میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے

اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے

منتظم
منگل, ۲۶ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہوگی جہاں ا قلیتوں کو غلام بنا کر رکھا جائے گا۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا ذکر کیا جو کہ عیسائیت کے دو فرقے ہیں۔ وہ اسلام اور ہندو مت کی طرح دو مختلف مذاہب نہیں۔ قائد اعظم ہمیشہ اقلیتوں کو یقین دہانیاں کراتے رہے کہ رواداری اسلام کا بنیادی اصول ہے۔

فروری1948 میں قائد اعظم نے فرمایا ’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل و صورت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح1300برس قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے ، مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائے گی بہرحال پاکستان ایک تھیوکریٹ(مذہبی ریاست) نہیں ہوگی۔ پاکستان پریمئر اسلامک اسٹیٹ ہوگی۔‘‘

قائداعظم نے 11 اگست کو اپنی تقریر میں اقلیتوں کے بارے میں فرمایا’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔

محمد علی جناحؒ نے صرف 11 اگست کی تقریر ہی نہیں بلکہ لگ بھگ اپنی 33 تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی۔ ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہر کسی کو مذہبی آزادی ہوگی اور ریاست نہ تو کسی مذہب کو فروغ دے گی اور نہ ہی کسی کو دبائے گی۔ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ سیاسی اور قومیت کے اعتبار سے۔

قائد اعظم نے 14اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر مائونٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے بھی اپنے اسی نقطہ نظر کو دہرایا۔ مائونٹ بیٹن نے اقلیتوں کے حوالے سے مغل بادشاہ اکبر کی فراخ دلی کا ذکر کیا تھا جس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا کہ’’اکبر بادشاہ نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ اس کا آغاز 1300برس قبل ہوگیا تھا جب نبی کریمؐ نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں انہوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیا اور حضور نبی کریمؐ کو اپنا رہنما اور رول ماڈل قرار دیا۔

قائد ا عظمؒ نے 11 اگست کو اپنی تقریر میں یہ واضح کر دیا کہ اقلیتوں سے پاکستان کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا اور ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسروں کو حاصل ہوں گے۔ پاکستان غیر مسلم اقلیتوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے سب کچھ کرے گا۔

پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقو ق حاصل ہوں گے ا ور یہ کہ ہمارے نبی کریمؐ نے یہودیوں،عیسائیوں سے جس فراخدلی کا مظاہر ہ کیا تھا ہم اس پر عمل کریں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی وہ سازشی اور منافق ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر تمام شکوک شبہات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہوگا اور اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔

مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوںنے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں اقلیتیں زیادہ محفوظ ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق اور انکی مذہبی و تہذیبی شناخت کا تحفظ قرارداد پاکستان کا اہم پہلو تھاجسے بنیاد بنا کر برصغیر پاک و ہند کی اقلیتی برادری نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے بعد قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھر پور حصہ لیا۔ اقلیتیں ہمارے قومی وجود کا لازمی جزو ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لیے اقلیتی برادری کی خدمات اور قربانیوں میں قابل قدر تیزی آئی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اقلیت دوست ملک کے طور پر جانا جائے گا۔اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور انہیں معاشرے میں جائز مقام دلانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔

پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے۔ مسیحی آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی اقلیت ہیں جبکہ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اورکیلاشی نمایاں ہیں۔ پاکستان میں بودھوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے رہنماء اصولوں کے مطابق اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اقلیتی برادری نہ صرف پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتی ہے بلکہ ملک کی خوشحالی میں بھی شانہ بشانہ ساتھ دے رہی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے حکومت بھرپور اقدامات یقینی بنارہی ہے۔اس ضمن میں اقلیتی رہنماء اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

قائد اعظمؒپاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ملک بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے اپنی تقریروں میں کبھی بھی لفظ سیکولرازم استعمال نہیں کیا جبکہ اسلام ان کی تقریروں اور تحریروں کا محور نظر آتا ہے۔11اگست 1947کی تقریر کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نفس مضمون اور مدعا اقلیتوں کو احساس تحفظ ا ور بحیثیت شہری برابری کا پیغام دینا تھا اور قوم کو اتحاد کی تلقین کرنا تھا جس میں پاکستان کی بقائکا راز مضمر ہے۔

11 اگست کی تقریر یہ بتاتی ہے کہ جب نئی ریاست کی تشکیل ہورہی تھی تو ریاست کے بانی کے ذہن میں اس کا نقشہ کیا ہے۔ وہ اسے کیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔قائد اعظمؒ نے اس تقریر میں پاکستانیت پر زور رکھا ہے اور بتایا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں