تخت کابل اور پاکستان کی مزاحمتی تنظیمیں
شیئر کریں
قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کے اندر علیحدگی کی سوچ اور پُرتشدد سیاست کو شہہ افغانستان سے ملی ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد 1948ء میں خان آف قلات کے بھائی شہزادہ عبدالکریم احمدزئی نے پاکستان سے علیحدگی اور بغاوت کی ٹھان لی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ افغانستان چلے گئے۔ مزاحمت و ہجرت کی اس ترکیب کو درپردہ میر احمد یار خان کی حمایت حاصل تھی۔ شہزادہ عبدالکریم نے بلوچستان سے متصل افغان علاقے سرلٹ میں پڑائو ڈالا۔ افغان حاکم ظاہر شاہ نے انہیں پناہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی مگر افغان سرزمین سے مسلح کارروائیوں کی اجازت نہ دی۔ بعد ازاں عبدالکریم لوٹ آئے، گرفتار ہائے، پابندِ سلاسل ہوئے، انہیں سزا سنائی گئی۔ وقت گزرنے کے بعد سیاست میں حصہ لیا، پارلیمنٹ کا حصہ بنے۔ 1974ء میں خان قلات میر احمد یار خان بلوچستان کے گورنر بنے۔
اس دوران نشیب و فراز آتے رہے، بغاوت کی فضا بنتی رہی۔ آزاد پشتونستان کے لیے ہاتھ پائوں مارے جارہے تھے۔ الگ پشتون ریاست کا ایشو ہندو کانگریسی اخبارات نے سب سے پہلے اچھالا تھا۔ پھر1947ء میں افغان حکومت نے اس تحریک کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ظاہر شاہ کی حکومت میں سردار دائود با اختیار وزیراعظم تھے۔ پشتون زلمی تحریک کی پس پردہ رہبری ولی خان کرتے تھے۔ اجمل خٹک، افراسیاب خٹک ،خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوںکے کئی لوگ اس میں سرگرم تھے۔ عین اس وقت کابل سے بلوچ علیحدگی کی تحریک کو بھی ایندھن فراہم ہوتا رہا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں چاروں دارالحکومتوں میں دہشت گردی کی سرگرمیاں ہوتی رہیں۔ 1973ء میں کمیونسٹوں اور ماسکو کے تعاون سے اقتدار پر قبضے کے بعد سردار دائود نے سندھی، پشتون اور بلوچ تحریکوں سے مزید تعاون کیا۔ افغانستان نے اپنے ہاں ایک بڑی تعداد کو پناہ دے رکھی تھی جن میں پنجاب کے لوگ بھی شامل تھے۔ افغانستان میں ہر سال31 اگست کو یومِ پشتونستان منایا جاتا۔ ان تقریبات میں خیبر پختون خوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے بائیں بازو کے رہنما شریک ہوتے۔ ان تقریبات میں خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی بھی شریک ہوئے۔ ریڈیو کابل پر بلوچ، پشتون علیحدگی کی تحریکات کے بارے میں نشریات مخصوص تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے علیحدگی پسندوں سے رعایت نہ کی۔ حیدرآباد سازش کیس میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سرکردہ رہنمائوں کی گرفتاری کا معاملہ کابل اسلام آباد کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھاتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورۂ کابل کے دوران بھی یہ نکتہ خصوصی موضوع رہا۔ اس عرصے میں بلوچ، پشتون رہنما کابل سے گلے شکوے بھی کرتے، اور مزید مدد طلب کرتے۔ ایوب خان اچکزئی 1950ء کی دہائی میں پشتونستان تحریک کے لیے افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ وہ کہتے رہتے کہ وہ بڑے اور چھوٹے اعلیٰ حضرت تک سب کو آز ما چکے ہیں۔ وہ کابل حکومت سے نالاں رہے۔ اُن کی اِن باتوں کے کئی راوی ہیں۔ بلوچستان کے معروف دانشور اور مصنف عزیز لونی بھی روایت کرچکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اظہار بلوچ اکابرین بھی کرتے۔ گویا بلوچ، پشتون رہنما مالی امداد و مراعات کے حصول کے معاملے پر کابل سرکار کی غیبت کرتے۔ سردار دائود کے پاکستان سے تعلقات استوار ہوئے تو نہ صرف علیحدگی و شورش کا سلسلہ تھما بلکہ سردار دائود نے انہیں مزید خرابیاں پیدا نہ کرنے کی سختی سے تنبیہ کردی۔ یہی وجہ تھی کہ جب 27 اپریل 1978ء کو سردار دائود خان کے خلاف کمیونسٹوں نے فوجی بغاوت کرکے انہیں اہل و عیال سمیت قتل کردیا تو خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون قوم پرست حلقوں نے بھنگڑے ڈالے، رقص و سرود کی محفلیں سجائیں۔ ضیاء الحق نے حکمت سے بلوچ، پشتون رہنمائوں کو رام کیا، مراعات دیں، نوازشات کیں۔ اس طرح لمبا عرصہ بلوچستان میں سکوت و سکون رہا۔
افغانستان سے روسی قبضے کے خاتمے اور ماسکو کی مسلط کی ہوئی حکومت کے انہدام کے بعد مری بلوچ حکومتِ پاکستان اور حزبِ اسلامی کی مدد سے کوئٹہ پہنچائے گئے۔ یہ 1990ء کی دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا۔ نواب خیر بخش مری اور ان کے بیٹے بھی واپس آگئے۔ نواب مری کے بیٹوں نے انتخابات میں حصہ لیا، کامیاب ہوئے، وزارتیں لیں۔
عام تصور یہ ہے کہ بلوچستان میں حالات پرویزمشرف دور میں خراب ہوئے۔ یقیناً یہ بات درست ہے، مگر شورش بپا کرنے کے تار و پود جوڑنے کا آغاز نواب مری کی واپسی کے بعد پھر سے ہوا تھا۔ اسٹڈی سرکل ہوتے، گوریلا جنگ کا سبق پڑھایا جاتا۔ دیواروں پر گوریلا جنگ و مزاحمتی جملے لکھنا شروع کیے گئے۔ 1990ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اکا دکا واقعات رونما ہونا شروع ہوئے، راکٹ داغا جاتا، گاہے بم دھماکا ہوتا۔ جنرل پرویزمشرف کی آمریت کے بعد لاوا مزید پکنا شروع ہوا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں نواب زادہ بالاچ مری بھی کامیاب ہوئے، لیکن حلف اٹھانے کے بعد وہ اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ 8 اکتوبر2001ء کو پرویزمشرف رجیم کے تعاون سے امریکی اور نیٹو افواج نے حملہ کرکے افغانستان پر قبضہ کرلیا تو بھارت پوری طرح افغانستان میں داخل ہوا، اور پاکستان بے دخل کردیا گیا۔ چناں چہ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد بالاچ مری نے بلوچستان کے ضلع کوہلو، کوئٹہ کے نواحی علاقوں مارواڑ، ڈیگاری اور ضلع کچھی وغیرہ میں ’’پراری کیمپ‘‘ قائم کردیے۔ ’’پراری‘‘ بلوچی زبان کا لفظ ہے، یعنی وہ لوگ جن کی بات یا شکایت سنی نہ جاتی ہو۔ اس تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ ان مختلف کیمپوں کی موزنیت یا تزویراتی اہمیت دیکھنے کے لیے غیر ملکی افغانستان کے اندر سے بلوچستان میں داخل ہوئے تھے۔ چناں چہ سبوتاژ کی کارروائیاں تیز ہوئیں۔ بالاچ مری پہاڑوں میں قیادت کرتے رہے۔ بعد میں افغانستان کے علاقے ’’سرلٹ‘‘ منتقل ہوگئے۔ بالاچ مری کا انتقال بھی افغانستان میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ چناں چہ تباہ کاریان بڑھتی گئیں۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد روز مارے جاتے۔ کسی بھی شعبے سے وابستہ دوسرے صوبوں کے لوگ نہ بخشے گئے۔ سرخیل مسلح تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) تھی، جس کی داغ بیل 1970ء کی دہائی میں ڈالی گئی تھی۔ بالاچ مری کی وفات کے بعد قیادت چھوٹے بھائی حیربیار مری نے سنبھالی۔ وہ پہلے ہی دبئی منتقل ہوگئے تھے۔ رفتہ رفتہ مزید مسلح گروہ بنتے گئے۔ ان تنظیموں کو بلوچ سیاسی جماعتوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ ان پر بھی آفت نازل ہوئی۔ بہت دیر کے بعد بعض جماعتوں کو جن میں نیشنل پارٹی بھی شامل ہے، اس پیچیدگی کا احساس ہوا۔ سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل نے لشکرِ بلوچستان کے نام سے تنظیم تشکیل دی جو دراصل اپنے تحفظ کے لیے بنائی گئی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ذومعنی سیاست کی حامل ہے۔ حقِ خودارادیت اس جماعت کا مطالبہ ہے، جس میں علیحدگی اور پُرتشدد سیاست کی صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ بھارت، کابل کا اسٹیج آزادانہ ان تنظیموں کے ذریعے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ ’را‘ اور ’این ڈی ایس‘ نے جماعت الاحرار، حزب الاحرار، پاکستانی طالبان، داعش، لشکر جھنگوی وغیرہ تک بھی رسائی حاصل کرلی، چونکہ پشتون زلمئی جیسی مسلح تنظیم کی ناکامی پیش نظر تھی۔ دوئم تباہی و بربادی کے لیے تو ویسے ہی فاٹا کے دہشت گرد گروہ موجود تھے، چناں چہ پشتون خطے میں ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ کی بِنا ڈالی گئی، جس کے ذریعے سیاسی واویلا اور دروغ گوئی کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکی قبضے کے ان بیس سالوں میں کابل کے دورے ہوتے رہے۔ اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی، محسن داوڑ،علی وزیر اوردوسروں کا جانا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے، حیرت ہے کہ قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد شیرپائو بھی ان کے دوش بدوش ہوتے! حالاں کہ ساٹھ اور ستّر کی دہائی کی افغان حکومت کی سیاست و پالیسیاں امریکی و بھارتی غلبے کے قدرے مشابہ تھیں۔ پشتونستان تحریک کی مسلح تنظیم ’’ پشتون زلمئی ‘‘نے آفتاب احمد شیر پائو کے بھائی حیات شیر پائو کو 8فروری1975ء کو پشاور یو نیورسٹی میں بم حملے میں قتل کردیا تھا جو یونیورسٹی میں طلبہ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
غرض بلوچستان کے اندر اس پانچویں شورش کے اوائل میں بلوچستان کے صنعتی شہر حب اور گوادر میں چین کے ماہرین نشانہ بنائے گئے۔ بی ایل اے کے اسلم اچھو دھڑے نے خودکش حملوں کی حکمت عملی اپنائی۔ افغانستان میں حالات وسیاست کا دھارا بدلنے کے بعد بھی بلوچستان میں تخریب و دہشت گردی کے واقعات میں ٹھیرائو نہیں آیا ہے۔اس دھڑے نے 6اگست کو گوادر میں چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ کرایا جس میں تین بچے جاں بحق، ایک چینی باشندہ اور ایک مزدور زخمی ہوا۔ پھر بسیمہ میں سڑک کنارے نصب بم دھماکا ہوا جس میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کیپٹن کاشف اور مستونگ کا رہائشی سپاہی جاں بحق ہوئے۔
افغانستان کامل امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کابل کے اندر سیمنٹ کی حفاظتی رکاوٹیں ہٹادی گئی ہیں۔ داعش وغیرہ کا صفایا کرنے کے لیے عسکری منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ کی ہدایت پر تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا ہے جو پاکستان کے خلاف افغانستان کے اندر موجود مذہبی گروہوں کے حملوں کی تحقیقات کرے گا۔ سردست انہیں پُرامن رہنے کی ہدایت کی جا چکی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے والی تنظیموں کا داعش کے ساتھ بھی اشتراک رہا ہے جنہوں نے پاکستان میں مقیم افغان رہنمائوں پر حملے کیے۔ مولوی ہبتہ اللہ کے بھائی حمداللہ اخوندزادہ این ڈی ایس کے ساتھ مل کر کچلاک میں جمعہ کے خطبے کے دوران بم دھماکے کے ذریعے قتل کردیے گئے۔ البتہ ایران کا معاملہ مبہم ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے بلوچ جلا وطن رہنمائوں کے بارے میں مصالحتی عمل سے متعلق سناٹا ہے اورغیر سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال آئندہ عام انتخابات میں نئے تجربات ہوں گے، اور صوبے کے اُن افراد کے بجائے جو سیاسی موسم کے ساتھ وابستگی بدلتے رہتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو آنے دیا جائے گا تو اس کے صوبے کی سیاست و حالات پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔