میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان : اسپتال پر بمباری تحقیقات۔۔اقوام متحدہ کارروائی کرے گا؟َ

افغانستان : اسپتال پر بمباری تحقیقات۔۔اقوام متحدہ کارروائی کرے گا؟َ

منتظم
هفته, ۲۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

صوفیہ مینگل
افغانستانمیں اقوم امتحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ تادا میچی یاماٹو نے افغانستان کے صوبے قنددز کے ہسپتال پر امریکی بمباری سے شہریوںجن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ،کی ہلاکت کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس طرح کی بہیمانہ کارروائی کو اس خطے میں امن واستحکام پیداکرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے مترادف قرار دیاہے۔ہسپتال پر بمباری کے اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد ہی یہ واضح ہوگیاتھا کہ یہ بمباری امریکی فضائیہ نے کی ہے لیکن بعد میں مختلف ذرائع یہاں تک کہ افغانستان میں کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کردی کہ قندوز کے ہسپتال کو امریکی طیاروں نے ہی نشانہ بنایاتھا۔
اقوام متحدہ نے ان اطلاعات کے سامنے آتے ہی فوری ردعمل ظاہرکرتے ہوئے اعلان کیاتھا کہ وہ بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کے اس واقعے کی تحقیقات کرائے گا۔اقوام متحدہ کی تفتیش کے مطابق اس بمباری کے نتیجے میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور 19 شدید زخمی ہوئے تھے۔افغانستان میں اقوم امتحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ تادا میچی یاماماٹو نے اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد اس واقعہ کو المناک قرار دیتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت کو ہر اعتبار سے ناقابل قبول قرار دیاتھا۔انھوں نے کہا تھا کہ اس طرح کی بہیمانہ کارروائی سے افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
اگرچہ امریکی فضائیہ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ یہ بمباری ان کے طیاروں نے ہی کی تھی،بعض سینئر امریکی فوجی کمانڈرز نے اس واقعے کو امریکی فضائیہ کی غلطی اور اندازہ غلط لگائے جانے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس واقعے کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی تھی اورامریکی صدر بارک اوباما نے افغان صدر اشرف غنی سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی بمباری سے شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کرلیا ہے ،لیکن امریکی فضائیہ کو قندوز کے ہسپتال پر بمباری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور یہ بمباری کس کے حکم پر کی گئی؟ اس حوالے سے وضاحت ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا امریکی فضائیہ کی جانب سے بمباری کا جرم قبول کرلینے یا امریکی صدر کی جانب سے اس واقعے پر افسوس اور تعزیت کا اظہار کرلیناہی کافی ہے۔
قندوز کے ہسپتال پر بمباری کے اس واقعے سے کئی اہم حقائق ابھر کر سامنے آئے ہیں ، ان سب میں سب سے زیادہ بھیانک اوراولین یہ ہے کہ ہسپتال پر بمباری اور اس کے بعد امریکی کمانڈروں کی جانب سے اسے امریکی ہوابازوں کی اندازے کی غلطی اور غلط نشانہ لگائے جانے کا نتیجہ ظاہرکرکے خود امریکی کمانڈر یہ تسلیم کررہے ہیں کہ انھوںنے افغانستان کو نشانہ بازی کی مشق کا میدان بنا رکھاہے اور امریکی لڑاکا پائلٹ افغانستان میں بمباری کرکے دراصل دشمن پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے کی مشق کررہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کی اس مشق یا غلط نشانوں کی زد میں آکر کتنے بے قصور اور معصوم انسان ہلاک ہورہے ہیں۔دوم یہ کہ امریکی فوج کے نزدیک عالمی رائے عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، انھوںنے یہ سوچ رکھاہے کہ اس طرح کے انسانی المیے پر وقتی طورپر چیخ پکار کے بعد پوری دنیا اسی طرح خاموش ہوجائے گی جس طرح اس سے قبل ہونے والے اس طرح کے واقعات کے حوالے سے ہوتارہاہے ۔
امریکی فضائیہ کی جانب سے قندوز کے ہسپتال پر بمباری کا یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے بلکہ امریکی فوج کی جانب سے حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزیوں کے بے شمار واقعات ، مثال کے طورپر امریکی فضائیہ اسی سال15 فروری کو شام کے شہر مراة النعمان میں ڈاکٹرز وداﺅٹ بارڈرز کے قائم کردہ ایک ہسپتال پر بمباری کی تھی جہاں بلا کسی تخصیص کے تمام زخمیوں کا علاج معالجہ کیاجارہاتھا،امریکا کی اس بمباری کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور10زخمی ہوئے تھے۔اسی طرح امریکا اور اس کے اتحادی طیاروں نے 18 اورپھر30 جولائی کو شام کے شہر مانب جی کے شہریوں کونشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 30 بچوں سمیت کم از کم 110 افراد ہلاک ہوئے تھے۔28 جولائی کوامریکی اور اتحادی طیاروں نے شام کے شہر حلب کے گاﺅں الغندور کی ایک مارکیٹ کو بمباری کرکے تباہ کر دیا جس کے نتیجے میں7بچوں سمیت کم از کم 28 شہری ہلاک ہوئے تھے۔17 ستمبر کو امریکی فضائیہ نے شام کے علاقے ڈیرالزور میں شہریوں کو نشانہ بنایا،امریکی فضائیہ کے اس حملے میں کوئی دہشت گرد ہلاک نہیں ہوا بلکہ شامی فوج کے کم از کم 60 جوان شہید اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے اور اس واقعے کو بھی فضائیہ کی غلطی قرار دے کر جرم کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی گئی ۔اب تک کی تفتیش کے مطابق اس واقعے کے کسی ذمہ دار کے خلاف نہ صرف یہ کہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اس کی ذمہ داری کاتعین کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی ۔
امریکی فضائیہ کی منہ زوری اور بے تحاشہ بمباری کرکے نشانہ بازی کی مشق کرنے کے ان واقعات اور ان پر امریکی فوج اور انتظامیہ کی مکمل خاموشی سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ امریکا صرف ان واقعات کی ہی تحقیقات پر زور دیتاہے جس میں اسے اپنے مخالفین کونشانہ بنانے کاموقع ملنے کی امید ہوتی ہے۔اس حوالے سے مغربی میڈیا کا کردار بھی انتہائی مشکوک بلکہ قابل اعتراض ہے۔ مغربی میڈیا کے طرز عمل کا حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں معروف برطانوی صحافی گلین گرین والڈ نے بالکل درست لکھاہے کہ سی این این اور نیویارک ٹائمز اپنے آقاﺅں کے مفادات کاتحفظ کرتے ہیں اور بسا اوقات رائے عامہ پر اثر اندازہونے کی کوشش کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ قابل اعتراض سیاسی فیصلوں اور پراجیکٹس کے بارے میں پروپیگنڈا کرکے رائے عامہ تبدیل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ گلین لکھتے ہیں مغربی میڈیا کا بڑا حصہ کرپٹ ہے جو حقائق کو چھپانے کیلئے اپنے آقاﺅں کا ساتھ دیتاہے۔
قندوز کے ہسپتال پر بمباری کے واقعے کے حوالے سے بھی یہی فارمولہ آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے قبل وائٹ ہاﺅس کے پریس سیکریٹری جوش ارنسٹ نے بیان دیاتھا کہ صدر بارک اوباما ڈاکٹرز وداﺅٹ بارڈرز کے موجودہ صدر جو لیوکے ساتھ رابطے میں ہیں اور انھوںنے انھیں یقین دلایا ہے کہ شام میں ان کے ہسپتال پر بمباری کے واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے اور یہ تفتیش انتہائی جامع ہوگی ۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا اپنے انتظامی ،فوجی اور سیاسی ومالیاتی اورمعلومات سے متعلق وسائل اپنے مفادات کے فروغ کیلئے استعمال کررہاہے ۔
اس صورتحال کے پیش نظر کیا اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اقوام متحدہ قندوز کے ہسپتال پر بمباری کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے میں کامیاب ہوجائے گا اور امریکا کو اس پر اثر اندازہونے اور اس حوالے سے حقائق کو چھپانے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی اجازت نہیں دے گا؟اور کیا اس کے ساتھ یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ اس تحقیقات کے نتیجے میں بے قصور شہریوں کے قتل کے اس واقعے کے ذمہ دار امریکی کمانڈروں اور پائلٹس کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کی جاسکے گی جو نظیر بن جائے اور آئندہ کسی کو اس طرح کے کارروائی کرنے کی جرات نہ ہو؟امید باندھنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن حقائق اور شواہد اس کے برعکس ہیں اور معلوم یہی ہے کہ
”اے بسا آرزو کے خاک شود“


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں