عام ووٹر کا شکوہ۔ بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں
شیئر کریں
محمد اکرم خالد
1997 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان سے دبئی روانہ ہوگئیں اس دوران 1999میں میاں صاھب کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں مارشلء کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں میاں صاحب کی مختصر حکومت کا خاتمہ ہوگیا پھر میاں صاحب اور بے نظیر بھٹو صاحبہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر اپنی جماعتوں کو چلتے رہے اس دوران میاں صاحب بی بی صاحبہ اور پرویز مشرف کے درمیان ایک NRO تشکیل پایا جس کے بعد محترمہ اور میاں صاحب کے لیے پاکستان آنے کی روکاوٹیں ختم ہوگئیں محترمہ بے نظیر دس سال بعد 18 اکتوبر 2007کو دبئی سے کراچی پہنچی جہاں ایک ریلی کی شکل میں ان کا بھر پور استقبال کیا گیااس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی یہ ریلی جب کارساز کے مقام پر پہنچی تو اس ریلی پر دو خود کش دھماکہ کیے گئے جس میں محترمہ اور ان کے سینئر رہنماء تو محفوظ رہے مگر اس سانحہ میں 200سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
اس سانحہ کے بعد محترمہ کی زندگی کو خطرات مزید بڑھ گئے مگر محترمہ کی جرات کو سلام کے ان کا حوصلہ کم نہ ہوا اور اُنھوں نے یہ ثابت کیا کے وہ ایک عوامی لیڈر ہیں ڈیڑھ ماہ بعد یعنی 27دسمبر 2007کو محترمہ ایک بار پھر لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کرنے کے بعد جب روانہ ہونے کے لیے اپنی گاڑی میں سوار ہوئیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں اور بھٹو فیملی کا آخری چراغ بھی گل ہوگیا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ محترمہ بی بی شہید ایک نا ڈر خاتون اور بہترین سیاسی لیڈر تھیں ۔
آج اس اعظیم خاتون لیڈر کو رخصت ہوئے دس سال کا عرصہ ہوچکا ہے مگر ان کے قاتلوں کا آج تک کوئی درست فیصلہ نہیں ہوسکا ہے ان کی شہادت کے نتیجے میں پاکستانی عوام نے ان کی جماعت کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کی کرسی تک پہنچایا مگر ان کی جماعت ان کے شوہر ان کی اولاد اس اعظیم خاتون کے قاتلوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے اس جماعت کے سینئر رہنماء جو برسوں سے بی بی شہید کے ساتھ جوڑے ہوئے تھے آج اس جماعت کو خیر باد کہہ گئے ہیں کچھ ایسے رہنماء ابھی بھی اس جماعت سے صرف اس لیے منسلک ہیں تاکہ ان کا سیاسی مستقبل قائم رہے سکے۔
دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی بی بی شہید کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگئی تھی مگر اس ڈوبتی ہوئی کشتی کوبھٹو صاحب اور محترمہ سے محبت و عقیدت رکھنے والے عوام نے ان کی جماعت کو قائم رکھنے کے لیے 2008 کے الیکشن میں کامیاب کرایا مگر آصف زرداری صاحب کی قیادت میں یہ جماعت درست سمت پر گامزن نہیں ہوسکی نہ ہی دس سال گزار جانے کے باوجود شہید محترمہ کے قاتلوں کا سراغ لگایا جاسکا نہ ہی عوامی مسائل کو حل کیا جاسکا یہاں تک کہ پیپلز پارٹی سے منسلک لوگوں کے مسائل کو بھی حل نہیںکیا جاسکا نہ ہی پاکستان کو ترقی کی جانب گامزن کیا جاسکا سابق صدر آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی نے کراچی جو پاکستان کادل ہے اس شہر کی ترقی و خوشحالی کو بری طرح متاثر کیا جس کے نتیجے میں آج یہ خوبصورت شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے پانی بجلی بے رو ز گاری کے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے جس پر دس سال سے صرف سیاست کی جارہی ہے جو جماعت اپنے لیڈر کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہو وہ عوام کو کیا ریلیف فراہم کرے گی محترمہ کے صاحبزادے بلال زرداری جن سے عوام کو کافی اُمیدیں وابستہ تھیں جو اکثر جوش خطابت میں اپنی والدہ کے ذکر میں آبدیدہ ہوجاتے ہیں وہ بھی دس سال گزار جانے کے باوجود اپنی والدہ کے قاتلوں کو سزا دیلانے میں ناکام رہے ہیں ان معاملات پر کوئی دھرنہ کوئی احتجاج نہیں کیا گیا بلکہ اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کے لیے جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگا یا جاتا رہا ہے جو کیسی صورت درست نہیں ہے کیوں کہ ا اقتدار کی کرسی پر پہنچنے کے بعد تو عوامی مسائل کو بری طرح نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو دس سال گزار چکے ہیں نہ ہی ان کے قاتلوں کو سزا ہوسکی ہے نہ ہی بھٹو صاحب اور بی بی شہید کی پیپلز پارٹی قا ئم رہے سکی ہے اور نہ ہی پاکستان کے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں زرداری صاحب اور بلاول صاحب کوئی اہم کردار ادا کر سکیں ہیں سندھ جو پیپلز پارٹی کی پہچان ہے جہاں سے بھٹو فیملی لاکھوں ووٹ لے کر اقتدا کی کرسی پر براجمان ہوتی رہی ہے آج سندھ اور خاص کر کراچی شہر کا بُرا حال کر دیا گیا ہے مئیر کے اختیارات پر قبضہ کر کہ زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹر کو ما یوس کیا ہے آج ایم کیو ایم سے اختلافات کی سزا پیپلز پارٹی کا ووٹر بھی بھگت رہا ہے جس کا علاقہ کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے جو پانی بجلی کے مسائل کی زد میں ہے جو زرداری صاحب کی پالیسی سے مایوس ہوکراپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی دوسرا دروازہ دیکھنے پر مجبور نظر آرہا ہے پیپلز پارٹی کے عام ووٹر کو یہ شکوہ کرتے دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے گھر کے فراد یعنی بی بی کے قاتلوں کو پاور میں ہوکر سزا نہیں دیلا سکے وہ عوام کے مسائل کو کیا حل کریں گئے زرداری صاحب بلاول زرداری سندھ کے مسائل کو نظر انداز کر کہ پنجاب کو فتح کرنے کا دعوی کر رہے ہیں جو ان کی سیاست کا خاتمہ ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ سندھ کے مسائل کو نظر انداز کرنا کیسی صورت پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہے آج بھی پیپلز پارٹی کا ووٹر مایوس ہے کہ بی بی ہم شر مندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں۔