گوٹھ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو پہلے سے پوزیشن سنبھالے ملزمان نے براہ راست فائرنگ شروع کردی جس سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا۔ تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ سے کالعدم تنظیم داعش کے دو دہشت گرد مارے گئے جب کہ کچھ ملزمان رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مارے گئے دہشت گردوں کے قبضہ سے اسلحہ ، دستی بم، لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکل بھی تحویل میں لے لی گئی ہے جب کہ ملزمان سے شہر کی گیارہ معروف شخصیات کے ناموں کی فہرست بھی برآمد ہوئی ہے۔ فہرست میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما حیدر عباس رضوی کے بھائی حسن عباس رضوی، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ، ڈی ایس پی مہدی امام ، معروف سماجی شخصیت جبران ناصر، اور ایس ایس پی را و¿انوار سمیت ان کی پولیس ٹیم کے افراد کے نام بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونےوالے دہشت گرد پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی و فرقہ وارانہ وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھے جن کی گرفتاری کیلئے پولیس مسلسل چھاپے مار رہی تھی۔ منگھوپیر میں ہلاک کالعدم داعش کے دہشت گردوں کے لیپ ٹاپ سے افسران کے ناموں کی فہرست بر آمد کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں اور گھروں کی تصاویر بھی ملی ہیں۔ہلاک دہشت گرد پولیس اور سرکاری افسروں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ایس ایس پی ناصر آفتاب کا کہنا ہے کہ ان میں سیف اللہ اور حنیف کا تعلق کالعدم داعش سے تھا۔ دونوں دہشت گرد ڈی ایس پی فیض شکری کے قتل اور دیگر وارداتوں میں ملوث تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں