میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی وزیرخارجہ کو وائسرائے نہیں مانتے،ہمیں امداد یا ہتھیار نہیں چاہئے، خواجہ اصف

امریکی وزیرخارجہ کو وائسرائے نہیں مانتے،ہمیں امداد یا ہتھیار نہیں چاہئے، خواجہ اصف

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد( آن لائن) وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان میں دیرپا امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے، جبکہ افغانستان کی حکومت بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے ،جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سرزمین پر امن قائم کیا اور دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کامیابی سے جاری ہے، جبکہ 648کلومیٹر کی سرحد پر افغانستان کی کوئی ایک چیک پوسٹ نہیں۔انہوں نے کہا کہ داعش کے لیے افغانستان کا علاقہ کافی ہے انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں جیسا کہ افغانستان کے 45فیصد علاقے پر داعش قابض ہے، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد بڑا سمجھوتا کیا تھا اور اس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات 70سال پرانے ہیں، جبکہ وہ ماضی میں ہمیں لسٹ دیتے تھے ہم بندے پکڑ کر بیچتے تھے، لیکن ٹرمپ کی تقریر کے جواب میں کوئی سرنڈر یا سمجھوتا نہیں کیا،خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے نہ آرڈرلیا نہ دباؤ قبول کیا، جبکہ سب جانتے ہیں کہ ماضی میں بندے بیچنے کے بدلے میں کیا کیا وصول کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ کو وائسرائے نہیں مانتے انہیں واضح کردیا ہے کہ ہمیں امداد یا ہتھیار نہیں چاہیے، امریکا کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکا میں معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھا گیا، جبکہ سویلین اور فوجی قیادت نے حال ہی میں مل کر امریکا سے بات کی، وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری فوج عوام اور سیکورٹی اداروں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، ہمیں امریکا کی نہیں 20کروڑ عوام کی حمایت چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے لوگوں کا خاتمہ کیا جو ڈرون حملوں کا باعث تھے جس کے بعد پچھلے چند سالوں کی نسبت اب ڈرون حملے کم ہورہے ہیں،تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے مناسب ہوگا کہ اس معاملے پرایوان میں بحث ہو ،کیونکہ بحث سے معاملے پر ہمارے رہنمائی ملے گی۔ دریں اثناء وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان راتوں رات ختم نہیں ہو گا،دونوں ممالک کے تعلقات میں گزشتہ کئی برسوں میں اتنی برف جم گئی ہے کہ اس کو پگھلنے میں وقت لگے گا،ہمیں امریکا سے کوئی معاشی امداد اور اسلحہ نہیں، بس صرف اور صرف احترام چاہیے جس میں وہ عزت سے بات کریں اور ہم بھی ان کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے۔بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے اس وقت جو کوششیں ہو رہی ہیں، اس سے ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں اور اس سے بہتر صورتحال پیدا ہو گی۔امریکا کے پاکستان پر افغانستان کے معاملے پر پائے جانے والے خدشات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ پرانی دوستی یاری کے نتائج پہلے سے ہی بھگت رہا ہے۔ہم نے 70ہزار جانوں اور اربوں ڈالرکا نقصان اٹھا لیا ہے، ہمارا پرامن کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ تھا، وہ سب برباد ہو گیا اور اس سے برے نتائج ہمیں امریکٓ کیا بھگتائے گا۔ہم نتائج بھگت رہے ہیں اور جو نتائج ہمیں امریکٓ کے ساتھ دوستی میں بھگتنے پڑے ہیں ابھی صرف ان کو ٹھیک کر رہے ہیں جس میں اللہ ہماری مدد کر رہا ہے اور قوم اس پر متحد ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ باتیں دھمکی کی زبان سے نہیں صلح کی زبان سے طے ہوں گی۔ ہمارا محفوظ ٹھکانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(طالبان)کے پاس افغانستان میں 45 فیصد علاقہ ہے اور یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنے کارناموں اور کارکردگی کی وجہ سے انہیںمہیا کیا ہے۔ وہاں پر ان کی پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں اور افغانستان میں بھی حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ امریکا کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی تھوڑا اپنے گریبان میں جھانکے کہ اس نے 16 برس میں افغانستان میں کیا کارنامے سرانجام دیے ہیں۔خواجہ آصف نے روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کی جانب سے پاکستان کو تنہا چھوڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تیس چالیس سال کی امریکا کی دوستی نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے اور پاکستان مشکل حالات سے سر اٹھا کر نکلے گا۔انہوںنے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ دوستی بھی رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اعتماد اور عزت و وقار کے ساتھ، ہمیں ان سے کوئی معاشی امداد اور اسلحہ نہیں چاہیے، کچھ نہیں چاہیے بس صرف اور صرف احترام چاہیے جس میں وہ عزت سے بات کریں اور ہم بھی ان کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے، ہمارے 70سال کے تعلقات ہیں اور انہیںہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں