متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں،سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر چیف جسٹس کی زیر صدارت تیرہ رکنی فل کورٹ بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس عائشہ ملک نے دوران سماعت کہاکہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے ، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اُصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے ؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے ؟ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دے دے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں کہ پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دے گی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائرڈ ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی ٹریٹ کیاگیاتھا، تمام سیٹیں بانٹ دی گئی تھیں، ؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال ہی یہ ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، تحریک انصاف تو سنی اتحاد کو سپورٹ کررہے ، کیس ہمارا سنی اتحاد کا ہے ، تحریک انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں، میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے سپریم کورٹ کے بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر کنفیوژ کیا جارہا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے بلے کے نشان پر نہیں سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں بھی ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جمہوریت لے آئے ہیں ۔ چیف جسٹس نے ریما رکس میں کہا مجھے پہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریک انصاف کیوں نہیں سامنے آرہی، پی ٹی آئی کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا، خریدنا تو ضروری ہے نا،اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے ۔ جسٹس منیب اختر نے ریما رکس میں کہا پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا۔ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے ریما رکس میں کہا ، الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، اس مؤقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا،، ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل تریسٹھ اے لاگو ہوگا۔ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلریشن دے کر دوسری میں چلا جائے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں،الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفکیشن کے تین روز بعد وہ کسی اور جماعت میں شامل ہوجائے ۔ جسٹس اطہر امن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے ،،حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں،مسئلہ الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے ، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی،اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟اس وقت سب سے اہم درخواست آٹھ فروری کے الیکشن میں دھاندلی کی ہے ،لاپتہ افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں،یہ سب سیاستی مقدمات نہیں،ہم نے بطور سپریم کورٹ سر ریت میں دبا لئے ہیں ،ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا۔ جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے دوسال پہلے حکومت میں رہنے والی بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا،الیکشن کمیشن کوئی اور نشان دے کر کہہ دیتا امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاانتخابی نشان سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے وہ فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن کا تھا،انتخابی نشان کا نہیں، عدالتی فیصلے پر ریمارکس نہیں آنے چاہئیں نظر ثانی زیر سماعت ہے ، سیاسی جماعتوں میں کوئی جمہوریت نہیں چاہتا، صرف بلے کے الیکشن کی بات کی جارہی ہے ، تذکرہ نہیں کرنا چاہتا تھا ،بار بار باتیں کی گئیں۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جمعرات ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔