میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حمزہ شہباز کی آمد اور بارہ ارب کی بازگشت

حمزہ شہباز کی آمد اور بارہ ارب کی بازگشت

منتظم
هفته, ۲۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

حمیداﷲ بھٹی
حمزہشہباز کی آمدسے اہلِ گجرات کو ایک فائدہ ہوا ہے ،سڑک کنارے لگے گندگی کے ڈھیر اُٹھا لیے گئے ہیں اور جس راستے سے مہمان نے گزرنا تھا پہلی بار وہاں جھاڑو بھی لگایا گیا ہے وگرنہ گجرات کے باسی تو اب گندگی کے عادی سے ہو گئے ہیں ۔جب پہلی بار صفائی ہوتے دیکھی تو کچھ لوگوں کو خوشگوار حیرانگی ہوئی، دریافت پر عُقدہ کھلا کہ حمزہ شہباز کی آمد ہے، جنھیں ”سب اچھا“ دکھانے کے لیے صفائی کا آغاز کیا گیا جس سے ایک اور بھید بھی کھلا کہ یہ جو حکمرانوں کو سب بہترین دکھائی دیتا ہے، اُس کی بڑی وجہ انتظامیہ کی چاپلوسی ہوتی ہے جو کسی کی آمد کی اطلاع پا کر متحرک ہو جاتی ہے اور خرابیاں ڈھانپ دی جاتی ہیں جس کی بنا پر حکمرانوں کو حقائق معلوم ہی نہیں ہوتے ۔بالکُل اُسی طرح جیسے دانت کا ڈاکٹر دانت درد اور سوجن کا علاج کرنے کی بجائے چہرے پر میک اپ کرکے سوجن چھپانے کی سعی کرے مگر ایسے طرزِعمل سے مسلہ ختم نہیں ہوتا۔
قبل ازیں بھی کئی بارہم گجرات کے ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں روپے کی گرانٹ ملنے کی باتیں سُن چکے ہیں ،بروقت منصوبے کی تکمیل اور معیاری کام پر سمجھوتا نہ کرنے کے دعووں کی عرصہ سے بھرمار ہے لیکن زمینی حقائق کیا ہیں؟ جاننے کی کسی کے پاس شاید اتنی فرصت ہی نہیں۔ مگر واہ واہ کاشور ہے، انجمن ستائشِ باہمی کی کارکردگی عروج پر ہے ،آفیسر بھی ایک دوسرے کی تحسین میں مگن ہیں۔ لیاقت چٹھہ کے حمزہ شہباز سے اچھے مراسم ہیں، اس لیے ڈی سی او کے خلاف لگی شکایت کا کبھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔شہر کے سابق ایم پی اے بھی گجرات سٹی کے کچھ کاموں کے لیے پیسے لائے مگر ڈی سی او نے نیس پاک کو منصوبوں کی نگرانی دے کر اُس کا کریڈٹ حاصل کرنے کی اُمیدوں پر اوس ڈال دی ہے ۔
گجرات میں کوئی پودا لگایا جاتا ہے یا کوئی کام شروع ہوتا ہے تو کام کے آغاز سے لیکر تکمیل تک مسلسل تختیاں لگانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ پہلے سنگِ بنیاد رکھا جاتا ہے جس کی تختی پر سب سے اوپر عموماََ ڈی سی او کا نام ہوتا ہے نیچے کسی ایم پی اے، ایم این اے یا کسی ٹکٹ ہولڈر کا نام لکھا جاتا ہے۔اسی طرح افتتاح کااسٹائل بھی ہے۔ ڈی سی او سے لیکر کمشنر تک سب اپنے اپنے نام کی تختیاں لگاتے جاتے ہیں، جب کسی بڑی شخصیت کی آمد ہوتی ہے تب ایک اور تختی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپ چناب پُل کراس کر کے گجرات میں داخل ہوں تو بابِ گجرات سے ہی ان منصوبے پر ڈھیروں تختیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔ بابِ گجرات سے آگے شہباز شریف پارک آتا ہے اگر آپ اُس پر بھی اچٹتی سی نگاہ ڈال لیں تو آپ کو لگی تختیاں گننے میں چند منٹ لگ سکتے ہیں، شاہین چوک میں زیرِ تعمیراوور ہیڈ برجِ بن رہا ہے ،وہاں بھی کئی ناموں کی تختیاں ہیں ۔کھاریاں سے جلالپور جٹاں سڑک کا جتنا حصہ تعمیر ہواہے وہاں بھی کئی ممبرانِ اسمبلی اپنے نام کی تختیاں لگا گئے ۔ساتھ ہی انتظامی سربراہ کے نام کی تختی بھی واضح نظر آئے گی۔ گجرات، کھاریاں اور سرائے عالمگیر تینوں تحصیلوںمیں بھی کچھ ایسا ہی کام جاری ہے مگر سب مطمئن ہیں ۔کسی کو احساس نہیں کہ وہ کیسی جگ ہنسائی کا باعث ہیں۔ اب جلالپور جٹاں تحصیل بننے سے تختیاں لگنے کا کاروبار فروغ پاتا نظر آتا ہے اور کچھ ہونے کا مجھے توکم از کم یقین نہیں۔
معیار کی بات کریںتو گجرات میں ایک ٹھیکےدار کے خلاف غیر معیاری کام کی ڈی سی او کی مدعیت میں ایف آئی آر بھی درج ہوئی لیکن دو افراد سے ملاقات میں ہی غیر معیاری کام معیاری ہو گیا۔ اب سب خوش ہیں۔جہاں تک مقررہ مدت کی بات ہے وہ ایک الگ تاریک پہلو ہے۔ مثال کے طور پر کڑیانوالہ میں ایک پل کا دوبرس قبل افتتاح ہو چکا ہے مگر منصوبے پر آج تک کام بھی شروع نہیں ہوا۔ جلالپور جٹاں تا کڑیانوالہ سڑک بھی کئی برس سے زیرِ تکمیل ہے لیکن ابھی تک منصوبہ مکمل ہونے کے آثار نہیں۔ بادشاہی روڈ کی تعمیر کے منصوبے کے لیے دو ٹھیکےدار حکومتی خزانے سے پیسے لے چکے ہیں مگر منصوبہ ہنوز نامکمل ہے اور سڑک تالاب کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اربوں کی ترقیاتی رقوم کی بات ہوتی اور ”پکیاں سڑکاں سُکے پنڈ “کی تعریف ہوتی ہے مگر حقائق یہ ہیں کہ گجرات شہر میں شاہ دولہ روڈ،سلطانہ آباد روڈ ،شاہ جہانگیر روڈ،مشرقی بائی پاس،بھمبر برساتی نالے کا مشرقی بند،کالرہ روڈ،بھمبر روڈ تا مہمدہ لنک روڈ،جلالپورجٹاں شاہ جہانگیر لنک روڈ،رحمان پورہ روڈ ریلوے اسٹیشن روڈ،بانٹھ روڈ،عادووال روڈ، اُدھووال روڈ پر آپ گزر کر دیکھیں تو بتائی گئی کارکردگی کی آپ کو رمق تک دکھائی نہیں دے گی۔
گجرات شاید شہر ہے گاﺅں نہیں۔ اِ س لیے بُرا حال ہے ،دھویں اور گرد کی دھند میں گھرا رہتا ہے۔ اگر نئی بننے والی تحصیل پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو حالت خاصی نا گفتہ بہ ہے۔ سبز منڈی روڈ کے کئی جگہ سے آثار تک ختم ہو چکے ہیں ۔کڑیانوالہ اور ٹانڈہ دونوں قصبوں کی کوئی گلی یا سڑک درست حالت میں نہیں۔ بھاگووال کی گلیوں کی صورتحال تو ابتر ہے ہی، مرکزی سڑک پر بھی خاصے بڑے گڑھے ہیں اور اکثر جگہ جگہ تالاب بنے رہتے ہیں جبکہ ٹانڈہ سے سرخ پورروڈ اور ٹانڈہ سے ہیڈ مرالہ لنک روڈبراستہ ککیانوالہ مٹنے کے قریب ہے شادیوال روڈ ہو یا کنجاہ جھیرنوالی روڈ کے گڑھے اسپیڈ بریکر سے بھی بڑی رکاوٹ ہیں ۔نا جانے پکیاں سڑکاں سکے پنڈ کے تحت کہاں کام ہو رہا ہے؟ دریائے توی کے ساتھ موجود تمام دیہات کو منسلک کرنے والی سڑک تقریباََ ختم ہو چکی ہے مگر کسی کو احساس تک نہیں۔گجرات تا ڈنگہ روڈبراستہ دتیوال ،ڈالی بانٹھ،ٹوپہ پر بھی گڑھے ہی گڑھے ہیں، بس سڑک کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے ۔کوٹلہ سے جلالپور صوبتیاں روڈ نام کی سڑک ہے جس کے ایک برساتی نالے پر پُل بنا نے کا منصوبہ ہے مگر دوسرا برساتی نالہ بدستور گزرگاہ میں رکاوٹ ہے۔لالہ موسیٰ،کھاریاں، ڈنگہ سرائے عالمگیر کی گلیاں نالیاں جوہڑ کا منظر پیش کر رہی ہیں اور ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اب جانے کہاں کام ہو رہا ہے؟ جس سے سڑکیں اور گلیاں نالیاں مزید سنورنے کی بجائے خراب ہو رہی ہیں ۔
کہا جا رہا ہے کہ گجرات کو وزیرِ اعلیٰ کے وژن کے مطابق خوبصورت بنایا جا رہا ہے لیکن حکومتی فنڈ کی بجائے مخیر حضرات سے عطیات مانگ کر کام کیا جارہا ہے ۔پودا لگا کر افتتاح شجر کاری کا بورڈ تو لگ جاتا ہے مگر مزید دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ مجھے تو یہ مذاق لگتا ہے پیسے مانگ کر کام کرانے کو وزیرِ اعلٰی کا ویژن قرار دینا۔اگر سب کام عطیات سے ہی ہونے ہیں تو جائیداد کی خریدوفروخت، گاڑیوں کی رجسٹریشن،ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقوم کہاں جا رہی ہیں کاش کوئی اپنے حقوق سے آگاہ آواز بلند کرے اہلِ گجرات کو حکومتی خزانے سے حصہ کیوں نہیں ملتا؟
حمزہ شہباز کی آمد سے فائدہ اُٹھالیا گیا اور برسوں سے مکمل ایسے منصوبوں کا افتتاح کرایا گیا ہے جن کا پہلے ہی کئی کئی بار افتتاح ہو چکا ہے اسی طرح کئی ایسے منصوبے جن کے کئی شخصیات سنگِ بنیاد رکھ چکی ہیں کا ایک بار پھر سنگِ بنیاد رکھوا کر چاپلوسی کی گئی ۔
ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ حکمرانوں کے دل میں رحم ڈالے اوراب اعلان کردہ بارہ ارب گجرات کو دے ہی دیں چاہے ڈی سی او کو ہی نگران بنا لیں اگر اُنھیں اپنی جماعت کے کسی رہنما پر اعتبار نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں