سفر یاد۔۔۔قسط18
شیئر کریں
شاہد اے خان
جلال صاحب سے بات چیت کرکے دل کافی ہلکا ہو چکا تھا، ہم اپنے دفتر میں جا کر کام کاج میں لگ گئے، لیکن سچی بات ہے کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ ہماری نیم دلی کو ہمارے دفتر کے انچارج سیمی نے بھی محسوس کر لیا۔ سیمی نے پوچھا کیا مسئلہ ہے، کیوں اداس دکھائی دے رہے ہو؟ ہم نے رونی صورت کے ساتھ اپنی اداسی اور بے کلی کی کہانی بیان کردی۔ سیمی نے ہماری بات اطمینان سے سنی اور پھر ہنسنے لگا۔ سیمی کی ہنسی نے ہمارا موڈ اور خراب کردیا، ہم نے پوچھا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔ سیمی نے کہا اس میں رونے والی کیا بات ہے۔ کیا تم پہلے آدمی ہو جو گھر سے دور کسی دوسرے ملک میں نوکری کرنے آیا ہے۔ کیا تم واحد آدمی ہو جس کو گھر کی اور اپنے پیاروں کی یاد آتی ہے۔ کیا تم اکیلے ایسے آدمی ہو جو یہاں رہائش کے حوالے سے مشکل صورتحال کا شکار ہے۔ مسٹر خان تم اس سسٹم کا شکار ہونے والے نہ پہلے شخص ہو ، نا ہی آخری۔ اس لیے جو ہے اس میں خوش رہو اور برے کو اچھا کرنے کی کوشش کرو۔ سیمی اوساریو کا تعلق فلپائن سے تھا، انجینئر تھا اور اس کی طبیعت میں خوشی بسی ہوئی تھی، کسی بات کو سر پر سوار نہیں کرتا تھا، کسی مشکل سے نہیں گھبراتا تھا ، سیمی کے لیے زندگی زندہ دلی سے جینے کا نام تھی۔ اس لیے ہمارے بگڑے موڈ اور شکوے شکایتوں کا اس نے کوئی اثر نہیں لیا تھا بلکہ ہنسنا شروع کردیا تھا۔ سیمی نے جب دیکھا کہ ہم واقعی اداس ہیں تو ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا، سیمی نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک تصویر نکال کر ہماری طرف بڑھا دی، پھر بولا دیکھو یہ میری بیوی اور دونوں بچوں کی تصویر ہے۔ دیکھو کتنے پیارے بچے ہیں۔ تصویر میں ایک خاتون دوپیارے سے بچوں کے ساتھ پارک کی بینچ کر بیٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں چھوٹے تھے اور اپنی ماں کے دامن سے لگے بیٹھے تھے۔ سیمی نے کہا میرا بیٹا چھ سال کا اور بیٹی چار سال کی ہے۔ تم نہیں جانتے مجھے ان سے کتنی محبت ہے ،میری فیملی ہی میری زندگی ہے، اب سنو میں نے دو سال سے اپنے بچوں کی صورت نہیں دیکھی، میں آخری بار دو سال پہلے چھٹی پر اپنے گھر فلپائن گیا تھا، میری بیٹی سونیا اس وقت دو سال کی تھی، بیٹا جارج چار سال کا تھا، میں صرف ایک ماہ ان کے ساتھ رہ سکا کیونکہ کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی دی تھی۔ واپسی کے وقت جارج میری ٹانگوں سے لپٹ گیا، وہ رو رہا تھا اور میرے ساتھ آنے کی ضد کر رہ تھا، لیکن میرے پیروں کی زنجیر تو سونیا بنی ہوئی تھی ، وہ میری گود سے اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی حالانکہ اس کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ میں جدا ہو رہا ہوں او ر نوکری اور اس کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے ملک سے دور جا رہا ہوں لیکن وہ میری گود سے اترنے کے لیے تیار نہیں ہورہی تھی۔ میری بیوی کی آنکھوں میں جدائی کا دکھ آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ لیکن یہاں واپس آنا مجبوری تھی میرے دوست !نوکری کیلیے بچوں کیلیے واپس آنا پڑا۔
ہم اپنا غم بھول کر سیمی کے غم میں شریک ہوچکے تھے ، ہم نے تسلی دینے کے لیے سیمی سے کہا اب تو دوسال پورے ہوگئے ہیں ،آپ چھٹی پر چلے جائیں، اپنے پیاروں سے مل آئیں انہیں سامنے دیکھ کر نظروں کی ٹھنڈک بنا لیں۔ زیادہ نہیں تو ایک ماہ کے لیے آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوں گے اور آپ سے مل کر وہ سب کتنا خوش ہوں گے۔ ہماری بات سن کر سیمی کو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی آنکھوں میں اداسی تیر گئی۔ سیمی نے کہا مسٹر خان !کمپنی نے پالیسی تبدیل کر دی ہے اب چھٹی دو سال بعد نہیں تین سال بعد ملے گی۔ میں ابھی چھٹی پر نہیں جا سکتا، مجھے مزید ایک سال یہاں گزارنا ہے۔ پھر کمپنی چھٹی اور ٹکٹ دے گی۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی ،ایسے کیسے تین سال بعد چھٹی ملے گی ،کنٹریکٹ میں تو دو سا ل بعد چھٹی کا لکھا ہے۔ سیمی نے ایک گہری آہ بھری، پھر کہا پہلے ایک سال بعد ایک مہینے کی چھٹی ملا کرتی تھی، پھر کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ بنا لیا اور اب اس سال سے پیسے بچانے کے لیے تین سال کا کنٹریکٹ اور تین سال بعد ہی ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔ تم کو بھی تین سال بعد ایک ماہ کی چھٹی ملے گی، اس لیے دل مضبوط کرلو ،یہ کڑوا گھونٹ تو اب پینا ہی پڑے گا، ہم نے کہا یہ تو کمپنی نے ٹکٹ کے پیسے اور دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹیوں کے دوران تنخواہ کے پیسے بچا لیے؟ سیمی بولا، تین سال بعد بھی یہ اپنی جیب سے ایک ماہ کی تنخواہ نہیں دیں گے، یہاں اسلامی کیلنڈر رائج ہے ،کمپنی کو ادائیگی اسلامی مہینے کے حساب سے کی جاتی ہے، جبکہ کمپنیاں ہم لوگوں کوجنوری ، فروری یعنی انگریزی مہینے کے حساب سے تنخواہ دیتے ہیں، اسلامی سال اور عیسوی سال میں دس دن کا فرق ہے،اسلامی سال عیسوی سال سے دس دن کم کا ہوتا ہے اس طرح تین سال میں پورے تیس دن بنتے ہیں، یہی تیس دن کے پیسے اور چھٹیاں یہ ہمیں دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو زیادتی ہے، سیمی مسکرادیا ،اس نے ہلکے سے کہا: یہ سعودی عرب ہے ۔۔۔ جا ری ہے