عرب بہار کے بعد کا مشرقِ وسطیٰ
شیئر کریں
تصادم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی مگر افہام و تفہیم کافیصلہ کرتے ہوئے مفادات کو پس پشت ڈالنا بھی مناسب نہیں مذاکرات سے مسائل کا حل نکلتا ہے لیکن ٹھونسا گیا حل مسائل بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال بڑی حد تک ٹھونسی گئی معلوم ہوتی ہے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی لیکن سفارتی روابط قائم کرنے سے قبل کیا جانے والا کام ہوتا نظر نہیں آرہا ،بادی النظر میں فریقین راہ وراسم بڑھانے کے سوا کچھ دیکھنے سے گریزاں ہیں جس سے خطے میںدیرپاامن کا خواب وقتی اور سطحی معلوم ہوسکتا ہے جیسے سمندر اپنی تہہ میں ڈھیروں طونان چھپائے بظاہرسطح آب سے پُرسکون نظر آئے ۔
عربوں کو اسرائیل تسلیم کرنے سے باز رہنے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا ہر ملک کو اپنے مفاد کے تحفظ کا حق حاصل ہے دنیا اسلحہ کا ڈھیر بننے کے باوجود ایشیا ،افریقہ سے لیکر یورپ تک بننے والی تنظیموں سے تصادم کے امکانات میں کمی آئی ہے اور جنگ و جدل کی بجائے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے پر کام ہونے لگا ہے لیکن عرب ممالک اور اسرائیل میں قائم ہوتے سفارتی تعلقات میں ایسی سوچ کا فقدان اور بادشاہت کے تحفظ کا خیال قوی ترلگتا ہے قبل ازیں امریکا نے بادشاہت کے تحفظ کا کردار عمدگی سے نبھایا اب یہی کرداراسرائیل کو ملنے والا ہے کیونکہ عرب بہار سے مشرقِ وسطیٰ میں چُھپے سیاسی طوفان کی نشاندہی ہوچکی لیکن آیا طوفان کامکمل خاتمہ ہوچکاہے یامتاثرہ اذہان دوبارہ متحرک ہو سکتے ہیں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں مگر شہد کے چھتے پر لپکتی مکھیوں کی طرح جس طر ح عرب ممالک اسرائیل کی چھائوں تلے جمع ہونے کو بے قرار ہیں سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام کوسیاسی آزادی دینے کی بجائے بادشاہت بچانے اور ایران اور ترکی کا خطرہ دیگر خطرات پر حاوی ہوچکاہے اسرائیل کی زرعی و صنعتی ترقی اور تحقیق سے فائدہ اُٹھانے میں صداقت نہیں ۔
مقاماتِ مقدسہ کی وجہ سے عالم اسلام میں سعودی عرب کو احترام حاصل ہے لیکن موجودہ ولی عہد قدامت پسندی کوفرسودہ جان کر جدت کی راہ پر گامزن ہیں ،نئے شہر نیوم کی تعمیر میں آزاد خیال ممالک کی طرح جنسی آزادی دینے کی سوچ ہے تاکہ عیاش شہری دوسرے ممالک جا کر دولت نہ لُٹائیں اخوان االمسلمون کے خلاف رائے عامہ بنانے میں سُست روی کے نام پر کئی مساجد کے پیش امام برطرف کیے جا چکے ہیں خواتین کو گائیڈ بننے ،ٹیکسی چلانے اور نامحرم کے ساتھ ایک کمرے میں شب بسری کی اجازت دی جا چکی ہے کرسمس کے حوالے سے بھی دکانوں پر سامان رکھنے پر عائد قد غن ختم کردی گئی ہے یہ ایسے اقدامات ہیں جن کے بارے میں چند برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اب مذکورہ بالا تبدیلیاں حقیقت ہیں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے بھی نئے شہر نیوم میں ہی ولی عہد شہزادہ محمد نے ملاقات کی جو شاید خفیہ ہی رہتی لیکن عبرانی ذرائع ابلاغ نے ہی بھانڈہ پھوڑ دیا، سعودی عرب کی طرف سے مزید کئی نرمیاں اختیار کی گئی ہیں مثلاََ اسرائیل جانے والی پروازوں کو فضائی حدود استعمال کرنے پرعائد پابندی ہٹانے کے ساتھ یہ سہولت اسرائیلی فضائی کمپنیوں کو بھی دیدی ہے جب اسرائیل عرب علاقوں کے علاوہ بھی کئی ممالک کواپنا حصہ بنانے کا عزم رکھتا ہو ان حالات میں تبدیلیوں کے سطحی ہونے کا یقین ہوجاتا ہے کیونکہ دوست نقصان نہیںپہنچاتے لیکن اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر حدود کے حوالے سے تحریر کچھ اور ہی کہنانی سناتی ہے جو دوستانہ سوچ کی عکاس نہیں۔
مراکش کا علاقہ مغربی صحارادولاکھ چھیاسٹھ ہزار کلو میٹر پرمحیط ہے جس پر امریکا کی طرف سے حقِ ملکیت تسلیم کرنے کے صلے میں مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے حالانکہ مغربی صحارا سے صیہونی ریاست کا کوئی تعلق نہیں یہ ایسا علاقہ ہے جو کچھ عرصہ ا سپین کا حصہ رہا 1975میں اسی فیصدپر مراکش اوربیس فیصد حصے کا ماریطانیہ کو انتظامی کنٹرول ملا1979 میں بیس فیصد سے بھی ماریطانیہ دستبردار ہوگیامگر الجزائر کی حامی پولیساریو فرنٹ نے مقامی سطح پر لڑائی جاری رکھی امن قائم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ نے امن دستے تعینات کر دیے لیکن دنیا اِس علاقے کو مراکش کا حصہ ہی تسلیم کرتی رہی امریکا کی موجودہ رضا مندی اورنقشہ تسلیم کرنے میں بظاہر کوئی نئی بات نہیں پھر بھی بادشاہ محمدششم نے نئی تبدیلی کو خوش آئند کہتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں اگر اسی علاقے کا ایک اور ملک بھی آگے بڑھ کر اسرائیل کو سینے سے لگا لیتا ہے تو یقین کرلیں عرب ممالک کی پریشانی کوئی اور نہیںکسی نئی عرب بہار کا خوف ہے۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے کا 5878کلومیٹر،غزہ کا363کلومیٹر گولان کی پہاڑیوں کا 1150کلومیٹر حصہ قبضے میں لے لیا یہ تمام علاقے اب بھی اسی کے پاس ہیں مغربی کنارہ اُردن ، غزہ مصر جبکہ گولان کی پہاڑیاں شام کا حصہ ہیں حیران کن امر یہ ہے کہ اُردن اور مصر نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں مگر تنازعات بددستور موجود ہیںاور ہنوز کوئی آبرومندانہ حل نہیں ہوسکا تنازعات کی موجودگی میں دوستی کتنی پائیدار نہیں ہو سکتی ۔ شام ابھی تک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے جس کی وجہ ایرانی رسوخ ہے مگر خانہ جنگی کا شکار شام اب مشرقِ وسطیٰ کا ایسا لاغر کھلاڑی ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ۔تنازعات کی موجودگی میں تصور کر لینا کہ مشرق وسطیٰ میں امن آجائے گا بعید از قیاس ہے یہ الگ بات ہے کہ طاقتور کا اصول جس کی لاٹھی اُس کی بھینس تسلیم کرتے ہوئے سرنڈر کر دیں ۔جب تک اصل تنازعات ختم نہیں ہوتے تب تک اخلاص پر مبنی دوستی ممکن نہیں۔
فلسطینیوں کی مدد سے عرب ممالک ہاتھ کھینچ بھی لیں تو بھی وہ اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہو سکتے حریت کی چنگاریاں سُلگتی رہیں گی جس سے حقیقی امن کا خواب دیکھنا مسائل سے چشم پوشی ہے مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے لیکن اسرائیل نے دارالحکومت قراردے رکھا ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکا سفارتخانہ تل ابیب سے یورشلم منتقل کرنے کی ہدایات جاری کرچکے ہیں پھربھی عربوں کی بے قراری اور امریکی احکامات کی پاسداری سمجھ سے بالاترہے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ تنازعات کا فریقین کے لیے قابل قبول حل بھی تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن کا خواب تعبیر پا سکے علاوہ ازیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بادشاہت کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنا اور کسی نئی عرب بہار سے بچنا ہے تو سیاسی آزادی کی طرف آنا ہو گا زرعی و صنعتی ترقی کے لیے وسائل فراہم کرنا ہوں گے اغیار پر چھوڑنے کا انجام عراق ،شام ، لیبیا،یمن اور لبنان کی تباہی سے ہویداہے اِس لیے اندرونی خلفشار پر قابوپانے کے لیے کچھ خود بھی کرنا ہو گابیرونی مدد پر انحصار دانشمندی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔