عظمت کاراستہ
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
وہ مسلمان نہیں تھالیکن اس نے لکھاکہ دنیامیں اگرکوئی پیغمبریاصالح شخص نہ بھیجاجاتااورصرف مسلمانوں کی کتاب القرآن موجودہوتی تویہ کتاب انسانی ہدایت کیلئے کافی تھی۔وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔وہ ایسے دولت مندگھرانے میں پیدا ہواجو4220 کمروں کے شاندارمحل پرمشتمل تھا۔اس نے کٹرمذہبی گھرانے میں پرورش پائی۔وہ دوناول لکھ کرعظمت کی ایسی بلندی پرپہنچ گیاجہاں لوگ اس کوایک نظردیکھنے کیلئے اس کے گھرکے سامنے مہینوں ڈیرے ڈالے رہتے۔اس شخص کی زندگی اورنظریات پرکم و بیش23ہزارکتابچے،3 لا کھ 37 ہزارکتابیں اور5لاکھ6ہزارمضامین تحریرکیے گئے۔اس قدرعزت،شہرت اوردولت کاحامل ٹالسٹائی قرآن کے پیغام پڑھ کربے ساختہ پکاراٹھاکہ”میری زندگی میں پیسے اور شہرت نے بڑاکرداراداکیاہے لیکن اس کے باعث میں اپنے مقصدحیات کوبھول گیا۔ان دونوں چیزوں کیلئے جینے والوں کونہیں معلوم کہ ان کوچھوڑکرجینے میں کتنالطف اورمزہ ہے۔ روس کے قدیم رئیسوں کی طرح نازونعم میں پرورش پانے والے ادیب نے جب حقیقت کاسراغ لگایاتوقرآن کی تعلیم سے متاثرہوکراپنی تمام جائیدادغریبوں اورمسکینوں میں تقسیم کردی۔دولت کی زیادتی کووہ باعثِ عزت نہیں سمجھتاتھا۔وہ کہتاتھاکہ خداکوجس انسان سے پیچھاچھڑاناہواوردنیاوآخرت میں تماشا بناناہواسے بہت امیرکردیتاہے۔ حد سے زیادہ امارت تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔اس کی کتابیں کروڑوں کی تعدادمیں بکتی تھیں لیکن وہ ان کے ذریعے کمائی گئی تمام دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتاتھا۔اسی بات پراپنی بیوی سے اختلاف اتنابڑھاکہ اس نے گھرچھوڑدیااورآخرکارروس کے ایک ریلوے اسٹیشن پرسردی سے لڑتاہوانمونیامیں مبتلاہوکردنیاسے رخصت ہوگیا۔آخری وقت میں اس کے منہ پریہ جملہ تھاکہ ”خدابڑامسبب الاسباب ہے”۔ زندگی کی آخری سانس تک لوگوں کیلئے کی جانے والی اپنی خدمات کووہ پرکاہ کے برابربھی نہ سمجھتاتھا۔82سال کی عمر میں”جستجواورمسلسل جستجو”کے لفظ پکارتاوہ دنیا سے رخصت ہوگیالیکن عظیم افرادکی عظمت کارازکھول گیاکہ دولت اور شہرت اصل وجہ عظمت نہیں قراردی جاسکتی۔عظمت کاراستہ توصرف اورصرف انسانیت سے محبت کاراستہ ہے ۔عظیم فرد ہویاعظیم قوم،بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انسانیت کیلئے کیاکیا؟جوچیزیں یانظریات ایجادہوئے،ان سے انسانیت کوکس حدتک فلاح حاصل ہوئی۔لیکن دولت اورطاقت کے حصول کیلئے اسی ٹالسٹائی کے ملک کے فرمانروانے وصیت کی کہ تم ہی بالاتراوربرترقوم ہواوردنیا پرحکمرانی کاحق تم ہی کوہے۔روسی قوم نے عظیم پیٹرکی اس وصیت کودل وجان سے قبول کیا اوردوسری جنگِ عظیم کے بعدروس توسیع پسندانہ پالیسی پراس طرح گامزن ہواکہ خونِ انسانی کوپانی کی طرح بہاتے ہوئے مشرقی یورپ میں البانیہ،ہنگری، پولینڈ ، چیکوسلواکیہ،فن لینڈ مشرقی جرمنی کے علاوہ ترکی۔چین،جاپان اورایران کے بھی کچھ حصوں پرقبضہ کرلیا لیکن ابھی کچھ اور چاہیے تھالہذا ایتھوپیا، اسٹونیااورافغانستان کے کچھ حصوں پربھی قبضہ کرلیا تاہم افغانستان پرمکمل قبضے کی خواہش بالآخر اسے لے ڈوبی۔ یوں تاریخ نے ثابت کردیاکہ ظلم وسفاکی کے ذریعے عظمت کاحصول دیوانے کے خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتالیکن تاریخ کی اس حقیقت کاادراک اگرقوموں کوہوجاتاتوتہذیبِ انسانی کی قباخونِ انسانی سے یوں لتھڑنہ رہی ہوتی۔
دوسری طرف عالمِ انسانیت کوایک ایسیانسانی حقوق اورتہذیب کی علمبردارقوم سے بھی واسطہ پڑاجو گزشتہ چند برسوں سے دوسروں کے مذہب(مسلم امہ) کابظاہراتنا احترام کرنے کااپنے ہاں ایساتماشہ سجاتے ہیں کہ قصرسفیدکے فراعین قرآنی دعاؤں کاانگریزی ترجمہ پڑھ پڑھ کرمسلمانوں کے ساتھ اپنے قصرابیض کے لان میں مسلمانوں کے ساتھ خودبھی روزہ افطار کرتے رہے اوراسی شام ساتھ میں افغانستاان کیلئے ہزاروں ٹن وزنی بارودی بم تحفہ رمضان کے نام سے ارسال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی اوراج ایک مرتبہ پھرچشم فلک نے دیکھاکہ امریکی وزیرخارجہ اسرائیل مظالم سے آنکھیں بندکرکے اپنے یہودی ہونے کے اعلان کے ساتھ یہودیوں کومظلوم ٹھہرانے کی پوری کوشش کرتارہا۔دنیا6/اگست1945کی صبح سواآٹھ بجے کاوہ روح فرسادن کیسے بھول سکتی ہے جب جاپان کے دوشہروں ناگاساکی اور ہیروشیماپرگرائے گئے بموں کے نتیجے میں انسانی صحت، زمین اورچرند پرندکوملیامیٹ کردیاگیااوروہاں کے کھنڈرات آج بھی نوحہ پڑھ رہے ہیں،اسے افغانستان اورعراق پربرسائے گئے بموں کی تابکاری کے اثرات کاجائزہ لینے کی فرصت نہیں۔وہ فاختائوں اور کبوتروں کی موت پرتونوحہ کناں ہوتے ہیں لیکن غزہ کے ہسپتالوں پربمباری کرکے اسے صفحہ ہستہ سے مٹادینے کے عمل کوجائزسمجھتے ہیں۔افغانستان، عراق،چیچنیا،کشمیراورفلسطین میں جنگ سے مرنے والے لاکھوں بچوں اورعمربھرمعذوری کی زندگی گزارنے والے معصوموں کیلئے ان کے پاس آنسوہیں نہ نوحے-اسی قصرسفیدکے ناک کے نیچے ایک خونخوار درندہ6سال کے معصوم بچے پرشکاری چاقو کے 26/وارکرکے اسے موت کے گھاٹ اتاردیتاہے اوراس کی ماں کوبھی شدید زخمی کردیتاہے جوموت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے۔
افغانستان میں لاکھوں افرادکے پرخطے اڑادینے والے اپنی بدترین تاریخی اورعبرتناک پسپائی کے بعداپنی عبرتناک شکست کابدلہ لینے کیلئے اس غریب ملک کے ساڑھے نوارب ڈالرضبط کرلئے جاتے ہیں تاکہ انہیں پھرسے جھکایاجاسکے۔عظمت کے حصول کی تمنابہت آسان ہے لیکن اس کاحصول بہت قربانی مانگتاہے۔تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ جاوید رہنے والے حکمرانوں نے دنیامیں عدل وانصاف اورمساوات کواپنااولین اصول بنایاتھا۔مظلوموں اورکمزوروں کیلئے طوق وسلاسل اورمکروہ اذیتی طریقوں کے موجدتوتاریخ میں انسانیت کی توہین کرنے والے متکبرفرعون کے طورپرہی یادکیے جاتے ہیں۔
ان دنوں ہماری بدقسمتی جوعلم ودانش کے نام پرہمیں لوٹ رہی ہے وہ آئے دن ہمارے ان پیشہ وردانشوروں کے ہاتھوں ہو رہی ہے جواپنے آقاکے تائیدمیں حماس کوموردِالزام ٹھہراتے ہوئے اپنے بیہودہ علم کی ابکائیاں کررہے ہیں۔یادرکھیں کہ وہ علم جوکبھی نیت نہ بن سکا،وہ نیت جوارادہ نہ بن سکی،وہ ارادہ جوعزم نہ بن سکا،اوروہ عزم جوکسب نہ بن سکا، وہ کسب جوعمل نہ بن سکا،وہ عمل جونتیجہ نہ لاسکا،وہ نتیجہ جومحاسبہ نہ کرا سکا،وہ محاسبہ جوتوبہ نہ کرا سکا،ایسے علم کے بارے میں تومیرارب ببانگ دہل تنبیہ فرماتاہے:ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔