امریکی تحلیل کا آغاز کیلیفورنیا سے ہوگا؟
شیئر کریں
محمد انیس الرحمن
انقرہ میں روسی سفیر کے قتل اور اب بحیرہ اسود کی فضا و¿ں میں روسی طیارے کی تباہی نے منظر نامہ بدلنا شروع کردیا ہے ‘عرب صحافتی ذرائع کے مطابق ماسکو میں شام کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے ہم ابتدا میں ہی اس جانب اشارہ کرتے آئے ہیں کہ شام کے مسئلے کو جان بوجھ کر طول دیا جائے گا تاکہ روس کو اس میں مداخلت کا پورا موقع فراہم کرکے اسے دوسرا افغانستان ثابت کیا جاسکے۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقا میں لگنے والی آگ کی ابتدا ”عرب بہار“کے انقلابات سے شروع ہوئی تھی اس وقت بھی ہم نے متعدد کالموں میں لکھا کہ یہ عرب بہار درحقیقت عرب خزاں ہے جو آگے چل کر خطے کے بڑے بڑے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ شمالی افریقا میں عرب بہار کے نام پر سب سے زیادہ تباہی لیبیا میں لائی گئی جس میں امریکا اور یورپ نے براہ راست قذافی حکومت کے خلاف ملوث ہوکر اس کی حکومت کا نہ صرف تختہ الٹا بلکہ اس کی تیل کی تنصیبات پر تاحال انہیں عناصر کا کنٹرول ہے جو امریکا اور یورپ کے زیر اثر ہیں، اگر نیٹو یا امریکا، برطانیا اور فرانس لیبیا کی جنگ میں براہ راست شامل ہوسکتے تھے تو انہوں نے ایسا شام میں کیوں نہیں کیا؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھا۔عراق میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلاءکے بعد جان بوجھ کر اقتدار ان عناصر کے حوالے کیا گیا جو براہ راست ایران کے زیر اثر تھے تاکہ اس خطے کو مسلکی بنیادوں پر جنگ کا ایندھن بنا دیا جائے۔دوسرے ایران اور عرب ملکوں کے درمیان مزید نفرت کی دیواریں کھڑی کی جاسکیں۔اس کام کی خاطر جان بوجھ کر شمالی عراق اور شام میں داعش کو قوت جمع کرنے کی مہلت دی گئی ۔ جس سے ایک طرف بغداد انتظامیہ کو مرعوب رکھنا ضروری تھا تو دوسری جانب شمالی عراق اور شمالی شام کی جانب سے روس پر دباﺅ کی کیفیت برقرار رکھنا تھا تاکہ روس اپنے جنوبی علاقوں میں انتہا پسندی کے خطرے کو ٹالنے کے لیے عسکری کارروائی پر مجبور ہوسکے ۔دوسری جانب سیرین عرب آرمی کو جدید اسلحہ مہیا کرکے بشار کے خلاف جنگی کامیابیاںحاصل کی گئیں تاکہ ماسکو اس صورتحال سے مبتلائے تشویش ہوکر بشار کی پشت پر آن کھڑا ہو اور آگے چل کر ایسا ہی ہوا۔
ایسا کیوں کیا گیا؟ اصل ہدف کیا ہے؟ کیا یہ سارا کھیل روس کو پھانسنے کے لیے کھیلا گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو اس وقت تمام مشرقِ وسطیٰ جنگ کی آگ میں جل رہا ہے ،جزیرة العرب کے شمال یعنی عراق اور شام سے لیکر جنوب کی جانب یمن تک ایک جیسی کیفیت ہے۔ اس سارے معاملے میں عربوں کے بعد سب سے زیادہ تشویش اسرائیل کو ہونی چاہیے تھی کیوںکہ وہ چاروں طرف سے عرب ملکوں کے درمیان گھرا ہوا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اسرائیل ”مکمل پرسکون“ ہے۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو اسرائیل کے لیے تشویش کا سبب نہیں؟ اس حوالے سے پاکستان سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ یہ سارا کھیل ہی اسرائیل کی عالمی حاکمیت کے لیے کھیلا جارہا ہے جس میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمان بن رہے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ اسرائیل کی عالمی حاکمیت کا اعلان کیا جائے ، امریکا کو عالمی حاکمیت کے اسٹیٹس سے دستبردار ہونا پڑے گاجس کے آثار ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد واضح ہوچکے ہیں۔
اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیںامریکا کے موجودہ صدارتی انتخابات نے جہاں امریکی عوام کو تقسیم کیا ہے ،وہیں پر امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی تقسیم ہوچکی ہے۔اب دوبارہ الیکٹرول ووٹوں کے ٹرمپ کے حق میں پڑ جانے کے بعد واضح ہوچکا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا جس کے ساتھ ہی یہ اطلاع آئی کہ ماسکو میں کیلیفورنیا کی آزادی کا دفتر ”سفارتخانے“ کے نام پر کھول دیا گیا ہے ۔یہ شاید گزشتہ اور موجودہ صدی کی عجیب ترین خبر تھی کیونکہ اس سے پہلے دنیا بھر میں فساد برپا کرنے اور ملکوں کو توڑنے کے لیے امریکا اور برطانیا ایشیا اور افریقا کے ملکوں کے علیحدگی پسندوں کو ”سیاسی پناہ“ دیا کرتے تھے ۔آج صورتحال یہ ہے کہ لاس اینجلس ٹائمز کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویٹ سائٹ NEWSMAX نے21دسمبر کو خبر دی ہے کہ The Calexit movement has opened its own "embassy” in Moscow in what organizers say is the next step in the effort to have California secede from the United States. یعنی کیلیفورنیا کی امریکا سے آزادی کی تحریک کلیگزٹ نے ماسکو میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا ہے۔یہ بالکل اسی طرح کی تحریک ہے جس طرح برطانیا نے اپنے آپ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے لیے بریگزٹBrexit کے نام سے تحریک شروع کی اور کامیاب رہا۔اسی بریگزٹ کی طرح امریکی یونین سے علیحدگی کے لیے کیلیفورنیا نے کلیگزٹ کے نام سے تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ یاد رہے کہ کیلیفورنیا امریکا کی امیر ترین ریاست تصور کی جاتی ہے اسی بنیاد پر اسے ”سنہری ریاست “کہا جاتا ہے جس پر امریکی معیشت کا ستر فیصد انحصار ہے اگر یہ امریکا سے الگ ہوجائے تو باقی امریکا میں کیا بچے گا۔۔۔!! درحقیقت یہ امریکا کی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہے جس کی ابتدا ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حلف برداری سے پہلے کردی گئی ہے ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ ابھی لوگوں کو برطانوی بریگزٹ کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی ہے کہ اس سے آنے والے دنوں میں دنیا کے سردگرم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ان تمام عوامل کا عمقِ نظری سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے بطن سے ایک ہی حقیقت پھوٹے گی اور وہ ہے اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کا قیام۔۔!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں روس کو شام کی صورتحال میں پھانسے کا کیا مقصد ہے؟ تو اس کا جواب سادا سا ہے کہ اسرائیل کی عالمی حاکمیت سے پہلے اس کی علاقائی حاکمیت کا قیام ضروری ہے جس کی خاطر تمام مشرق وسطی میں آگ لگائی گئی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پہلی عالمی جنگ کے بطن سے 1917ءمیں نیویارک میں ”بالفور ڈیکلریشن“ نے جنم لیا تھا جس کے تحت مقبوضہ فلسطین میںصہیونی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی تھی، اس کے بعد دوسری عالمی جنگ 1939-1945کے بطن سے اسرائیل کے قیام کی کوشش کو عملی جامہ پہنایا گیا تھا جسے عالمی پلیٹ فارم سے منظور کرانے کے لیے 1945ءمیں اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ قائم کیا گیا تھا ۔ اب تیسرے مرحلے کا وقت قریب آن لگا ہے اور وہ ہے اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کا قیام جس کے لیے پہلے سے موجود عالمی قوتوں کا سرنڈر ضروری ہے۔ امریکا چونکہ نہ تو کوئی مستقل ملک ہے اور نہ امریکی کوئی مستقل قوم بلکہ یہ بہت سی قوموں کا مجموعہ ہے جس پر ایک عالمی صہیونی اشرافیہ نے حاکمیت قائم کرکے دنیا کے معاشی اور عسکری معاملات اپنے ہاتھوں میں لے رکھے ہیں، اسی لیے اسے ایک خاص مقصد کے تحت ایک ملک اور قوم کی شکل دی گئی تھی مگر یہ سب کچھ مصنوعی تھاجسے ایک خاص وقت پر تحلیل ہوجانا تھااور جس کی اب ابتدا ہوچکی ہے۔ سوویت یونین بھی ”یونین“ کی شکل میں ایک مصنوعی اتحاد تھاجسے افغانستان میں لاکر تحلیل کیا گیا ،اب روس جغرافیائی طور پراپنی حقیقی تاریخی قومی سرحدوں کے اندر ہے لیکن امریکا کی اپنی ”قومی سرحدیں“ بھی نہیں ہیںکیونکہ یہاں کی حکمران اشرافیہ کا نسب دیکھ لیا جائے تو کسی کا دادا جرمنی سے، کسی کا پولینڈ سے کسی کا آئرلینڈ سے کسی کا برطانیا سے تو کسی کا اسپین یا اٹلی یا فرانس سے آیا تھا۔ اس لیے امریکا کی تحلیل کے آثار اسی وقت واضح ہونا شروع ہوگئے تھے جب موجودہ صدارتی انتخابات کے دوران دونوں پارٹیوں کی حمایتی ریاستوں نے کسی بھی امیدوار کی کامیابی پر ردعمل کے طور پر خود کو امریکا سے الگ کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کردی تھیں،انہی میں سے سب سے اہم کیلی فورنیا کی ریاست تھی جہاں سے یہ بات سننے کو ملی کہ ٹرمپ کی کامیابی کی شکل میں ریاست خود کو امریکا سے الگ کرنے کی تحریک شروع کرسکتی ہے اور فی الواقع اب ایسا ہوچکا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا دفتر یا سفارتخانہ یورپ میں نہیں بلکہ ماسکو میں کھولا گیا ہے۔ اس لیے مشرق وسطی میں ایران کو خطے کی بڑی قوت بننے کے خواب میں مبتلا کرکے اس سے ”صفائی“ کا کام لیا جارہا ہے، اس تمام صورتحال کے نتیجے میں جس وقت اسرائیل داعش یا القاعدہ یا اس جیسی دیگر انتہا پسند اسلامی تحریکوں کا ہوا کھڑا کرکے اپنی سلامتی کے خلاف لاحق خطرات کا پراپیگنڈا کرے گا اور اس کے سدباب کے لیے خطے کے دیگر ممالک کی جانب پیش قدمی کرے گا تو یقینی سی بات ہے کہ خطے میں واقع تیل کی دولت، تزویراتی تجارتی راستے اور بحری گذر گاہیں اس کے تصرف میں آجائیں گی جس کا سب سے برا اثر چین اور روس کی معیشت پر پڑے گا جس کا سب سے بڑا ردعمل بھی روس اور چین کی جانب سے آئے گا۔اس وقت چین زبردست معاشی پیش قدمی کررہا ہے جبکہ دوسری جانب روس معاشی کے ساتھ ساتھ عسکری پیش قدمی کی حالت میں ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا، برطانیا اور اسرائیل کی سرتوڑ کوشش ہے کہ روس اور ترکی کے تعلقات میں رخنہ ڈال دیا جائے اس سلسلے میں روس کو شام میں ملوث کرنے کے لیے حالات پیدا کیے گئے، اس کے بعد ترکی میں مغرب نواز انقلاب لانے کی کوشش کی گئی اور اب انقرہ میں روسی سفیر کے قتل نے بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح روس نے انقرہ میں اپنے سفیر کے قتل کے بعد بھی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسکو میں شام سے متعلق کانفرنس کا انعقاد منسوخ نہیں کیا اسی طرح وہ جلد از جلد شام میں بشار حکومت کی پشت پناہی ختم کرکے شامی عوام کی خواہشات کے مطابق دمشق میں حکومت کے قیام کی کوشش کرے اور اپنی جان چھڑائے کیونکہ بشار کا وجود اب کسی بھی فریق کے لیے ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کو شام کی بجائے یوکرین اور بحیرہ اسود میں روسی بالادستی سے زیادہ خطرات لاحق ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی خواہش رہی ہے کہ روس زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے شام میں پھنسا رہے تاکہ اس کی عسکری قوت کے ساتھ ساتھ اس کی معیشت کو بھی افغان جنگ کی طرح ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکے کیونکہ شام میں حقیقی گوریلا جنگ اب طویل ہوجانے کے زیادہ امکانات ہوچکے ہیں۔دوسری جانب ایشیا میں پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ تجارتی اور تزویراتی تعلقات کو فروغ دے بلکہ عربوں اور ایران کے درمیان پیدا ہوجانے والی اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی بھی کوشش کرے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کچھ بھی ہوجائے امریکا، اسرائیل اور مغربی یورپ کسی طور بھی نہ تو عربوں کی اور نہ ہی ایران کی خطے میں بالادستی قائم ہونے دیں گے اگر یہ بات عربوں اور ایران کو سمجھ آجائے تو اس خطے میں لگی ہوئی اسی فیصد آگ خود بخود بجھ جائے گی۔
ان تمام عوامل کے ساتھ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو آنے والے وقت کی مناسبت سے جلد ہی ملک کے داخلی ،سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب خاص توجہ دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں لوٹ مار کرنے والے نوسرباز جو عوام کے سامنے سیاستدانوں کے روپ میں ہیں ان کا کڑا احتساب نہ صرف ضروری ہوچکا ہے بلکہ ان کی لوٹی ہوئی دولت جو مغرب میں پڑی ہے اس کی وطن واپسی کی بھی جلد کوششیں کرنا ہوں گی ۔یہ بات طے ہے کہ یہ نوسرباز نما سیاستدان اس دولت سے استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گے لیکن مشرق وسطیٰ اور مغرب میں کسی بھی بڑی تبدیلی سے پہلے اس قومی دولت کا ملک میں واپس آنا ازحد ضروری ہے۔
٭٭