برکس اور پاکستان
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
دنیا کی اُبھرتی معیشتوںکے نمائندہ تجارتی واقتصادی فورم برکس کا سولہواں سربراہی اجلاس روس کے شہر کازان میں جاری ہے جس کے فیصلے جاننے کے لیے دنیا بے چین ہے۔ رواں اجلاس میں پاکستان کو رکنیت ملنے کاامکان ہے ۔روس اور چین تو پہلے ہی ممبر بنانے کی یقین دہانی کراچکے ۔سفارتی حلقوں کاکہناہے کہ بھارت بھی پاکستان کو ممبر بنانے جیسی تجویز کی حمایت پر آمادہ ہے اگر ایسا ہوجاتا ہے جس کا کافی حد تک امکان ہے تو یہ فیصلہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کی طرف ایک مثبت قدم ہو گا۔ برکس کے فیصلوں کو دنیا بہت اہمیت دیتی ہے، وجہ ڈالر کے متبادل کی تلاش پر غورہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں زیادہ تر ایسے ممالک شامل ہیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ اور مغربی ممالک سے اختلاف ہے ، اسی بناپر مختلف قسم کی پابندیوں کا ہدف ہیں۔ امریکہ کے دیرینہ اتحادی پاکستان کاشمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہونے لگا ہے جس کی کئی کمپنیوںپر ایران کے میزائل پروگرام میں معاونت کا الزام لگا کر امریکہ نے حال ہی میں پابندیاں عائدکی ہیں ۔اسی بناپر ایسے قیاسات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ برکس میں شامل ممالک امریکی پالیسیوں کے خلاف مشترکہ آواز اور کوششوں کی طرف جا سکتے ہیں جو امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کی بالادستی چیلنج کرنے کی طرف اہم پیش رفت ہوگی۔
دنیا کی اکثرترقیافتہ معیشتیں امریکی سربراہی میں قائم نیٹو اتحاد میں شامل ہیں کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں یہ ممالک دیگر کی بہ نسبت بہت آگے ہیں جو دفاعی کے ساتھ سیاسی ،معاشی اور تجارتی حوالے سے سبقت کاموجب ہے لیکن اب صورتحال دلچسپ مرحلے میں داخل ہورہی ہے کیونکہ دفاعی ،سیاسی ،معاشی اور تجارتی غلبہ برقرار رکھنے میں کئی ایک مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ سیاسی و معاشی بالادستی کے لیے دہشت گردی پر تکیہ بھی ناکام ثابت ہونے لگاہے۔ روس کی شکست وریخت سے طاقت کا توازن جس طرح یک قطبی ہوگیا،اِس غیر معمولی کامیابی کاتقاضا تھاکہ تنازعات بڑھانے کے بجائے حل کرنے پر توجہ اور بقائے باہمی کے اصول پر عمل کیاجاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا،بلکہ دنیا کو جنگوں کی آگ میں جھونک کر بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ مار دیے گئے۔ معاشی ترقی کے بل بوتے پر دنیا کو مطیع وفرمابردار بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ مقصدحاصل کرنے کے لیے کبھی پابندیوں کا ہتھیار آزمایا گیا تو کبھی ڈالر کی اجارہ داری کوبطورحربہ آزمایاگیا۔ اِن حربوں سے تنگ ممالک متبادل کی تلاش کی طرف آئے اور برکس جیسی تنظیموں کی راہ ہموارہوئی۔ چین کا معاشی طاقت بننا نیز روس کا کھوئے وقارکو بحال کرنے کی توجہ سے بھی دنیا متوجہ ہوئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسی تنظیموں نے نیٹو،یورپی یونین اور جی سیون جیسی تنظیموں کی بالادستی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اسی بنا پرامریکہ اور اُس کے اتحادی اِ ن تنظیموں سے خائف ہیں اور تنقیدکا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن لگتاہے یک قطبی ماحول کو برقراررکھنے کی کوششوں میں تاخیر کردی گئی ہے اور برکس کے لیے فضاتیزی سے سازگارہوتی جارہی ہے۔
برکس میں شامل ممالک کی آبادی ساڑھے تین ارب اور عالمی معیشت میں حصہ تیس فیصد ہے۔ 17.98 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ چین پہلے، 3.40کھرب ڈالر کے ساتھ بھارت دوسرے جبکہ 2.25کھرب ڈالر کامعاشی حجم رکھنے کی بنا پر روس کاتیسرانمبر ہے۔ چوتھی پوزیشن پر برازیل اور سعودی عرب ہیں جن کی معیشتیں دوکھرب ڈالر کے آس پاس ہیں ۔اگر مذکورہ پانچوں ممالک ہی اتفاقِ رائے سے باہمی تعاون کاکوئی بڑافیصلہ کرلیتے ہیں جس کا امکان ہے تو نہ صرف یک قطبی ا جارہ داری کا خاتمہ بلکہ ڈالر جیسی کرنسی کے غلبے سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے خیال میں برکس طاقت کے نئے امکانات کو جنم دیکرایک مختلف عالمی توازن کی روش پرگامزن ہے جس سے طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہو سکتا ہے کیونکہ روس کو تیل کی ادائیگی ڈالر میں کرنے پرشدید تحفظات ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ پیٹرویوآن یا پھر برکس ممالک کی مشترکہ کرنسی کے اجرا سے ادائیگی ہو، اِس تجویز کو تنظیم میں شامل اکثر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ یہ صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جن کی معیشت ڈالر سے وابستہ ہونے کی بناپر دبائو کا شکار ہے۔
چین کی طرف جھکائو بڑھانے پر امریکہ اور اُس کے اتحادی مغربی ممالک پاکستان سے ناخوش ہیں یہ ناخوشی کسی بھی وقت تجارتی راہیں مسددو کرسکتی ہے۔ اِس لیے نہ صرف نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنا ناگزیرہوگیاہے بلکہ ڈالر کے ایسے متبادل کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے جس سے قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل ہو۔ یہ کوئی آسان راستہ نہیں لیکن توجہ اور مستقل مزاجی سے چلنازیادہ دشواربھی نہیں ۔پاکستان کی موجودہ حکومت سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشی تعلقات قائم کرنے کی پالسیی پر عمل پیراہے ۔برکس میں شامل زیادہ تر ممالک کیونکہ امریکہ سے ناخوش ہیں، اسی لیے روس اور چین کے قریب آئے ہیں۔ پاکستان بھی امریکہ کی ضرورت نہیں رہا۔اِن تبدیل شدہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئے معاشی و تجارتی اُفق تلاش کرنالازم ہو گیاہے ۔پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ تجارت ڈالر میں ہوتی ہے لیکن گزشتہ عشرے سے مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسیوں میں تجارت کا حصہ بڑھا ہے۔ برکس کی رُکنیت ملنے سے پاکستان دوطرفہ تجارت کے معاہدوں کے ذریعے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔
برکس کاحالیہ سربراہی اجلاس اِس بناپر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ شریک چھتیس میں سے بیس سے زائد ملکوں کی نمائندگی اُن کے سربراہ کر رہے ہیں یہ طاقت کے توازن میں تبدیلی کی طرف اِشارہ ہے امن کی متلاشی موجودہ دنیا دہشت گردی کو ناپسند کرتی ہے ریاستوں کو لڑانے یا کشیدگی پیداکرنے کے عمل کونامناسب اور غلط تصور کیاجاتاہے لیکن لگتاہے امریکہ کو امن قائم کرنے دلچسپی نہیں وہ تنازعات کا حل تلاش کرنے سے زیادہ لڑائی کے امکانات بڑھانے اور بین الریاستی کشیدگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتاہے۔ افتراتفری اور شورش برپا کرنے کی تدابیرکرتا ہے آج کا عالمی نظام جمہوری اور مطلق العنان حکومتوں کے درمیان کچھ اِس طرح تقسیم ہے کہ انسانی حقوق بے وقعت ہوچکے ہیں۔ داعش جیسے دہشت گرد اور نوع انسانی کے لیے مہیب خطرناک گروہوں کاخاتمہ اُس کی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی دلچسپی مملکتوں کی تقسیم میں ہے جس نے برکس جیسی تنظیم کی اہمیت و کردار میں اضافہ کیا ہے۔ عالمی آبادی میں پچاس فیصد کی حامل یہ تنظیم مجموعی معاشی حجم میں جی سیون کو پچھاڑ چکی ہے۔ اب یہ پاک قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ترقی کے دستیاب مواقع سے کیسے فوائد کشید کرتی ہے ؟ نئی تجارتی منڈیاں منتظر ہیں۔ پیدواری مال بڑھا کر پاکستان اپنی معیشت کوبہتربناسکتاہے۔