دورو ں کی بیما ری قا بل علا ج ہے
شیئر کریں
سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
ڈاکٹر سید مبین اختر
سلیم کوئی تیرہ یا چودہ سال کا ہوگا کہ اس وقت اسے پہلا دورہ پڑا ،وہ کمرے میں کھڑا کچھ سوچ رہا تھا اچانک گر گیا،اس کے ہاتھ پیر اکڑ گئے ،منہ ٹیڑھا ہو گیااور منہ سے جھاگ آنے لگا،آنکھوں کی پتلیا ں اوپر چڑھ گئیں،تین سے چار منٹ تک یہی کیفیت رہی ،اس کے بعد اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا، وہ بہت کمزوری محسوس کرنے لگااور خاموش ہو گیا،ہم نے بات کی تو اس نے مختصر جواب دیا،اس وقت اس کی آواز میں بھی تبدیلی محسوس ہوئی۔
ایک ہفتہ بعد پھر یہی کیفیت ہوگئی اور اسے دوسرا دورہ پڑ گیا ۔جب سے اب تک ایک ماہ میں دو یا تین دورے پڑ جاتے ہیں۔
سلیم کو اس کی بہن ہسپتال لے کر آئی تھیں،انہوں نے بتایا کہ دس سال سے دورے پڑ رہے ہیں۔اس دوران گھر کے قریب جو ڈ اکٹر تھے ان سے علاج ہوتا رہا۔دماغ کے ماہر معالج کو ابھی تک نہیں دکھایا تھا،پہلے کم دورے پڑتے تھے ، وقت کے ساتھ دوروں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا،دورانیہ بھی بڑھ گیا،پہلے یہ دورہ چند منٹ کا پڑتا تھا اور اب دس دس منٹ تک جسم میں جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔
سلیم کے بچپن کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔ان کے والد سرکاری ملازم اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔انہوںنے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ دی، اسے اسکول میں داخل کروایا مگر یہ وہاں بیٹھتا نہیں تھا،بھاگ کر گھر آجاتا۔بڑی مشکل سے دوسری جماعت تک پڑھا۔دراصل اسکا ذہن کمزور تھا جس کے سبب سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔بے چارے کی اسکول میں پٹائی بھی خوب ہوئی، والدین نے مجبور ہو کر اسکول بھیجنا چھوڑدیا۔تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ مدرسے بھیجیںشاید وہا ں پڑ ھ لے لیکن وہا ں بھی نہ پڑ ھ سکا اور مد رسے میں بھی مار کھائی۔ایک تو ذہن کمزور ، دوسرے استاد کا سخت ترین رویہ، بے چارے بچے کے دماغ پر دباﺅ بڑھتا گیااور شخصیت بھی خراب ہوتی رہی۔اس کے بعد تو وہ محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور اسی طرح وقت گزارتا ۔ گھر والے بھی مطمئن ہو گئے کہ بچہ کھیل رہا ہے ، پڑھائی و غیرہ کا دباﺅ نہیں رہا، گھر والوں نے اس حوالے سے فکر کرنی چھوڑ دی ۔وہ والدین کا کہنا مان لیتا تھا،بہن بھائیوں سے بھی جھگڑا و غیرہ نہیں ہوتا ،سب ہی سے تعلقات اچھے رہے ۔یہ آٹھ بہن بھائی ہیں۔6 بھائی اور 2 بہنیں۔سب کی شادیاں ہو چکی ہیں۔بھائی مختلف اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں۔یہ سب سے چھوٹا ہے ، اسے گھر کے قریب ایک دکان کروادی ہے ، جہاںبچو ں کی چیزیں بیچتا ہے۔ اس کی زندگی کسی حد تک معمو ل پر آ گئی تھی کہ اسے دورں کی شکا یت ہو گئی ۔
یہ دورے ہو تے ہیں،کچھ لو گ اسے مر گی(Epilepsy) کہتے ہیں ۔ اس بیما ری کے حو الے سے بہت سی غلط فہمیا ں عام ہیں ۔مثلا ً یہ ایک سے دو سر ے کو لگ جا تی ہیں یا ان لو گو ں پر تھوڑ ی دیر کے لئے کو ئی جن کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ بعض لو گو ں کا خیا ل ہے کہ یہ لا علا ج مر ض ہے یا ایسے لو گو ں کو روحا نی عامل کے پا س لے جا نا چا ہیے ۔ ہما رے پا س اس ذہنی مر ض کا شکا ر ایسے بہت سے لو گ آ تے ہیں ، جو سالوں سے ادھر اُدھر گھو م پھر کر اپنے مر ض کو لا علا ج سمجھ بیٹھتے ہیں کیو نکہ اس مر ض کے علا ج میںسا ئیکا ٹر سٹ کے مشورے سے ادویا ت کھا نی بہت اہم ہیں اور ادویا ت سے یہ مر ض قا بو میں رہتا ہے ۔ دورے پڑنے رُک جا تے ہیں۔ سلیم کے درست علاج میں بہت تا خیر ہو چکی تھی اس کے با وجو د بیما ری پر قابو پا لیا گیا ۔
دورے روکنے کی ادویا ت کم از کم دو سال تک کھا نی چا ہییں۔ اس کے بعد ڈا کٹر دوا کو رفتہ رفتہ کم کر کے بند کرتے ہیں ۔ عمو ماً دورے دوبا رہ نہیںپڑتے ، البتہ کچھ مریضوں میں دورے پھر بھی پڑسکتے ہیں ، تب دو تین سال کے لئے مزید دوا کھا نا پڑتی ہے ۔
اب سلیم کی کیفیت پہلے کے مقا بلے میں بہت بہتر ہے ۔ دوروں پر قا بو پا لیا گیا ہے ۔
اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی