میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اپنی فکرکرنادان

اپنی فکرکرنادان

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۶ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
جب آدمی کی مت ماری جاتی ہے تووہ عجیب سے فریب میں مبتلاہوجاتاہے،اونگیاں بونگیاں مارنے لگتاہے،عجیب سے خبط میں پڑ جاتا ہے۔ وہ منظرکے قریب نہیں جاتا،اسے تخیل کے کیمرے سے زوم لگاکرقریب لاتاہے اورپھرپندونصائح شروع کردیتاہے۔اس کے بالکل سامنے جوکچھ ہورہاہواسے نہیں دیکھتااورجودورکہیں ہو رہاہواس سے پنجہ آزمائی شروع کردیتاہے۔اپنے اندرکی دھڑکتی کوٹھی کونہیں ٹٹولتا ، دوسروں کے عیب گنوانے لگتا ہے۔ پتاہونہ ہو،معلوم ہونہ ہو…..بس ہرجگہ،ہرمجلس میں اپنی پٹاری کھول کرنیا سنپولیا نچانے لگتاہے اوراسے کہتا ہے تبلیغ…..اورپھراس سے آگے بڑھ کرخدمت ِانسانیت۔بھائی نے ایک دن یہ کہہ دیا کہ باتیں اتنی کرتاہے لیکن وہ نمازکیوں نہیں پڑھتا ؟ توباباجی نے بہت غصے میں اس کابازوتھام کرکہا:تجھے کب سے اورکیوں اس کی نمازکی فکرہوگئی؟کیا تیری نمازٹھیک ہوگئی ہے تیری عاقبت سنورگئی ہے جودوسروں کی سوچنے لگاہے، دوسرے کاتو شاید تجھ سے پوچھاجائے نہ پوچھاجائے،تجھ سے تیراتوپوچھا جائے گا، تو کیا تو اپنا بیڑاپارلگاچکا؟تیری نیاکنارے لگ گئی؟محبت کادریارواں تھاان میں۔
ایک جیدعالم دین……صرف عالمِ دین ربانی ہی نہیں،باعمل پابند ِشریعت،ہنس مکھ……..االلہ جی نے مال ودولت سے بھی نوازا تھا۔ خود مسجد بنائی اورجمعہ کا خطبہ دینے بڑی سی لشکارے مارتی گاڑی میں آتے اورہماری چوکڑی کومنتظرپاتے۔ کبھی خالی ہاتھ نہیں آئے۔ ایک تھیلے میں کھانے پینے کانجانے کیاکچھ سامان لے کرآتے،السلام علیکم!کیسے ہوتم لوگ واہ واہ آج توسب چمک رہے ہو،کہتے ہوئے تھیلا میرے ہاتھ میں تھماتے اورخودمنبررسول ۖپررونق افروزہوجاتے۔ بوڑھے تھے لیکن عجیب طاقت تھی ان میں۔کچھ دیر منبر ِرسول پربیٹھ کر آنکھیں بند کرلیتے اورپھراپناعصالے کرکھڑے ہوجاتے اورپھرتوایسی قرأت کہ اللہ ہی اللہ ،آنکھوں کاغسل شروع ہوتااورپھر آواز آتی! برادرانِ اسلام میری ماؤں بہنوں اوربیٹیوں۔اور پھرچل میرے خامے بسم اللہ،سبحان اللہ،الحمدللہ۔ کیسے کیسے نادرونایاب ہیرے تقسیم کرتے تھے۔
بہت طویل عرصے تک ہمیں دیالوبابادیتے رہے اورہم اپنی جھولی بھرتے رہے،ظرف کب بھرے گا،نہ جانے کب؟جب دیکھو ایک ہی بات پرزور،اپنی فکرکرنادان ،اپنی فکرکر۔ اسلام خودکوبدلنے کانام ہے۔خودکوتبلیغ کر،خودکوسنو،اپنے قول کودیکھ،اپنے فعل وعمل پرنگاہ رکھ، یہ جواندربیٹھاہوااژدھاہے،نفس نام کا،اسے کچل نہیں سکتاتویہ توکرلے کہ اس کے جبڑے پرپاؤں رکھ کر کھڑارہ،کبھی مت چوکنا، برباد ہو جائے گا،تباہ ہوجائے گا،کچھ نہیں بچے گاتیرا۔اپنی فکرکرے گاتوسنورے گا۔لوگوں کو کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ تیری روشنی اور خوشبوخودبخود پھیلے گی……..اورایسی پھیلے گی کہ تودنگ رہ جائے گا۔ کاٹنانہیں جوڑنا سیکھ،دوسروں کے عمل پرنہیں اپنی بے عملی پر آنسو بہا، دوسرے کی چنتاچھوڑخود پر دھیان رکھ،بس خودکو بدل،دوسرے تجھے دیکھ کربدل جائیں گے۔بہت یادآتی ہیں ان کی باتیں۔وہ توچلے گئے لیکن خوشبوبسی ہوئی ہے میرے چاروں طرف ان کی۔
آج بابافریدجی بھی یادآگئے۔ایک مرید قینچی لے کرحاضرِ خدمت ہوااورکہنے لگاسرکارتحفہ لایاہوں قبول کیجیے اونہال کیجیے۔ دیکھ کر رنجیدہ ہوئے اورکہا اتنی وزنی قینچی اٹھالایا،کیامیں تجھے کاٹنے والالگتاہوں…….مجھے سوئی دھاگہ لاکردیتاکہ میں جوڑنے کاکام کرتاہوں۔ ہمارے سارے بابوں نے ایک ہی بات کرکے دکھائی،کبھی کسی کی توہین نہیں کی۔سدا مسکراتے رہے۔ کاٹنے سے منع کیا،جوڑناسکھایا۔اپنی کٹیا میں درہی نہیں بنایا کہ کبھی بندملے۔سب کیلئے کشادہ دل رہے، تنگ دلی سے منع فرمایا۔سب کے ساتھ کھایا،گایااور ناچے ۔ محبت تھے، محبت دی،نفرت کوبھی محبت کاچولاپہنایااورمحبت بنادیا۔یارِجانی کہتے تھے،یارِجانی سمجھابھی۔جوکہہ دیانبھاکردکھایا،کرکے بتایا۔
کس منہ سے نام لوں،میرے آقاومولا،روشن جبیںۖنے اس بچے کوپیارسے فرمایا گڑمت کھایاکرو۔توبچے کی ماں کہنے لگیں:یہ بات توآپۖکل بھی فرماسکتے تھے؟تب سرکارِدوعالمۖنے تبسم فرمایااورپھرموتی بکھیرے کل توخودکھایاہواتھا،کیسے منع کرتا ۔ سرکارۖکے بعدکس کی بات کروں۔چاروں طرف ہم سب کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں، توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔وہ ایساہے فلاں ویسا ہے۔میں خودکودیکھ ہی نہیں رہاکہ میں کیساہوں……..میراکیابنے گا!میں کس دھوکے میں پھنس گیاہوں مجھے اپنادھیان ہی نہیں ،بس دوسروں کی عیب جوئی کرتارہتاہوں اورپھراسے تبلیغ بھی کہتاہوں۔بندہ مکروفریب،اپنے اندرکی دھڑکتی کوٹھی کوکب دیکھوں گا میں…….وقت توکسی کالحاظ نہیں رکھتا،وہ توکبھی نہ کبھی اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے تمام واقعات کی ایسی شہادت فراہم کردیتاہے جس سے فرارممکن نہیں!ایسی ہی گواہی دینے کیلئے کچھ کہنے کی اجازت چاہتاہوں:
مردکے کپڑوں میں عورت کی صفائی دکھائی دیتی ہے،عورت کے لباس میں مردکی مردانگی ظاہرہوتی ہے اورلڑکیوں کے لباس میں ماں کے اخلاق نظرآتے ہیں۔ہم محبت، رواداری ، وفاداری،احترام اورتمام اعلیٰ اقدارپرپلی ہوئی نسل ہیں،ہم ان مردوں اور عورتوں کے درمیان رہتے تھے جوپڑھنالکھنانہیں جانتے تھے،لیکن انہوں نے تعلقات اوراحترام میں مہارت حاصل کی تھی۔انہوںنے ادب نہیں پڑھا لیکن ہمیں ادب سکھایا،انہوں نے فطرت کے قوانین اورحیاتیات کامطالعہ نہیں کیا،لیکن انہوں نے ہمیں شائستگی کافن سکھایا۔ انہوں نے رشتوں کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی لیکن اچھاسلوک اوراحترام سکھایا،انہوں نے مذہب کاگہرائی سے مطالعہ نہیں کیالیکن ہمیں ایمان کا مفہوم سکھایا۔وہ منصوبہ بندی کے معنی سے واقف نہیں تھے،لیکن انہوں نے ہمیں دوراندیشی سکھائی۔ہم میں سے اکثرکوگھرمیں اونچی آواز میں بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ہم وہ نسل ہیں جوگھرکے صحن میں بجلی بند ہونے پرسوجاتے تھے،ہم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھے مگرایک دوسرے کے بارے میں باتیں نہیں کرتے تھے۔
میری دلی محبت اورتعریف ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ہمیں حسن ادب کے یہ قرینے اپنے عمل سے سکھائے،کہ والدین کی عزت ہوتی ہے،استادکی عزت ہوتی ہے،محلے دارکی عزت ہوتی ہے،رفاقت کی عزت ہوتی ہے اوردوستی کی عزت ہوتی ہے۔ہم ساتویںپڑوسی کی عزت کرتے تھے اوربھائی اوردوست کے ساتھ اخراجات اوررازبانٹتے تھے۔ان لوگوں کیلئے جنہوں نے وہ خوبصورت لمحات گزارے، اور اس نسل کیلئے جس نے ہمیں پرورش اورتعلیم دی،اورمیں ان سے کہتاہوں:کہ آپ میں سے جوزندہ ہیں،اللہ رب العزت ان کی حفاظت اور صحت عطافرمائے اورجوہمیں چھوڑکراس فانی دنیاسے رخصت ہوگئے،ان کی بخشش فرمائے،اورہمیں یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ جونعمتیں اور سلیقے ہم نے اپنے والدین اور بزرگوں سے سیکھے،ان کواپنے بچوں میں منتقل کریں۔۔آمین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں