بینظیر شہادت
شیئر کریں
ذوالفقار بھٹو نے اوائل عمر ی سے ہی بے نظیر کی سیاسی تربیت کا اہتمام کیا، 1972 میں شملہ مذاکرات کے وقت 19 سالہ بے نظیر ان کی مشیر امور خارجہ تھیں
اشتیاق احمد خان
22 جون 1953 کو جس پنکی نے بھٹو خاندان میں آنکھیں کھولی تھی وہ 27 دسمبر2007 کو اپنے لہو میں نہا کر گڑھی خدابخش جا بسی ہمیشہ کے لیے۔ کسی نے کہا تھا ”بھٹو اقتدار اور جوانی میں مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں“۔۔۔ پھر وقت نے زلفی کے خاندان پر یہ کہاوت سچ ثابت کر دی۔
زلفی کے خاندان میں سے سیاست میں جس نے بھی قدم رکھا ان میں سب سے زیادہ عمر بے نظیر نے پائی، ذوالفقار علی بھٹو جب مکافات عمل کا شکار ہو کر راولپنڈی جیل میں پھانسی پر جھولے تو اس وقت ان کی عمر 50 سال اور 3 ماہ تھی۔ جولائی 1984 میں جب شاہنواز بھٹو موت سے ہم آغوش ہوا تو اس نے اس وقت زندگی کی صرف 27 بہاریں دیکھی تھی، میر مرتضی جب 20 ستمبر1996 کو اپنے گھر کے سامنے قاتلانہ حملے کا شکار ہوا اور رات گئے موت سے ہمکنار ہوا ،اس وقت اس کی عمر صرف41 سال تھی اور جب بے نظیر 27 دسمبر2007 کو (تاحال) نامعلوم ملزمان کا نشانہ بنی تو وہ ان میںسب سے زائد عمرکی تھی یعنی 54 سال اور 6 ماہ۔
ابھی ذوالفقار علی بھٹو نے بھرپور جوانی میں قدم نہیں رکھا تھا کہ اقتدار کی غلام گردشوں کا مسافر بن گیا، 1953 میں جب زلفی کو اسکندر مرزا نے پہلی بار اپنی کابینہ کا حصہ بنایا تو اس وقت اس کی عمر 24 سال تھی، اسکندر مرزا کو آکسفورڈ کے اس طالب علم میں کیا صلاحیتیں نظر آئیں، اس کے سوا کہ وہ ناہید کی سہیلی کا شوہر تھا اور جس کی صلاحیتوں کے ڈنکے بجتے تھے اور یہ صلاحیت ہی زلفی کو سب پر ممتاز کرتی تھی ۔1953 میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے راستے خود بنائے ،1958 میں جب اسکندر مرزا اور محمد ایوب کے درمیان اختلافات کی شدت کو دیکھا تو ہوا کے رخ کا جائزہ لے کر جنرل محمد ایوب خان کے کیمپ میں آگئے اور پھر 1967 کے وسط تک ایوب خان زلفی کے” ڈیڈی "تھے اور پھر ۔۔۔۔
بات دوسری طرف نکل گئی، 1953 میں جب بے نظیر نے دنیا میں پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں، اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں اسکندر مرزا کے ہاتھوں پر بیعت کر چکے تھے ،یوں بے نظیر نے اقتدار کے ایوانوں میں پرورش پائی اورحکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اوائل عمر سے ہی بے نظیر کی سیاسی تربیت کا اہتمام کیا تھا اور جب 1972 میں مذاکرات کے لیے شملہ گئے تھے تو 19 سالا کیمرج کی طالبہ بے نظیر ان کی مشیر امور خارجہ تھیں ،بے نظیر بھٹو نے اپنی اوائل عمر کا ایک بڑا حصہ اقتدار کے ایوانوں میں گزارا اور پھر 1977 میں پیش آنے والے تلخ حالات نے بے نظیر کو وقت سے بہت پہلے میچور سیاستدان بنا دیا ۔1979 میں بھٹو کی پھانسی ایک ایسا واقعہ تھا جس نے میر مرتضی ،شاہنواز اور بے نظیر کی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کیے ،میرمرتضی اور شاہنواز انتقام کے جذبات میں جلنے لگے ،تو بے نظیر نے حکمت عملی سے باپ کی بنائی پارٹی کو بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچایا ۔ورنہ کہنے والے کہتے تھے کہ پی پی بھٹو کے ساتھ ہی گڑھی خدا بخش میں دفن ہو گئی لیکن بے نظیر کی حکمت عملی نے 38 سال گزرنے کے باوجود پارٹی کو بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچا رکھا ہے ۔
1986 میں جب بے نظیر نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو لاہور میں ہونے والے استقبال میں ماضی کے تمام ریکاڈ توڑدیئے 1988 سے1999 تک اقتدار اور اختلاف کا کھیل چلتا رہا، 1997 کے انتخابات میں پارٹی کی بری طرح شکست کے بعد بے نظیر نے جلا وطنی کا فیصلہ کیا، یہ بظاہر فرار کا ایک راستہ تھا لیکن بے نظیر کی حکمت عملی نے اسے حالات کا بہترین جواب ثابت کیا ۔
18 اکتوبر 2007 کو کراچی واپسی سے قبل دوستوں نے بے نظیر کو خطرات سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے واپسی کا فیصلہ موخر نہیں کیا ،شاہراہ فیصل پر واضح پیغام دیا گیا لیکن چند یوم دبئی میں گزارنے کے بعد بے نظیر نے ایک بار پھر پاکستان آنے کافیصلہ کیا ۔18اکتوبر2007 کو جب شاہراہ فیصل پر پے درپے دھماکے ہوئے تو پیغام دینے والوں نے بم پروف گاڑی سے سادہ گاڑی میں منتقلی کے ذریعے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ان کی سیکورٹی کن ہاتھوں میں ہے ،وہ عقل کے اندھے ہیں کیا ،دو دھماکوں کے بعد تیسرا دھماکا ناممکن تھا؟ اور اگر تیسرا دھماکا ہو جاتا تو ۔۔۔۔۔؟ لیکن اس وقت تک صرف پیغام دینا مطلوب تھا کہ اب بھی وقت ہے ،جلا وطنی کے خاتمے کا فیصلہ واپس لو اور پاکستان کو خیر باد کہہ دو ۔لیکن بے نظیر نے اس پیغام پر توجہ نہیں دی اور چند دن دبئی میں گزارنے کے بعد واپس آ گئی اور اب ان قوتوں نے بے نظیرکو سائیڈ کرنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے راستہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور پھر27 دسمبر2007 کو وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔یہ ایک خاتون کا قتل نہیں، ان قوتوں کے کارندوں کی قابلیت کا امتحان تھا کہ وہ پاکستان کے طول وعرض کو کتنی دیر میں اور کتنے وقت کے لیے مفلوج کر سکتے ہیں ۔بے نظیر کے قتل کے 60 منٹ کے اندر اندر پورے ملک میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہو گیا تھا ،خصوصا ًدفاعی نقطہ نظر سے ،اہم ریلوے لائنیں اور سڑکیں ان” سوگواروں“ کا خصوصی نشانہ تھیں۔
بے نظیر کی شہادت کے چندماہ بعد پی پی برسراقتدار آ گئی ،وزارت عظمی کا تاج بے نظیر کے نامزد امین فہیم کے بجائے مخدوم یوسف رضا گیلانی کے سر کی زینت بنا اور پھر جب یوسف رضا گیلانی نااہل ہوئے تو پھر راجہ پرویز اشرف کی لاٹری کھل گئی۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پی پی اور آصف زرداری تقریباً6 سال تک اقتدار میں رہے لیکن کسی غریب الوطن کی طرح بے نظیر کے قاتل بھی ہاتھ نہ آسکے ،وہ نامعلوم تھے ،نامعلوم رہے اور کب تک نامعلوم رہیں گے ۔۔۔یہ کسی کو بھی معلوم نہیں !!