تصور نو کانفرنس
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ نواز کے چوٹی کے رہنماء سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اسی طرح پیپلز پارٹی سے مستعفی ہونے والے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، بلوچستان کے سیاسی اور قبائلی رہنماء نوابزادہ لشکری رئیسانی اور دوسرے ایک غیر سیاسی فورم پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ ماجرا کیا ہے ؟ یہ واقفان حال ہی بیان کرسکتے ہیں۔ البتہ ان بڑوں نے کوئٹہ کے اندر الگ سیاسی جماعت کے قیام اور ارادے کے کی نفی کی ہے۔ یہ حضرات اس ارادے پر اتفاق کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک کے مختلف شہروں میں ڈائیلاگ کا اہتمام کریں گے۔ جہاں نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کی جائے گی۔ ملک کے عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگو اور اس کے حل کی راہیں متعین کی جائیں گی اور آئین پر عملدرآمد یقینی بنانے فضا ہموار کرنے کی جدو جہد کریں گے۔اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو بیدار کیا جائے گا۔ان کے مطابق قومی اسمبلی اور سینٹ میں عوامی مسائل پر بات ہوتی تو انہیں ایسے سیمینار کی ضرورت نہ پڑتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام میں سیاسی لوگوں یا دوسرے معنوں میں مو ثر افراد اور الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد یہ اکٹھ بھی مرکز نگاہ ٹھہرا ہے۔ جس کی فوری طو رپر کوئی جداگانہ سیاسی شناخت قائم نہیں۔
کوئٹہ کے اندر22جنوری2022ء کو نوری نصیر خان کلچر ہال میں بڑا مجمع اکٹھا ہوا۔ ’نیشنل ڈائیلاگ آن دی ری امیجنگ پاکستان‘کے عنوان سے اس اجتماع کا انتظام و اہتمام بلوچستان پیس فورم نے کیا۔ بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ لشکری رئیسانی ہیں۔ لشکری رئیسانی بلوچستان نیشنل پارٹی سے علیحدگی کے بعد تاحال کسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوئے ہیں۔1993اور1997ء میں بلوچستان اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے طویل تعلق رہا۔ پی پی کے ٹکٹ پر سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ مسلم لیگ نواز کا حصہ بنے جس سینبھا مختصر رہی اور سردار اختر مینگل کی جماعت ،بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔ بی این پی کے ٹکٹ پر جولائی2018ء کے عام انتخابات میں کوئٹہ سٹی کے نشست265پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ پی ٹی آئی کے قاسم سوری کامیاب ہوئے۔ لشکری رئیسانی نے الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا۔52ہزار ووٹوں کی بائیومیٹرک تصدیق نہ ہوسکی۔ قاسم سوری کی قومی اسمبلی کی رکنیت عدالتی حکم امتناعی پر رہی۔ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہیں۔ یہاں تک کہ 17 جنوری 2023ء کو اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نیپی ٹی آئی کے دیگر35ارکان کے ساتھ ان کا استعفابھی منظور کرلیا۔یعنی طویل مدت معاملہ عدالت میں رہنے کے باوجود فیصلہ نہ آسکا۔ مطلب یہ کہ لشکری رئیسانی ہارے نہیں تھے بلکہ ہروائے گئے۔اس کیس میں لشکری رئیسانی تنہاء رہ گئے تھے ۔ پی ڈی ایم نہ ہی بی این پی نے ساتھ دیا۔ بہر حال لشکری رئیسانی نے اپنے سیاسی اور سماجی مشاغل جاری رکھیں۔چناں چہ اب اس فورم کے ساتھ چلنے کا ان کا ارادہ لگتا ہے۔لشکری رئیسانی کی دعوت پر ہی پہلا اجتماع کوئٹہ میں ہوا۔ جو صبح گیارہ بجے شروع ہوا۔اور رات آٹھ بجے اختتام پذیر ہوا۔ جس میں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز، نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی،زمیندار ، مزدور، ملازم تنظیموں کے نمائندوں سمیت وکلاء اور صحافیوں کو بھی خطاب کا موقع دیا گیا۔ نواب اسلم رئیسانی شریک ہوئے اور تقریر کی۔ شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل، مصطفی نواز کھوکھر، خواجہ محمد ہوتی اور نوابزادہ لشکری رئیسانی نے خطاب کیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب ہوئے۔ بلوچستان کے وسائل، ساحل، معدنی معاہدوں ، انسانی حقوق کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔ کہا گیا کہ ملک سیاسی اور معاشی ابتری میں مبتلا ہے۔جبکہ عوام کے مسائل کی بجائے پانامہ اور توشہ خانہ زیر بحث ہے۔سیاست انتقام اور دشمنی کا روپ دھار چکا ہے جو ایک دوسرے کو گالی دینے اور الزام لگانے کا نام رہ چکا ہے۔اور جب سیاست دشمنی میں تبدیل ہو جائے ،سینٹ اور اسمبلیوں کے ارکان ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے میں وقت گزار دیں اور سیاست دان ہر طریقے سے ایک دوسرے کو جیل میں ڈالنے اور بد نام کرنے کی کوشش کریں تو ایسے میں عوام کے مسائل ایک طرف رہ جاتے ہیں۔
کہا گیا کہ سینٹ اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے مسائل پر بات نہیں ہوتی ہے۔ بات ہوئی کہ سیاسی جماعتیں12منٹ میں ایکسٹینشن کی قانون سازی پر اکٹھی ہوگئیں مگر بلوچستان کے مسائل پر اکٹھی نہیں ہوسکیں۔ اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بر خلاف جب پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں لوگوں کو چور دروازے سے لایا جاتا ہے۔ گوادر کے لوگوں کو آج بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ لاپتہ افراد کے مسلے کا حل نہ ہونا انصاف کے نظام اور آئین کی ناکامی قرار دی گئی۔کہا گیا کہ پچاس سال سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو درست کیا جاسکتا ہے اگر آئین پر عمل۔ در آمد ہو تو۔یہ کہ آئین پر عمل نہ کرنے والوں کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ ٹروتھ کمیشن تشکیل دیا جائے۔بلاشبہ مسائل گمبھیر ہیں۔صوبہ بلوچستان کو خاص کر مختلف النوع زیادتیوں کا سامنا ہے۔ صوبے کو اس کے جائز معاشی اور مالی حق سے محروم رکھا گیا۔ وفاق این ایف سی ایوارڈ کے تحت جائز حصہ دینے سے گریزاں ہے۔ وفاق، مسلط حکومتیں صوبے اور عوام کے مسائل اور محرومیوں کا باعث بنی ہیں۔ ایوان بالا کے لیے سرمایہ کے بل بوتے پر نمائندے کامیاب ہوکر چلے جاتے ہیں جنہیں سروکار خالصتاً ذات کی نفع سے ہوتا ہے۔ مختلف گروہ و اشخاص حکومتوں کی تشکیل و حصول پر حاوی رہتے ہیں۔ شنید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے 29 کوآرڈینیٹرز کی فوج ظفر موج میں ایک کوآرڈنیٹر پرنس فہاد تھیم کا تعلق سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل گڑھی خیرو کے گاؤں شہرام پورسے ہے۔ جس کے ہمراہ پروٹوکول میں بلوچستان پولیس کے جوان اور گاڑیاں ہوتی ہیں۔ یہ شخص چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی سفارش پر کوآرڈنیٹر بنائے گئے ہیں۔ لا محالہ ایسی حرکات و اعمال اور تسلطوں کی وجہ سے احساس محرومی اور نفرت کے جذبات کو مہمیز ملتا ہے۔ جو ریاست کے لئے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ الغرض مذکورہ اجتماع نے بادی النظر میں بلوچستان سے روا رکھی گئی زیادتیوں کی تصدیق بھی ؎کردی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔