میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ناجائز اثاثہ جات کیس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدالت میں پیشی

ناجائز اثاثہ جات کیس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدالت میں پیشی

ویب ڈیسک
منگل, ۲۶ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ناجائز اثاثہ جات کیس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈارگزشتہ روز احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 27ستمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ دوران سماعت جج نے سوال کیا کہ ملزم کے وارنٹ ابھی موجود ہیں تاہم مچلکے داخل کیوں نہیں کرائے جس پراسحاق ڈار کے وکیل نے بتایا کہ وہ ضمانتی مچلکے ساتھ لائے ہیں جو ابھی جمع کرادیے جائیں گے۔نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات ملتے ہی اسحاق ڈار کے لاہور اور اسلام آباد کے گھروں میں چھاپے مارے گئے لیکن ملزم کو گرفتار نہیں کیاجاسکا تاہم آج ملزم اچانک عدالت میں پیش ہوگئے ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔اسحاق ڈار کے وکیل نے 10لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کراتے ہوئے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے 7 روز کی مہلت طلب کی جس پر عدالت نے ریفرنس کی مکمل نقل اسحاق ڈار کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ملزم پر فردجرم عائد کرنے کے لیے 27 ستمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرنا چاہتے ہیں، عدالت نے ملزم کی آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کے لیے 50لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 27 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔واضح رہے کہ نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان پر 3 جب کہ اسحاق ڈار پر ایک ریفرنس دائر کیا ہے۔
اس امر میں کوئی شبہہ نہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں ہوتی ایک زمانے میںکسی معاملے کے روحانی پہلو کو خاص اہمیت دی جاتی تھی لیکن مادیت کے اس دور میں ہم نے اس پہلو کو یکسر فراموش کر دیا ہے اور اخلاقی قدروں کا خیال رکھنا تو کجا ہم یہ بھی بھول بیٹھے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ اورقومی اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے کے ایک مقدمے میں اسحاق ڈار نے نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ کی حیثیت سے گواہ کی حیثیت ایک بیان حلفی دیاتھا لیکن وقت تبدیل ہوتے ہی وہ اس سے مکر گئے اور یہ موقف اختیار کیا کہ انہوں نے جو کیا وہ دبائو کے تحت تھا۔ان کایہ موقف ان لوگوں کے لیے تو قابل قبول ہوسکتاہے جنھوں نے اسحاق ڈار کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان حلفی کو نہ دیکھا ہو ، اس حلفیہ بیان سے قبل تمام لوگوں کو عدالت سے نکال دیا گیاتھا اور اسحاق ڈار صاحب کو نصف گھنٹے کا وقت دیا گیا تاکہ وہ ”اطمینان سے عدالت میں بیٹھ کر سوچ و بچار کر سکیں” نصف گھنٹہ دینے کے بعد اسحاق ڈار سے عدالت نے اپنے اطمینان کی خاطر سوال و جواب کئے۔اسحاق ڈار کے عدالت میں جمع کرائے گئے حلفیہ بیان کے صفحہ نمبر5پر تحریر دو سوال ایسے ہیں جن کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سے جج کی جانب سے ایک سوال یہ تھا کہ ” آپ کوئی بھی بیان دینے کے پابند نہیں؟ کیا آپ کو علم ہے۔” اس کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا ”جی ہاں مجھے علم ہے کہ میں کوئی بیان دینے کا پابند نہیں۔ دوسرا سوال تھا ”کیا آپ کے علم میں ہے کہ یہ بیان آپ کے خلاف بطور شہات’ ثبوت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؟” جواب تھا ”جی ہاں مجھے علم ہے کہ یہ بیان میرے خلاف بطور ثبوت شہادت بھی استعمال ہوسکتا ہے۔” ان سوالات کے علاوہ دیگر سوالات بھی عدالت نے اپنی تسلی اور اطمینان کے لیے کئے جن کے جواب دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ بقائمی ہوش و حواس اور بغیر کسی جبر و اکراہ کے یہ بیان دینا چاہتے ہیں لیکن آج اسحاق ڈار اس بیان حلفی کو ردی کا ٹکڑا قرار دیتے ہیں اور اس کا ذکر کرنے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ حلف دینے کا مطلب ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر سچ بولنے کا اقرار کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے یہ بیان حلفی 25 اپریل 2000میں دیا اور اس کے بعد کبھی اس کو چیلنج نہیں کیا۔ دسمبر 2000 میں شریف فیملی کے بیرون ملک جانے کے بعد حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی تحقیقات رک گئی اور وہ سب کچھ دب گیا جو اسحاق ڈار نے اپنے بیان میں شریف فیملی کی منی لانڈرنگ کے بارے میں کہا تھا۔
”کسی شخص کا اپنے حلفیہ بیان سے انکار کرنا اور وہ بھی ایسے حلیفہ بیان سے جو دفعہ164کے تحت مجسٹریٹ کے روبرو دیا گیا ہو کہ جس کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کتنا سنگین فعل ہے۔ اس معاملے کا مادی اور ظاہری پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتیں اب اس پر گرفت کریں گی ۔لیکن روحانی پہلو جس کو ہم اکثر فراموش کر جاتے ہیں کہ وہ یہ ہے کہ کیا خدائے بزرگ و برتر جس کے نام کی قسم کھائی گئی تھی اور اس قسم کو بعدازاں ردی کا ٹکڑا کہہ دیا گیا تھا کی غیرت نے جوش نہ مارا ہوگا۔ اسحاق ڈار یقینی طور پر اللہ کی گرفت میں ہونگے کیونکہ اس شخص نے اپنے حلف کا مذاق اڑایا ہے۔ کل تک یہ شخص حکومت کا سب سے طاقتور وزیر تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ وزیرخزانہ ہونے کے باوجود اس کے بینک اکائونٹس منجمد کئے جارہے ہیں اور یہ اپنی جائیداد کی خرید و فروخت کرنے کا مجاز نہیں رہا ہے۔ نیب عدالت نے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جس پر ملزم کو عدالت میں پیش ہونے اور ضمانتی مچکے و شخصی ضمانت جمع کرانے پر مجبور ہوناپڑا۔ بینک اکائونتس منجمد ہونے کا مطلب ہے کہ اسحاق ڈار کی ملکیتی7 کمپنیاں کس قسم کا لین دین نہیں کر سکیں گی۔ نیب کی کارروائی ابھی اثاثہ جات ریفرنس میں ہو رہی ہے جبکہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ کھولنے کے لیے درخواست عدالت عظمیٰ نے منظور کرلی ہے۔ اس کیس کے کھلنے کے بعد اسحاق ڈار اور شریف فیملی ایک بھونچال کی زد میں ہونگے اور بچ نکلنے کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اسحاق ڈار کا تو اعترافی بیان موجود ہے چنانچہ ان کی جانب سے مکر جانے کا مطلب ہے کہ یہ بیان ان کے خلاف بطور ثبوت و شہات استعمال ہو گا لہٰذ کوئی اور بچ نکلے تو بچے نکلے کم از کم اسحاق ڈار اس گرداب سے بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہونگے۔
اللہ کو حاضر ناظر قرار دیکر دئیے گئے بیان حلفی کو کوڑے دان میں پھینک دینے کی بات کرنے والا شخص آج بلاشبہ سخت گرفت میں ہے اور یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا ہے۔ اللہ کی لاٹھی واقعی بے آواز ہے۔ اقتدار کا نشہ اب ہرن ہونے والا ہے اور کل کے حکمران اب ملزم بن کر عدالتوں میں پیشیاں بھیگتیں گے۔ یہ سب اس وقت میں ہو رہا ہے جب مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی اپنی حکومت ہے ‘ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ان کی حکومت ہے’ صدر پاکستان ان کا اپنا آدمی ہے مگر اس سب کے باوجود یہ لوگ خوار ہو رہے ہیں اور ان کی سب تدبیریں الٹی پڑ رہی ہیں تو اس کی وجہ ضرور کوئی ایسی ہے جس تک ان کی نظر نہیں جارہی۔ نواز شریف بھی اکیلے میں سوچتے تو ہونگے کہ یہ اچانک ان کے ساتھ کیا ہوا ہے ‘ کیسے پانامہ کا گڑا مردہ سامنے آیا اور وہ دھیرے دھیرے اس میں پھنستے چلے گئے۔ اگر کائنات کا کوئی خدا ہے اور ہمیں اس کے وجود کا کامل یقین ہے تو پھر ہمیں اس بات پر یقین کرنا ہوگا کہ انسانوں کے اعمال پر اس کی گرفت ہوتی ہے اور جب وہ گرفت کرتا ہے تو ایسے ہی اسباب پیدا ہوتے ہیں اور یونہی اقتدار چھن جاتے ہیں اور خواری مقدر بن جاتی ہے۔
اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اب روزانہ احتساب عدالت کے چکر لگانے پر مجبور ہوں گے اور انھیں جلد یابدیر عدالت کے روبرو اپنے سمدھی نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ کرنے کااعتراف کرنا پڑے گاکیونکہ وہ وزارت خزانہ کاقلمدان سنبھالنے کے باوجود اس حوالے سے موجود ثبوت مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، اور اب حالت یہ ہے کہ جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو بولے گا آستین کا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اورغلطیوں کااعتراف کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں