کیاقیامت آنے والی ہے؟
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
اگرآپ کویادہوتوسابق امریکی صدرٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کے دن ہی میں نے اپنے آرٹیکل میں لکھاتھاکہ اگلاقدم اب اسرائیل کو بالخصوص ہمسایہ عرب ریاستوں اوربالعموم مسلمان ملکوں سے تسلیم کروانے کی مہم شروع ہوگی جس کے بعدفلسطین کامکمل طورپراسرائیل میں ضم کرکے یہودی نژادہنری کسنجرکے ون ورلڈآرڈرکا مشرقِ وسطیٰ کاپہلافیزمکمل ہوگاجس کیلئے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹرمپ کے یہودی نژاددامادجیرالڈکشنزکی خدمات حاصل کی گئی جس نے”لارنس آف عریبیا” کے ادھورے پلاٹ کومکمل کیا۔عین پروگرام کے تحت ٹرمپ سے کام لیکراسے فارغ کردیاگیا۔ٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کی غلطی کی طرف بعد میں آئیں گے،آئیے پہلے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔
دنیاکایہ فیزچھ ہزارسال پرمحیط ہے۔یہودی سال ستمبر میں شروع ہوتا ہے۔21ستمبر2023کو یہودیوں کے کیلنڈرکے مطابق(کتاب ہدایات)یہودیوں کی مقدس کتاب تلمودنے 5784سال پورے کر لئے ہیں۔یہودی عقیدے کے مطابق دنیاکے خاتمے میں اب صرف 216سال باقی ہیں۔یہ دنیا216سال بعدمکمل طورپرفناہو جائے گی۔ یہودیوں نے قیامت سے قبل دواہم کام کرنے ہیں،تابوت سکینہ کی تلاش اورہیکل سلیمانی کی تعمیر۔
یہ کہانی حضرت ابراہیم سے شروع ہوتی ہے۔حضرت ابراہیم چالیس سال حضرت اسماعیل کے پاس مکہ مکرمہ میں رہائش پزیر رہے۔آپ نے خانہ کعبہ تعمیرکیااورآپ واپس فلسطین تشریف لے گئے،آپ نے وہاں اللہ تعالی کادوسراگھربیت المقدس تعمیر فرمایا۔ خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کافرق تھا۔حضرت ابراہیم نے فلسطین میں انتقال فرمایا۔آپ کا روضہ مبارک یروشلم کے مضافات میں ہے۔یہ علاقہ حضرت ابرہیم کی مناسبت سے ہیبرون یاالخلیل کہلاتاہے۔حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کے مزارات بھی حضرت ابراہیم کے ساتھ موجودہیں۔بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد ہیں۔یہ لوگ قحط کا شکارہوئے،مصرکی طرف نقل مکانی کی،فرعون کی غلامی میں گئے۔ سینکڑوں سال ذلت برداشت کی اور33سوسال پہلے حضرت موسی کی معیت میں فلسطین واپس آئے۔حضرت داؤدنے ہزارسال قبل مسیح میں یروشلم فتح کیااوراسے اپنی سلطنت ”کنگڈم آف ڈیوڈ”کا دارالحکومت بنایا۔
حضرت داؤدنے بیت المقدس کی بنیادوں پریہودیوں کاعظیم معبدتعمیرکراناشروع کیا،آپ کے بعدحضرت سلیمان نے یہ تعمیر جاری رکھی،حضرت سلیمان کے پاس حضرت موسی کا ایک تابوت تھا۔اس تابوت میں پتھرکی وہ دوتختیاں بھی تھیں جواللہ تعالی نے حضرت موسی پرکوہ طورپر اتاری تھیں۔ان تختیوں پراللہ کے دس احکامات درج تھے۔تابوت میں حضرت ہارون کاعصااوروہ برتن بھی تھاجس سے من وسلویٰ نکلتاتھا۔حضرت سلیمان نے یہ تابوت اس معبد کی بنیادوں میں چھپادیا۔آپ کے دورمیں بڑے بڑے جادوگربھی تھے۔آپ نے اللہ تعالی کے حکم پران تمام جادوگروں کوقتل کردیااوران کے جادوکے نسخوں کوبھی صندوقوں میں بندکرکے معبدکے نیچے غاروں میں چھپادیا۔
یہودی حضرت سلیمان کے معبدکو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔یہ ہیکل586قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصرنے تباہ کردیاتھا تاہم اس نے ہیکل سلیمانی کی بیرونی دیوارچھوڑدی۔ یہودی اس دیوارکو”کوتل”جبکہ مسلمان دیوارگریہ کہتے ہیں۔یہودیوں کاخیال ہے حضرت سلیمان نے تابوت سکینہ اورجادوکے نسخے بیت المقدس کے نیچے غاروں میں چھپائے تھے چنانچہ یہ لوگ تین ہزارسال سے بیت المقدس کے نیچے غارکھود رہے ہیں۔یہ بیت المقدس کوگراکرمستقبل میں ہیکل سلیمانی کویہاں تک پھیلانابھی چاہتے ہیں،کیوں؟ہم اس کی طرف بھی بعدمیں آئیں گے،ہم پہلے بیت المقدس میں مسلمانوں کی دلچسپی کاذکرکریں گے۔
بیت المقدس11فروری624تک مسلمانوں کاقبلہ اوّل تھا۔نبوت کے دسویں سال رجب کی ستائیسویں شب کومعراج کاواقعہ پیش آیا،اللہ تعالی نبی اکرمۖکومکہ مکرمہ سے یروشلم لے کرآیا،آپ ۖنے قبلہ اول میں انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔آپۖبراق پرتشریف فرماہوئے اوربراق آپۖ کواللہ تعالیٰ کے حضورلے گیا۔آپۖبیت المقدس کے صحن سے آسمان پرتشریف لے گئے تھے،آج بھی وہاں سات فٹ لمبی چالیس فٹ چوڑی اور چھ فٹ اونچی چٹان موجود ہے۔یہ چٹان آپۖکے ساتھ اوپراٹھ گئی تھی لیکن حضرت جبرائیل نے اس پرہاتھ رکھ کر اسے دوبارہ زمین سے جوڑدیاتھا۔چٹان پرحضرت جبرائیل کے ہاتھ کانشان آج تک موجود ہے۔اموی خلیفہ عبدالملک نے691 میں چٹان کے گرد سنہرے رنگ کی عمارت بنادی اوریہ عمارت عربی میں قبہ الصخرہ اور انگریزی میں ”ڈوم آف دی راک”کہلاتی ہے۔یہ مسلمانوں کے ہاتھوں عرب سے باہرپہلی عمارت تھی اوریہ عمارت آج پوری دنیا میں یروشلم کی پہچان ہے۔
یہ سنہری عمارت قبلہ اول نہیں،بیت المقدس سنہری عمارت سے ذراسے فاصلے پرتہہ خانے میں ہے،آپ کو وہاں جانے کیلئے سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے آج سے آٹھ سوسال قبل مسجد اقصی کی توسیع کی،یہ توسیع اقصی جدید کہلاتی ہے۔یہودی اس سنہری عمارت اوراقصی جدیدکوبھی گراناچاہتے ہیں۔یہودیوں کاخیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بیت المقدس اور اقصیٰ جدید تک وسیع ہوگا۔یہودیت عیسائیت اوراسلامی عقائدکے مطابق قیامت سے قبل دجال کاظہورہوگا۔یہودی دجال کومسیحا کہتے ہیں جبکہ عیسائی اسے اینٹی کرائسٹ کانام دیتے ہیں،یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیرکے بعدظاہرہوگا۔پوری دنیاکے یہودی اسرائیل میں جمع ہوں گے،دجال اسرائیل کو”کنگڈم آف ڈیوڈ”ڈکلیئرکرے گا اوردنیاکوفتح کرناشروع کردے گا۔یہ پوری عیسائی اور مسلمان دنیاکوتباہ وبربادکردے گا،یہ جنگ چالیس پچاس سال جاری رہے گی اوردنیاملبے کاڈھیربن جائے گی یہاں تک کہ دنیاکے قدیم ترین شہردمشق میں حضرت امام مہدی کاظہورہوگا۔فجرکی نمازسے قبل حضرت عیسٰی جامعہ امیہ کے سفیدمینارسے اتریں گے اورحضرت امام مہدی کے پیچھے نمازاداکریں گے اوریہ دونوں دجال کے خلاف صف آراہوجائیں گے،بڑی جنگ ہو گی، یہودی اس جنگ کو”آرماگیڈن”کہتے ہیں۔اسلامی عقائد کے مطابق مسلمان یہ جنگ جیت جائیں گے اورفتوحات کے بعد اسلامی ریاست بنے گی۔
حضرت عیسیٰ45سال کی زندگی گزارکرانتقال فرمائیں گے۔یہ نبی اکرمۖکے پہلو میں دفن ہوں گے۔ان کے بعدحضرت مقعدکی حکومت آئے گی،حضرت مقعدکے انتقال کے 30سال بعداچانک سینوں سے قرآن مجیداٹھالیاجائے گا،جس کے بعدقیامت کے آثار شروع ہوجائیں گے جبکہ یہودی عقائدکے مطابق یہ جنگ دجال جیت جائے گا جس کے بعد یروشلم کے مضافات میںجبل الزیتون پھٹ کردوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی اوریہ قیامت کی پہلی نشانی ہوگی۔جبل الزیتون(ماؤنٹ آف اولیوز)یروشلم کے مضافات میں ہے اور یہودی اس پہاڑی پردفن ہونااعزازسمجھتے ہیں۔
یہودی دن میں تین باراپنے سیناگوگامیں دجال کی آمدکی دعاکرتے ہیں،یہ دعا”شمونے عسرے ”کہلاتی ہے۔یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں مذاہب کیلئے مقدس ترین شہرہے کیونکہ یہ انبیاکرام کاشہرہے۔مسلمان13سال بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازاداکرتے رہے۔یہ شہرحضرت عمرفاروق کے دورمیں فتح ہوااوریہ سینکڑوں سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ سنہری گنبد قبہ الصخرہ آج بھی مسلمانوں کی نشانی بن کریہاں موجودہے۔یہ شہرقیامت کی اہم ترین نشانیوں میں بھی شامل ہے۔وہ چٹان جومعراج کے وقت براق کے ساتھ اوپراٹھ گئی تھی،وہ مسلمانوں اوریہودیوں دونوں کیلئے مقدس ہے۔یہودی اسے ”ماؤنٹ ماریحا”کہتے ہیں،یہودیوں کاخیال ہے یہ چٹان دنیاکامقام ِآغاز تھا۔حضرت ابراہیم نے قربانی کیلئے حضرت اسحاق(یہودی عقیدے کے مطابق حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق کوقربان کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ہم مسلمان حضرت اسماعیل کی قربانی پرایمان رکھتے ہیں)کوبھی اسی چٹان پرلٹایاتھا۔یہودی اگلے24برسوں میں بیت المقدس اقصی جدیداورسنہری عمارت یہ تینوں عمارتیں گرائیں گے،مسلمانوں کے ساتھ ان کاتصادم ہوگا،دجال کاظہورہوگا،عالمی جنگ شروع ہوگی۔دجال احدکی پہاڑیوں تک پہنچ جائے گا،جبل الزیتون پھٹ کردوحصوں میں تقسیم ہوگی اورپھرقیامت آجائے گی۔ہم مسلمان دجال تک یہودیوں سے متفق ہیں لیکن ہم آخر میں اسلام کے اورمسلمانوں کے غلبے پرایمان رکھتے ہیں۔
آئیے ہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقت کی طرف آتے ہیں۔
دنیا اس وقت دوخوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے،دنیامیں تباہ کن ہتھیاروں کے انبارلگے ہیں۔کرہ ارض کے چاروں کونوں میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں، پیوٹن جیساشدت پسندروس میں موجودہے جوہرحال میں امریکااوریورپ سے اپنی شکست کابدلہ لینے کیلئے موقع کی تلاش میں ہے۔شمالی کوریا میں کم جونگ جیساپاگل برسراقتدار ہے جس نے پہلی مرتبہ امریکا کوخوفزدہ کرکے اسے اس کی حیثیت یاددلادی ہے،نریندرمودی جیساشدت پسندبھارت کاوزیراعظم ہے جوکہ دنیاکے امن کیلئے شدیدخطرہ بناہواہے لیکن اپنی بزدلی کی بناپرسازشوں میں مصروف ہے۔امریکامیں ٹرمپ تورخصت ہوچکالیکن وہ ایک مرتبہ پھردوبارہ آنے کیلئے بھرپورکوششیں کررہاہے جبکہ قصرسفیدکے مکین تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں پالیسی ساز اداروں پرصہیونیوں کامکمل غلبہ ہے اس لئے یہاں کوئی بھی حکمران براجمان ہو،وہ صہیونیوں کی پالیسیوں سے روگردانی کامرتکب نہیں ہوسکتا۔
غزہ میں جاری جنگ کے شعلے اب ہمسایہ مملکتوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لینے کیلئے خطرناک حدتک بڑھ رہے ہیں جس کے جواب میں ایران بھی میدان میں بس اتراہی چاہتاہے کیونکہ یمن میں حوثیوں پرامریکااوربرطانیہ نے مل کرجو 60مقامات پرحملے کئے ہیں،اس کے جواب میں حوثی کبھی بھی ایساخطرناک قدم اٹھاسکتے ہیں جس کے بعدلبنان اورشام کے ساتھ مصربھی لپیٹ میں آسکتاہے۔پہلاخطرہ یہ ہے کہ عراق اورشام میں بظاہرتوداعش چھپی بیٹھی ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ان کیلئے یہ بہترین موقع ہوگا۔اب افغانستان میں بھی باقاعدہ اس کی تشکیل ہوچکی ہے اورپاکستان اورافغانستان میں اب تک کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکے ہیں۔پاکستان کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں،یہ پہلی نیوکلیرریاست ہے جو میزائل ٹیکنالوجی میں دنیامیں ممتازحیثیت کاحامل ملک ہے۔دوسرا خطرہ اسرائیل اور یہودی ہیں،یہ قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ یہ روزدن میں تین مرتبہ ”شمونے عسرے ”کرتے ہیں،یہ اونچی آوازمیں دجال کو آواز دے رہے ہیں چنانچہ بس یہ آوازسننے کی دیرہے اوریہ دنیاچکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کربرابرہوجائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے6دسمبر2017کواچانک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنے کااعلان کرکے پوری دنیاکوہلاکررکھ دیا تھااورجبکہ خودامریکامیں بیشترصاحب الرائے افرادنے ٹرمپ کے اس عاجلانہ اورجاہلانہ پروانے میں دنیاکی تباہی صاف نظر آنے سے خبرداربھی کیاتھا۔ ٹرمپ ان دنوں متعدد قانونی کیسزمیں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں کئی فوجداری اورمجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔ناقدین جومسلسل اس جاری صورت حال کی بنا پران کواگلے انتخابات کیلئے نااہل قراردینے کے دعوے کررہے تھے،وہ ٹرمپ کی” آئیوا کاکس” میں واضح کامیابی حاصل کرنے اوراس بڑی تبدیلی پرحیران ہورہے جس سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر جوبائیڈن کے خلاف ریپبلیکن امیدوارکے طورپران کی دعویداری مزید مستحکم ہوگئی ہے۔اب یہ واضح ہے کہ نومبر 2024میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدرجوبائیڈن کے خلاف رپبلکن پارٹی کے ممکنہ حریف ہوں گے۔لیکن دوسری طرف مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کونااہل کرنے کے مقدمات دائرہیں جن میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ٹرمپ تین سال پہلے کیپیٹل ہل پرہونے والے فساداور بغاوت میں ملوث تھے۔اس سے پہلے ٹرمپ کوامریکاکی دو ریاستوں کولوراڈواورمیئن میں بطورصدارتی امیدوارانتخابات میں لڑنے سے نااہل قراردے دیاتھا۔ریاست میئن کے الیکشن کے اعلیٰ عہدیدارنے فیصلہ کیاتھا کہ کیپیٹل ہل میں دنگے فسادکے واقعے میں ٹرمپ کے کردارکی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔اس سے کچھ دن قبل ہی کولوراڈوکی سب سے بڑی عدالت نے بھی اس سے ملتاجلتاہی فیصلہ دیا تھا۔کولوراڈوکے برعکس جہاں یہ فیصلہ ریاست کی سپریم کورٹ نے کیاتھاکہ ریاست میئن میں یہ فیصلہ آئین میں موجود شق کی وجہ سے انتخابات کروانے والے ریاست کے سب سے اعلیٰ افسر نے کیا۔اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی میئن کی سیکریٹری آف ا سٹیٹ شینابیلونے34 صفحات پرمشتمل فیصلہ دیاتھاجس میں انہوں نے کہاکہ ٹرمپ کانام رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوارکے انتخابات سے14ترمیم کے سیکشن3کے مطابق ہٹناچاہیے۔یہ شق ایسے لوگوں کووفاقی عہدوں سے نااہل کردیتی ہے جنہوں نے”فسادیابغاوت”میں حصہ لیاہو۔
قانونی چیلنجزاس بات پرمنحصرہیں کہ آیاامریکامیں خانہ جنگی کے دورکی آئینی ترمیم ڈونلڈٹرمپ کوبطور امیدوار کھڑے ہونے کے لیے نااہل قراردیتی ہے یانہیں۔ ان کے فیصلے میں کہاگیاتھاکہ ٹرمپ کئی مہینوں سے اپنے حامیوں کوالیکشن فراڈکے بیانیے سے بھڑکارہے تھے اوراس کااختتام6جنوری2021کوکیپیٹل ہل پرحملے پرہوا۔دونوں فیصلے اس وقت رکے ہوئے ہیں کیونکہ ان پراپیلیں ہوئی ہوئی ہیں توابھی یہ بات واضح بھی نہیں ہے کہ جب ان دونوں ریاستوں میں عوام اپنے رپبلکن امیداوارکاانتخاب کرنے کونکلیں گی تو کیااس وقت سابق صدرٹرمپ کانام بیلٹ پرہوگایانہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ پہلاامریکی صدرتھاجس نے اپنے دورِاقتدارمیں نہ صرف اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش کوپایہ تکمیل پرپہنچانے میں تمام عالمی انصاف کے پیمانوں کورونددیابلکہ اسرائیل کی پوزیشن مضبوط اورخطے کابدمعاش تھانیدار بنانے کیلئے باقاعدہ عرب ریاستوں سے اسے تسلیم کرواکے دوستی کے رشتے میں شیروشکرکرنے کی تمام سہولتیں بھی مہیا کیں لیکن اس کے باوجودانتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے بعدامریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات کے نتائج کومسترد کرتے ہوئے دنگافسادکے وہ مناظر دنیاکودیکھنے کوملے کہ دنیاحیران رہ گئی لیکن اب کیاوجہ ہے کہ ٹرمپ کودوبارہ صدارتی میدان میں لانے کیلئے کئی اہم اورمضبوط ادارے اورتنظیمیں میدان عمل میں اترآئی ہیں؟کیا غزہ میں جاری شرمناک اوروحشیانہ مظالم کے باوجودحماس کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی درگت نے صہیونی طاقتوں کواپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ٹرمپ کی ضرورت دوبارہ آن پڑی ہے ؟
اب اس خطے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جنگ کے شعلوں نے مغرب کوبھی فکرمندکردیاہے جبکہ اب تک ان کی مجرمانہ خاموشی اوردرپردہ اسرائیل کی حمایت کے نقصانات سے بچنے کیلئے سرجوڑکربیٹھے ہوئے ہیں کہ کیاواقعی اسرائیل کومزید اس قدرچھٹی دی جائے کہ یہ اپنے مقاصدکی کامیابی کیلئے ان کے کندھوں پرآئندہ کی ایٹمی جنگ کابوجھ ڈال دے؟ یاد رہے کہ اگر اسرائیل اپنے اس منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیاتواس دن دنیاکی تباہی کاعمل شروع ہوجائے گااورہم تیسری اورآخری عالمی جنگ کارزق بن جائیں گے۔چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اللہ سے جتنی معافی مانگ سکتے ہیں ،مانگ لیں، آپ سکھ کے جتنے سانس لے سکتے ہیں، لے لیں،اورآپ اللہ تعالیٰ کاجتناشکراداکرسکتے ہیں،کرلیں کہ قیامت کادن تواٹل ہے کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے،اب بس ایک دھماکے کی دیرہے جس کے نتیجے میں عالمی جنگ کاطبل بجاہی چاہتاہے۔
پوچھتاہے کہ قیامت کا دن کب ہو گا،پس جب آنکھیں چندھیا جائیں گی،اور چاند بے نور ہو جائے گا، اور سورج اور چاند اکٹھے کیے جائیں گے، اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے، ہر گز نہیں کہیں پناہ نہیں، اس دن آپ کے رب ہی کی طرف ٹھکانہ ہے، اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ وہ کیا لایا اور کیا چھوڑ آیا، بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے، گو وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ (القیامہ:15-6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔