عشق ِ حقیقی
شیئر کریں
محبت بھی کیا چیزہے جس کے دل میں موجزن ہوجائے دنیا کا ہر عیش و آرام اس کے سامنے ہیچ ہوجاتاہے یہ جذبہ ہر جذبے پر حاوی ہے ،درویش اپنی دھن میں کہے جارہاتھا یہ الگ بات ہے کہ آج محبت اور ہوس میں لوگ تمیز کرنا بھول گئے ہیں کہاں محبت جیسا لطیف جذبہ جہاں اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے کہاں ہوس صرف اپنے فائدے متعلق سوچتے رہنا ،ہوس انتہا درجے کالالچ ہے ،محبت میں انسان صرف اپنے محبوب کے بارے میں سوچتاہے ،دھیرے دھیرے جلنے اور صندل کی آگ کی طرح سلگنے کااپنا ہی مزہ ہے ہرطرح کا خوف ،ڈر،لالچ دل سے نکل جاتاہے ،انسان اپنی محبت کی خاطرپہاڑ سے بھی ٹکرانے سے نہیں ڈرتا۔غورکرو سوچو محبت میں مضطرب رہنا کیسا لگتاہے؟ یہ وہی جانتے ہیں جن کے دلوںمیں پیار کے گلاب کھل اٹھے ہوں۔درویش نے ادھرادھر نظردوڑائی اور بڑی متانت سے کہا محبت کے کئی درجے ہیں ہر درجے کا اپنا مقام ہے لیکن یارکھنے کی بات یہ ہے کہ عاشقِ صادق ہی اس کی معراج پر پہنچتے ہیںعشق ِ مجازی ہو یا عشق ِ حقیقی ،دونوںکی الگ الگ لذت ہے ،پیار جب محبت میں تبدیل ہوتاہے تو خرد کوکچھ کچھ ہوش باقی رہتاہے مطلب یہ کہ محب اور محبوب صرف ایک دوسرے بارے سوچتے ہیں، اس سے اگلا مقام عشق کاہے جہاں اپنے آپ سے بے نیازی کا عمل ہونا شروع ہوجاتاہے پھرجنوں تو عشق کی معراج ہے یہ وہ مقام ہے جہاں اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے صرف محبوب یادرہتاہے کاروبار ِزندگی کاپھر کہاں ہوش ہوتاہے اس عالم میںاضطراب اتنا بڑھ جاتاہے کہ وحشت ہونے لگتی ہے یہ کیفیت فنافی اللہ کی ہے ،یہی کامل،اکمل اور مکمل عشق ہے یہ عشق ہرکسی کا نصیب نہیں ہوتادنیا دار اس کے گرد تک نہیں پہنچ سکتے ،اسی بارے قادر مطلق کے فرمان کو علامہ اقبالؒ نے اپنے مفہوم میں بیان کیاہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ ٔ مومن کا ہاتھ
درویش نے بڑی گہری سانس لے کرکہا امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے روایت ہے ایک خوش پوش نوجوان اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا کہ موسی علیہ السلام وہاں سے گزرے ،اس نے راستہ روک کر سلام عرض کیا پھر دست بستہ حضرت موسی علیہ السلام سے التجا کی کہ اے اللہ کے نبی اب کی بار آپ اللہ سے ہم کلام ہوںتو میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ پاک اپنی محبت میں سے ایک ذرہ محبت مجھے عطا فرمائے کیونکہ میں اس سے محبت کرتاہوں تاکہ میرے دل میں بھی اللہ کی محبت کی فروزاں ہوجائے۔یہ سن کر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ تونے بہت بڑی بات کہہ دی ہے، تیری یہ خواہش بڑی عجیب و غریب ہے تو ایک ذرہ محبت کا کبھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ نوجوان نے دوبارہ التجا کی کہ پھر اللہ پاک مجھے اپنی محبت کا آدھا ذرہ ہی عطاکر دے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے وعدہ کرلیاپھر آپ کوہ ِ طورپرتشریف لے گئے تو اللہ کے حضور نوجوان کی خواہش کااظہار کرکے دعا فرمائی کہ اے پروردگار تعالیٰ تو اسے پنی محبت میں سے نصف ذرہ عطا فرما دے، اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرما لی پھر حضرت موسی علیہ السلام رخصت ہوگئے ،کافی عرصہ بعد اس نوجوان کے مکان کے پا س سے آپ کا گزر ہوا تو انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا وہ پاگل اوردیوانہ ہو گیا ہے اسے کچھ کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا ،ایک خوش لباس نوجوان کی نہ جانے کیوں کایا پلٹ گئی وہ پہاڑوں پر چلا گیا ہے ،نہ جانے وہاں کیا کرتاہے ؟ پھر عیسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یاباری تعالیٰ وہ نوجوان مجھے دکھا دے آپ کچھ دور ایک بیاباں مقام سے گزررہے تھے کہ وہ نوجوان آپ کو نظر آگیا کہ وہ پہاڑکی ایک اونچی چوٹی پر کھڑا تھا اس کے سر اور داڑھی کے بال بڑھ کر چھاتی سے آن ملے تھے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے ،نوجوان آسمان کی طرف منہ زور زور سے کچھ آوازیں دے رہا تھا حضرت موسی علیہ السلام بڑی مشکل سے اس کے قریب پہنچے زور سے اسے سلام کیا لیکن وہ خاموش ہی رہا خالی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور کوئی جواب نہ دیا، آپ نے پھر فرمایا میں موسی ہوں تو بھی اس نوجوان نے کوئی جواب نہ دیا اسی اثناء میں للہ تعالی کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی فرمائی گئی کہ جس دل میں میری محبت کا نصف ذرہ موجزن ہوجائے وہ کیسے ہوش میں رہ سکتاہے وہ تمہاری بات کیونکر سنے گا؟ مجھے قسم ہے میری عزت اور جلال کی کہ تو اس نوجوان کو آرے کے ساتھ اگر چیر بھی دے تو اس کو خبر بھی نہ ہو گی کہ تو کون ہے؟
درویش نے کہا عشق ِ حقیقی میں تو انسان فنااللہ ہوجاتاہے اولیاء کرام کا بھی یہی مقام ہے دنیاوی لالچ،لوبھ ،جاہ و حشمت ان کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے وہ اللہ سے لو لگاکر لوگوںکو انسانیت کی خدمت کادرس دیتے ہیں بادشاہی سے رغبت ان کے مزاج میں نہیں رہتی اسی لیے وہ جب اللہ کے حضور ہاتھ اٹھاتے ہیںتو ان کی دعا ردنہیں کی جاتی۔یہ تو اللہ کے نبی کا واقعہ ہے ،ہمارے ارد گرد درجنوں واقعات اور کہانیاںبکھری بڑی ہیں دورنہ جائیں قیس کی ہی مثال لے لیجئے وہ ایک صحرا میں لیلیٰ لیلیٰ پکاررہاتھا ایک شخص نے اسے جھڑکا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا تم پاگلوںکی طرح لیلیٰ لیلیٰ کی صدالگارہے تھے مجنوں کہیں کے۔۔۔ قیس نے کہا تم اللہ کی نماز پڑھ رہے تھے تم نے مجھے کیسے دیکھ لیا حالانکہ بخدا میں نے تمہیں نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ درویش نے بڑی متانت سے کہا یہ آپ سب کے لیے ایک درخواست ہے اپنے دلوںکو محبت کا گہواربنالو یقین جانو جہاں محبت موجزن ہوجائے ،اس دل سے نفرت،کدورت اور لالچ کا خاتمہ ہوجاتاہے آج کے ماحول میں یہ بہت ضروری ہے محبت تو بھائی چارے کے فروغ میں بھی بڑی ممدو معاون ہے اس سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیاجاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔