ہاکس بے کراچی کا ساحل سبز کچھوؤں کے لیے موت کا دہانہ بن گیا
شیئر کریں
ہاکس بے کا ساحل گرین ٹرٹلز(سبزکچھووں)کے لیے موت کا دہانہ بن چکا ہے،ساحلوں پربڑھتی تعمیرات کی وجہ سے کچھوؤں کے انڈے دینے کی جگہیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔مادہ کچھواگنجان آبادی والے ساحلوں پرانڈے دینے پرمجبورہے،تفریحی ہٹس پرہونے والی ڈانس پارٹیز،میوزک شورشرابے،تیزبرقی قمقموں کی چکاچوند،سمندرکنارے فراٹے بھرتی کاروں نیگرین ٹرٹل کے افزائش نسل کے مقام کو تباہی سے دوچارکردیا،ساحل پرموجود آوارہ کتے اورچیل کوے بھی کچھوؤں کے لیے عفریت ثابت ہورہے ہیں۔ساحلوں کی آلودگی اوردیگرمتفرق خطرات کی وجہ سے اولیوریڈلی(زیتونی کچھوے) کراچی کے ساحلوں سے روٹھ چکے ہیں،واحد رہ جانے والی نسل گرین ٹرٹل(سبزکچھوؤں)کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔مادہ کچھوا دماغ میں موجود قدرتی مقناطیسی سیال کی وجہ سے اپنی اوسط عمر70سال میں 10سے15مرتبہ افزائش نسل کے لیے اپنی جائے پیدائش کا رخ کرتی ہے۔کرہ ارض کی خشکی وپانی پرصدیوں سے موجود کچھوا وہ واحد جاندارہے،جس کو اپنے بچے دیکھنا نصیب نہیں ہوتے۔ ہاکس بے کے ساحلی مقامات سینڈزپٹ اورپیراڈائزپوائنٹ سمیت تاحدنگاہ پھیلا ساحل آبی حیات کے لیے عفریت بنتا جارہا ہے،سمندرکنارے بڑی تعداد میں ماضی قریب اورماضی بعید میں بننے والے تفریحی ہٹس کی تعمیرنے ان کچھوؤں سے قدرتی مسکن چھین لیے۔رات کے وقت ان ہٹس میں ڈانس پارٹیوں،بلند آوازمیں بجنے والامیوزک،غل غپاڑہ،تیزبرقی قمقموں اورچکاچوند کا سبب بننے والی اسپاٹ اور فلڈلائٹس کا بے دریغ استعمال ان مادہ کچھوؤں کے لیے موت کا دہانہ ثابت ہورہی ہیں۔رہی سہی کسران نجی محفلوں کے دوران ڈیزرٹ سفاری(موٹربائیک)،گھڑسواری جبکہ بیش قیمت فراٹے بھرتی کاروں کا سمندرکنارے آزادنہ اوردھڑلے سے نقل وحرکت ہے،جس نے کچھوؤں کے اس قدرتی مسکن کو تباہی کیدہانے پرپہنچادیا۔