میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جنرل راحیل شریف کا ورثہ....آخری قسط

جنرل راحیل شریف کا ورثہ....آخری قسط

منتظم
هفته, ۲۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ظفر محمود شیخ
افواج پاکستان نے ایک جانب ملک کی جغرافیائی سرحدوںپر منڈلاتے خطرات کا مقابلہ بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے جن میں شمال مغربی سرحد پر طالبان جنگجوﺅں کے علاوہ خود افغان فورسز کی جارحیت کا سدباب کیا گیا تو دوسری جانب سرحد پار سے ملک کے اندر ہونے والی دہشتگردی کے لیے سرمایہ کاری کے نیٹ ورک توڑے گئے۔ یہ بھارت کی پراکسی جنگ تھی جس کے لیے اسے خود پاکستان کے اندر سے سیاسی قوتیں استعمال کے لیے میسر آئیں تو فوج نے بالآخر پاکستان کی ان سیاسی قوتوں سے بھی از خود ٹکر لی جن کے روابط ثابت شدہ تھے۔ سندھ کے شہری علاقو ںکے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں فوج نے صفائی کاکام شروع کیا ہے اور اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ سندھ کے کروڑوں عوام نے سکھ کاسانس لیا ہے ،بقیہ کام سیاسی حکومتوں کا تھا جو تاحال ندارد ہے کیونکہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقے میں خود سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ غیر موثر کئے گئے۔ اور یہ جماعتیں مزاحمت میں ناکامی کے بعد اب تبدیل شدہ حالا ت میں نئی حکمت عملیاں بنا رہی ہیں۔
جنرل راحیل شریف کا ایک اور کارنامہ پاکستانی میڈیا کی اسلام و پاکستان دشمنی کا خاموشی سے مقابلہ ہے کہ ایسے افراد اور اداروں کو بتدریج ایک مربوط پالیسی کے ذریعہ یوں غیر موثر کیا گیاکہ بہت سے افراد تائب ہوگئے یا دیوار سے سر پھوڑ کر بے بس ہوگئے۔خوبصورتی یہ ہے کہ اس مہم میں نہ تو کوئی صحافی گرفتار ہوا نہ غائب کیا گیا ۔بلکہ کچھ لوگ خود ہی ڈر کر اور خوفزدہ ہوکر ملک سے فرار ہوئے۔ سب سے اہم معاملہ ڈان لیکس کا تھا جس میں نواز شریف کی حکومت ہی نہیں ان کا خاندان خود براہ راست ملوث تھا مگر کمال یہ ہے کہ فوج نے اسے فوج اور حکومت کا مسئلہ بنائے بغیر قوم کے سامنے رکھ دیا ۔
گو مجھ سمیت بہت سے افراد کی یہ رائے تھی کہ مجرموں کی کھال میں بھس بھر کر انہیں نشان عبرت بنایا جائے مگر کیا کہنے راحیل شریف کے ،کہ وہ یہ کام اگلے آنے والے کے لیے چھوڑ کر جارہے ہیں ۔گو انہوں نے کم از کم یہ ضرور کیا کہ مجرم بے نقاب ضرور کر دیے مگر چونکہ فوج خود ایک ماتحت ادارہ ہے لہٰذا کوئی ایکشن تاحال نہیں لیا گیا۔ جنرل راحیل کی 3سالہ میڈیا حکمت عملی میں کوئی غیر معمولی پبلک ریلیشننگ کی کارگزاریاں نظر نہیں آئیں ،ہاں یہ ضرور رہا کہ انہوں نے اپنی کامیابیوں کو نہایت ستھرے انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جو ان کے موقف کی عوام میں پذیرائی کا سبب بن گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ کے تمام حالیہ تجزیوں کے مطابق راحیل شریف اس وقت ملک کی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں تاہم نامعلوم وجوہات کی بناءپر یہ تجزیے عوام کے سامنے نہیں لائے گئے شاید ایک وجہ یہ ہو کہ خود نواز شریف اس سے خطرہ محسوس کرتے ہوں ۔
اس بات پر نہایت عمیق گہرائی سے سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جنرل راحیل کے پیروں میں ملازمت کی پڑی ہوئی بیڑیاں 29نومبر کو ان کی وردی کے ساتھ ہی اتر جائیں گی پھر اگر وہ کوئی فعال کام کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکے گا؟ یا کم از کم اگر وہ تمام حقائق سے پردے اٹھانے لگیں تو کیا چیز مانع ہوگی ؟اگر انہوں نے ڈان لیکس والے معاملے میں نومبر کے بعد یہ بتادیا کہ مریم نواز کی فون کالز کے ریکارڈ فوج کے پاس موجود ہیں تو وزیر اعظم صاحب اس کا جواب کس طرح دے پائیں گے ؟کیا وہ جنرل راحیل کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ کریں گے؟
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ایک جانب جہاں فوج میں اپنے سربراہ کے لیے بے انتہا پسندیدگی پائی جاتی ہے ،وہاں فوج کے اندر نواز شریف اور ان کے خاندان سے نفرت اپنی انتہاﺅں پر ہے اور جنرل راحیل شاید ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ضرور شیئر کریں گے کہ ان پر ڈان لیکس کے حوالے سے فوج کے اندر سے کس قدر دباﺅ تھا جس کا انہوں نے بمشکل مقابلہ کیا۔ یہی تو راحیل شریف کی لیگسی یا ورثہ ہے ۔ابھی کل کی ہی بات ہے جب یہ بہادر جرنیل آئیڈیاز کے پلیٹ فارم پر کھڑا یہ کہہ رہا تھا کہ بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا تو مودی کے چمچے وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں اس کی تردید کرانی پڑی کہ© نہیں ہم منہ توڑ جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگر راحیل شریف کا ورثہ یہ نہیں تو کس کا ہے ؟نواز شریف جلد ہی اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹنے والے ہیں اور آنے والے فوجی سربراہ کے لیے بہت سا کام آسان ہو چکا ہے بس انہیں طے شدہ راستے پر اپنا کام مکمل کرنے کی ضرورت ہوگی چاہیے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ختم شد


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں