میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص

ویب ڈیسک
منگل, ۲۶ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

(قسط:6)
خولیٰ بن یزیداور حمید بن مسلم حضرات اہل بیت کے سروں کو لے کر کوفہ روانہ ہوئے اور ابن زیاد کے سامنے پیش کیے ، ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کرکے سب سروں کو سامنے رکھا، اور ایک چھڑی سے امام حسین ص کے دہن مبارک کو چھونے لگا ، حضرت زید بن ارقم صسے رہا نہ گیا، وہ فوراً چلا اُٹھے اوربولے: ’’ (اُوئے بدبخت!) اِن مبارک ہونٹوں سے اپنی چھڑی ہٹا ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیںمیں نے رسول اللہ ا کو ان ہونٹوں کا بوسہ لیتے دیکھا ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے، ابن زیاد نے کہا کہ اگر تم سن رسیدہ بوڑھے نہ ہوتے تو میں تمہاری گردن بھی اُڑا دیتا۔ حضرت زید بن ارقم ص یہ کہتے ہوئے مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے کہ: ’’اے عرب کی قوم! آج کے بعد تم غلام ہو! تم نے سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراء کے لخت جگر کو قتل کردیاہے اور مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) کو اپنا امیر بنالیاہے، وہ تمہارے اچھے لوگوں کو قتل کرے گااور شریر لوگوں کو اپنا غلام بنائے گا ، تمہیں کیا ہوا کہ تم اس ذلت پر راضی ہوگئے؟۔
عمرو بن سعد دو روز کے بعد بقیہ اہل بیت امام حسین کی بیٹیوں،بہنوں اور بچوں کو ساتھ لے کر کوفہ کے لئے نکلا تو امام حسین ص اور اُن کے اصحاب کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ، عورتوں اور بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کہرام مچ گیا، گویا آسمان و زمین رونے لگ گئے، عمرو بن سعد نے جب ان اہل بیت کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا تو اُس وقت امام حسین ص کی ہمشیرہ حضرت زینب رضی اللہ عنہانے بہت میلے اور خراب کپڑے پہن رکھے تھے،اور اُن کی باندیاں اُن کے ارد گرد تھیں، وہ ایک طرف جاکر خاموش ہوکر بیٹھ گئیں، ابن زیاد نے پوچھا: ’’یہ ایک طرف جاکر علیحدہ بیٹھنے والی کون ہے؟۔‘‘حضرت زینبؓ نے کوئی جواب نہ دیا، ابن زیاد نے تین مرتبہ اسی طرح دریافت کیا، مگر حضرت زینبؓ اسی طرح خاموش رہیں، جب کسی باندی نے کہا کہ : ’’ یہ زینب بنت فاطمہ ؓہیں، تو ابن زیاد بولا : ’’شکر ہے اللہ کا جس نے تمہیں رُسوا کیا اور قتل کیااور تمہاری بات کو جھوٹا کیا۔‘‘ اِس پر حضرت زینبؓ کڑک کر بولیں: ’’شکر ہے اُس اللہ کا جس نے ہمیں محمد مصطفی اکے نسب سے شرف بخشااور قرآنِ مجید میں ہمارے پاک ہونے کو بیان کیا، رُسوا وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے۔‘‘یہ سن کر ابن زیاد غصہ سے بھڑک اُٹھا اور کہنے لگا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے غیظ سے شفاء دی اور تمہارے سرکش کو ہلاک کیا۔‘‘ حضرت زینبؓ کا دل بھر آیا وہ اپنے تئیں سنبھال نہ سکیں اس لئے بے اختیاررونے لگیںاور فرمانے لگیں: ’’اگر یہی تیری شفاء ہے تو تو اسی کو اپنی شفاء سمجھے رکھ!۔‘‘
اس کے بعد ابن زیاد علی اصغرص کی طرف متوجہ ہوا، اور آپ کا نام پوچھا، علی اصغرص نے بتایا کہ میرا نام علی ہے، ابن زیاد نے کہا : ’’علی تو قتل کردیا گیا، علی اصغر صنے بتایا کہ: ’’ وہ میرے بڑے بھائی تھے، اِن کا نام بھی علی تھا (علی اکبرص)‘‘ ابن زیاد نے جب علی اصغرص کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا تو علی اصغرص نے کہاکہ: ’’میرے بعد ان عورتوں کا کفیل کون ہوگا؟ اُدھر حضرت زینبؓ اِن کی پھوپھی اِن کو لپٹ گئیںاور کہنے لگیں: ’’اے ابن زیاد! کیا ابھی تک ہمارے خون سے تیری پیاس نہیں بجھی؟ میں تجھے اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ اگر تو اِن کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر اِن کے ساتھ ہم سب کو بھی قتل کردے!۔‘‘
علی اصغرص نے کہا کہ: ’’اے ابن زیاد! اگر تیرے اور اِن عورتوں کے درمیان کوئی قرابت ہے تو تو اِن کے ساتھ کسی متقی ، پرہیز گار اور صالح مسلمان شخص کو بھیجنا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق اِن کی رفاقت کرے ۔‘‘ یہ سن کر ابن زیاد نے کہاکہ: ’’اچھا! اس لڑکے کو چھوڑدو کہ خود اِن عورتوں کے ساتھ جائے۔‘‘
اس کے بعد ابن زیاد نے جامع مسجد میں شہر والوں کو جمع کیا، نماز پڑھی اور اُس کے بعد ایک خطبہ دیا، جس میں کہا کہ : ’’ تعریف اُس اللہ کے لئے ہے کہ جس نے حق کو ظاہر کیا، حق والوں کو فتح یاب کیا، امیر المؤمنین یزید بن معاویہ اور اُن کی جماعت کو غالب کیا اور کذاب حسین بن علی اور اُس کے ساتھیوں کو ہلاک کر ڈالا۔‘‘ اُس وقت مجمع میں مشہورصحابی حضرت عبد اللہ بن عفیف ازدی ص بھی موجود تھے، جو(جنگ جمل و صفین میں حضرت علیص کی طرف سے شریک ہوکر اپنی دونوں آنکھیں کھو چکے تھے ) ہمہ وقت مسجد میں پڑے رہتے ،اُٹھ کھڑے ہوگئے اور چلاکر بولے: ’’اللہ کی قسم! اے ابن زیاد کذاب ابن کذاب تو تو ہے نہ کہ حسین ؓبن علی ! تم لوگ انبیاء کی اولاد کو قتل کرتے ہواور صدیقین کی سی باتیں بناتے ہو۔‘‘ ابن زیاد نے اِن کو گرفتار کرنا چاہا، لیکن ان کے قبیلے کے لوگ چھڑانے کے لئے کھڑے ہوگئے، اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا۔
ابن زیاد کی شقاوت نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ حکم دیا کہ: ’’امام حسینص کے سر کو ایک لکڑی پر رکھ کر کوفہ کے بازاروں اور گلی کوچوں میں سر عام گھمایا اور پھرایا جائے تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں۔‘‘ چنانچہ یہ سب کچھ ہوا اور پھر اِس کے بعد ابن زیاد نے امام حسینص اور آپ کے دیگر اصحاب کے سروں کو یزید کے پاس ملک شام بھیج دیا اور انہیں کے ساتھ اہل بیت کی عورتوں اور بچوں کو بھی روانہ کردیا، جب یہ لوگ شام پہنچے تو انعام کے شوق میں حر بن قیس جو اِن کو لے کر گیا تھا فوراً یزید کے پاس پہنچا، یزید نے پوچھا : ’’کیا خبر ہے؟‘‘ حر بن قیس نے میدانِ کربلا کے معرکہ کی ساری تفصیل بتائی اور آخر میں کہنے لگا کہ: ’’امیر المؤمنین کو بشارت ہوکہ مکمل فتح حاصل ہوئی ہے، اہل بیت سارے کے سارے مارے گئے اور ان کی ساری عورتیں اور بچے قیدی بن کر حاضر ہیں۔‘‘
یزید پلید نے جب یہ سنا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اوروہ حر بن قیس سے کہنے لگاکہ: ’’میں فقط تم سے اتنی ہی اطاعت چاہتا تھا کہ اہل بیت کو قتل کیے بغیر صرف گرفتار کرلیتے ، اللہ تعالیٰ ابن سمیہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ اُس نے ان ( عورتوں اور بچوںکے مردوں ) کو قتل کروادیا ، اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو انہیں معاف کردیتا، اللہ تعالیٰ امام حسین پر رحم فرمائے۔‘‘ یہ کہا اور حر بن قیس کو کوئی انعام نہیں دیا۔(ابن جریر طبری: ج ۶ ص ۶۴۲، تاریخ اسلام للذہبی)
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں