میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹیکسٹائل کا شعبہ توجہ چاہتا ہے!

ٹیکسٹائل کا شعبہ توجہ چاہتا ہے!

جرات ڈیسک
هفته, ۲۶ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان کے ایک اہم صنعتی شہر فیصل آباد کی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے تاجروں کے ایوان کے رہنما نے معیشت کی عملی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کا شعبہ لڑکھڑاتی معیشت کو ڈبو رہا ہے، بجلی کے موجودہ نرخ زراعت پیداوار اور برآمدات کو ختم کر رہے ہیں، جب کہ عوام تو دیوالیہ ہو ہی چکے ہیں۔ نیز گیس اور ایندھن کی قیمت میں مسلسل اضافے اور کرنسی کی گرتی قیمت کی وجہ سے مقامی برآمد کنندگان بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہے ہیں اور حریف ممالک ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ بجلی گیس کے بل اور پٹرول کی قیمت میں ماہانہ اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ کاروباری طبقے کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا،ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن ہماری ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں فیصل آباد جس کاہر گھر چھوٹی انڈسٹری کا منظر پیش کرتا تھا، آج ویران ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات سال بہ سال 14.72 فیصد کمی کے ساتھ 15.03 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق،ٹیکسٹائل اور اس کی مصنوعات کی پیداوار میں یہ کمی بنیادی طور پر پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ برآمدی اعداد و شمار ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہیں کیونکہ ان میں گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 1.64 بلین ڈالر سے 1.32 ارب ڈالر تک کمی دیکھنے میں آئی۔ حکومت کو اپنے برآمدی ہدف کو پورا کرنے میں مشکل کا سامنا ہے، جو ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
ٹیکسٹائل اور ملبوسات کا شعبہ، جو برآمدات میں کلیدی شراکت دار ہے، متعدد مسائل سے نبرد آزما ہے۔ ان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، رقم کی واپسی میں تاخیر، خام مال کی کمی اورڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے سبب حریف ممالک سے مقابلے میں مشکلات اور عالمی سطح پر کسادبازاری کے رجحان کے سبب مانگ میں عالمی کمی شامل ہے۔ ان عوامل کا مجموعہ برآمدات کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور ملک کے معاشی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب حریف ممالک سے مقابلے میں مشکلات کی وجہ سے تیار شدہ ملبوسات کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں 10.28 فیصد کمی ہوئی ہے، جب کہ نٹ ویئر کی قدر میں 12.94 فیصد کمی ہوئی لیکن مقدار میں 9.34 فیصد اضافہ ہوا، بیڈ ویئر کی قدر میں 23.1 فیصد منفی اضافہ ہوا۔ تولیہ کی برآمدات کی قدر میں 10.56 فیصد اور مقدار میں 12.93 فیصد کمی ہوئی ہے، جبکہ سوتی کپڑے کی قیمت میں 16.87 فیصد اور مقدار میں 24.22 فیصد کمی ہوئی۔ بنیادی اجناس میں سوتی دھاگے کی برآمدات میں 33.75 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ سوت کے علاوہ سوت کی برآمدات میں 32.91 فیصد کمی واقع ہوئی۔ دنیا میں ٹیکسٹائل مارکیٹ کا حجم تقریباً 10 کھرب ڈالر سے زائد ہے جس میں سے چین 266 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے مگر اس
کے باوجود ٹیکسٹائل کے 10 بڑے برآمدی ممالک میں شامل نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کپاس کی پیداوار میں 40 ویں نمبر پر ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں 39 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس فہرست میں بھارت کا نمبر پانچواں ہے اور وہ کپاس کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر موجود ہے۔
اکنامک سروے پاکستان کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں ریکارڈ 14.29 ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں جو ملک کی کل برآمدات کا 61.24 فیصد کے مساوی تھیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان میں سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کی کل صنعتی لیبر کا 40 فیصد منسلک ہے، پاکستان میں 1200 کے قریب ٹیکسٹائل ملز ہیں لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے آدھی بند پڑی ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کورونا کے دوران جو بوم آئی تھی ہمارے ارباب اختیار اسے برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اس دوران انھوں نے اس تیزی سے فائدہ اٹھانے کیلئے صنعتکار دوست اور برآمدات میں اضافے کی پالیسیاں بنانے کے بجائے اس شعبے پر بجلی اور گیس کی قیمتوں کے بھاری بل لاد کر ان کا کچومر نکال دیا اس لئے کورونا کا زور ٹوٹنے کے ساتھ ہی برآمدی آرڈرز کی تیزی ختم ہوتی گئی اور پاکستان برآمدکنندگان بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئیان میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کے بعد ان کے لیے عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی جس کی وجہ سے اضافی مشینری نہ صرف نصب نہیں کی جا سکی بلکہ آدھی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف فیصل آباد جیسے شہر میں ٹیکسٹائل سے وابستہ 20 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کی ایک اور وجہ پاکستان میں خام کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہے۔ اگر صرف پچھلے 12 سال کا ڈیٹا دیکھیں تو 2010 میں پاکستان میں کپاس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں تھیں جو کم ہو کر پچھلے سال 74 لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہیں۔ 1997 میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ 32 لاکھ ہیکٹر تھا جو 2022 میں 22 لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سالانہ ایک کروڑ 60 لاکھ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس ضرورت کا نصف ہی اب ملک میں پیدا ہو رہا ہے، اس لیے صرف گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے 3.9 ارب ڈالر کی کپاس اور اس سے وابستہ دوسرا خام مال درآمد کیا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومتوں سے منسلک لوگوں کی شوگر ملیں ہیں اور انہوں نے وہ علاقے جہاں کپاس کاشت ہوتی تھی وہاں شوگر ملیں لگا لی ہیں، اس لیے کسانوں نے اب کپاس چھوڑ کر گنا کاشت کرنا شروع کردیا ہے۔
ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے آغاز سے ہی پاکستان کی معیشت کا ایک اہم حصہ رہی ہے، جس نے ملک کی جی ڈی پی، روزگار اور برآمدات میں نمایاں حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ کی ایک بھرپور تاریخ ہے، جو تقسیم سے پہلے کے دور سے تعلق رکھتی ہے جب یہ کاٹیج انڈسٹری تھی۔ تب سے، اس میں زبردست ترقی ہوئی ہے، جو ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم شعبہ بن گیا ہے۔ تاہم، اپنی کامیابی کے باوجود، صنعت کو اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں توانائی کے زیادہ اخراجات، فرسودہ ٹیکنالوجی، اور ناکافی انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ پاکستان ٹیکسٹائل کی جو مصنوعات کو برآمد کرتا ہے ان میں سوتی دھاگے، سوتی کپڑے اور ریڈی میڈ گارمنٹس شامل ہیں ایک اور چیلنج صنعت میں استعمال ہونے والی فرسودہ ٹیکنالوجی اور مشینری ہے، جو پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو محدود کرتی ہے۔ پاکستان میں
زیادہ تر ٹیکسٹائل ملیں اب بھی پرانی مشینری اور آلات استعمال کر رہی ہیں، جن کی باقاعدہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی مرمت کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ صنعت کو انفراسٹرکچر سے متعلق چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے کہ ناکافی نقل و حمل کے نیٹ ورک، ناکارہ بندرگاہیں، اور گودام کی سہولتو کی کمی۔ ہنر مند لیبر اور افرادی قوت کی تربیت کا فقدان بھی ایک اہم چیلنج ہے، کیونکہ یہ صنعت کی نئی ٹیکنالوجیز اور طریقوں کو اپنانے کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مدد کے لیے متعدد اقدامات اور پالیسیاں شروع کی ہیں۔ ان میں صنعت کاروں کو مراعات اور سبسڈی فراہم کرنا، توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل ہے۔ حکومت ٹیکسٹائل کے نئے کلسٹرز اور خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی پر بھی توجہ دے رہی ہے، جو صنعت کی ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں گے۔ پاکستان خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے ٹیرف میں سے ایک ہے، جس سے پیداوار مہنگی ہو جاتی ہے اور منافع کم ہوتا ہے۔ توانائی کے زیادہ اخراجات صنعت کی نئی ٹیکنالوجیز اور آلات میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔جب تک یہ بنیادی عوامل دور نہیں کئے جاتے دودھ دینے والی اس گائے کو دوبارہ تواناطریقے سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں