میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۶ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

ایوان پارلیمان کے اجلاس میں پہلے ہی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے رویہ سے یہ بتا دیا کہ آگے بھی ان کا معاملہ اس مصرع کی مصداق ہوگا ، وہی چال بے ڈھنگی سی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے ۔
وزیر اعظم کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کی پسپائی کے پیچھے آئین دشمن شبیہ کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ اس کلنک کو مٹانے کے لیے انہوں موقع کا فائدہ اٹھا کر ایمرجنسی پر بھاشن دے ڈالا اور 25جون 2024کو اس کی پچاسویں سالگرہ قرار دے دیا حالانکہ 1975 سے ابھی تک صرف 49 سال ہوئے ہیں۔ اب کوئی وزیر اعظم اتنا آسان حساب کتاب بھی کرنے سے قاصر ہو تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ اندرا گاندھی کی علی الاعلان ایمرجنسی نہایت قابلِ مذمت اقدام تھا لیکن اس اکیس ماہ کے مقابلے مودی کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک فرق تو مدت کا ہے مگر دوسرا زیادہ اہم ہے ۔ اعلانیہ ایمرجنسی میں متعینہ حقوق سلب کیے جاتے ہیں لیکن اس کے سوا باقی سب بحال رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں بے لگام من مانی ہوتی ہے ۔ اس کے اندر عمر خالد سے لے کر ارون دھتی رائے اور شیخ شوکت سے سنجیو بھٹ تک سبھی کو غیر معینہ مدت کے لیے لپیٹ لیا جاتا ہے ۔
اپنے خطاب میں آئین کی دہائی دینے والے مودی جی بھول گئے کہ انہوں نے پہلے ہی دن بھرتری ہری مہتاب کو پروٹیم اسپیکر بنا کر دستوری روایات کو پامال کردیا ۔ مہتاب اس سے قبل ٦ مرتبہ بی جے ڈی کے ٹکٹ پرکامیابی حاصل کرنے کے بعد پہلی بار بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور اسی ابن الوقتی نے انہیں پروٹیم اسپیکر بنا دیا۔ ان کے مقابلے ٨ مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والے کانگریس کے رکن پارلیمان کے پرکاش اس اعزاز کے زیادہ مستحق تھے ۔ حزب اختلاف نے بی جے پی کی اس غلطی کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ اس نے متحد ہو کر گاندھی جی کے مجسمہ کے قریب آئین کے ساتھ احتجاج کیا نیز کے پرکاش کے دلت ہونے کا حوالہ دے کر اس حق تلفی کو پورے پسماندہ سماج کی توہین قرار دے دیا۔
وزیر اعظم کے اڑیل رویہ پر وہ مشہور مقولہ یاد آتا ہے جس کو مودی جی کے چہیتے اداکار اکشے کمار نے اپنی فلم ‘سوریہ ونشی’ کے پروموشن میں کہا تھا۔ اکشے نے خود اس کے بارے میں کہا تھا کہ :’بند ر کتنا بھی بوڑھا ہوجائے گلاٹیاں (قلابازیاں)مارنا نہیں بھولتا اور نہ چھوڑتا ہے ‘۔ حالات کی بہت بڑی تبدیلی کے باوجود وزیر اعظم اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے چار سو پار کرلیے ہیں ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ‘نہ ہم ہارے تھے ، نہ ہارے ہیں اور نہ ہاریں گے ‘۔ یہ عجیب معاملہ ہے وزیر اعظم کے اس دعویٰ سے خود سنگھ پریوار کا بھی اتفاق نہیں ہے ۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آر ایس ایس کے سربراہ یعنی سر سنگھ چالک موہن بھاگوت، اندریش کمار اور رتن شاردا کی تنقید کے باوجود مودی جی کی چال ڈھال میں کوئی تبدیلی کیوں نہیں ہو رہی ہے ؟مذکورہ سوال کا جواب موہن بھاگوت کے خطاب میں موجود ہے ۔ موصوف نے ایک تربیتی اجتماع میں کہا تھا کہ ایک ‘سچے سیوک(خادم)’ میں غرور و تکبر نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر کام کرتا ہے ”۔اس جملے کا ہر لفظ وزیر اعظم نریندر مودی کے ایوانِ پارلیمان میں پہلے دن کی کارروائی پر پیشگی تبصرہ تھا ۔سر سنگھ چالک کے تبصرے کو وزیر اعظم نریندر مودی کے دس سال قبل اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے وقت کیے جانے والے مشہور و معروف بیان سے بھی ہے ۔ انہوں نے قومی روایت سے ہٹ کر خود کو پردھان منتری (وز یر اعظم ) نہیں بلکہ پردھان سیوک ( خادمِ اعظم) کے طور پر متعارف کیا تھا ۔ اب چونکہ وہی خادم گھمنڈ میں مبتلا ہوکرخود کو خدا سمجھنے لگا ہے اس لیے اسے یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ بھیا اصلی سیوک کی تعریف کیا ہے یا وہ کون ہوتا ہے ؟ موہن بھاگوت نے بلا واسطہ گویا یہ اعلان کردیا کہ مودی جی اصلی سنگھ سیوک نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اقتدار کے حصول کی خاطر سنگھ کا چولا اوڑھ رکھا ہے ۔ اس لیے موہن بھاگوت کے مطابق وہ حقیقی سیوک نہیں بلکہ جعلی خادم ہیں۔ ایک زمانے میں اڈوانی نے اپنے مخالفین کے لیے جعلی(pseudo) سیکولر کی اصطلاح وضع کی تھی اب موہن بھاگوت نے گویا جعلی سیوک کی اصطلاح ایجاد کی ہے جو من و عن وزیر اعظم نریندر مودی پر صادق آتی ہے ۔ موہن بھاگوت کے مطابق ایسے انسان کو سچا سیوک کہلانے کا حق ہی نہیں ہے ۔
وزیر اعظم مودی میں یہ خرابی تو دس سال قبل اس وقت ظاہر ہوگئی تھی کہ جب انہوں نے دس لاکھ کا کوٹ پہن لیا تھا اور اپنے لیے ٨ ہزار کروڈ کا جہاز منگوایا تھا۔ موہن بھاگوت اگر اسی وقت اصلاح کی کوشش کرتے تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔ انہیں یہ نہیں بتانا پڑتا کہ ‘جو حقیقی خادم ہے ، جسے حقیقی خادم کہا جاسکتا ہے وہ حدود و قیود کا پاس و لحاظ کرتا ہے ۔ وہ وقار کے ساتھ کام تو کرتا ہے مگر اس میں ملوث نہیں ہوتا(یعنی الگ تھلگ رہتا ہے )’ ۔ وزیر اعظم اور ان کے حواری ایک زمانے میں اپنے وقار کو پامال کرتے ہوئے شتر بے مہار تو کیا بگڑے ہوئے سانڈ کی مانند جو منہ میں آئے بک رہے تھے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انٹرویو کے اندر ان کی مسلمانوں سے محبت کا اظہار اور عوام جلسوں میں ان پر نفرت کی بوچھار سے ہوتا تھا ۔ حال میں ا ختتام پزیر ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران انتخابی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے اسر سنگھ چالک نے کہا کہ یہ الیکشن ایسے لڑا گیا جیسے کوئی جنگ ہو۔ جس طرح سے معاملات ہوئے ہیں، جس طرح سے دونوں فریقوں نے کمر کس کر حملہ کیا ہے ، اس سے تفرقہ پیدا ہوگا، معاشرتی اور ذہنی دراڑیں بڑھیں گی’۔
یہ کوئی مستقبل میں وقع پذیر ہونے والی شئے نہیں ہے بلکہ ماضی قریب کا واقعہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ سب کھلے عام ہورہا تھا تو پورا سنگھ پریوار خاموش تماشائی بنا ہوا تھا بلکہ پسِ پردہ اس کی حمایت کررہا تھا۔ ایک مرتبہ بھی اس نے روک ٹوک کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس بار بی جے پی کو چار سو پار تو دور معمولی اکثریت بھی مل جاتی تو سنگھ والے اس کا کریڈٹ لینے کے لیے کمر کس لیتے لیکن چونکہ ناکامی ہاتھ آئی اس لیے دوری بناکر پروچن (پندو نصیحت) جھاڑ رہے ہیں۔ بھاگوت نے یہ بھی کہا، ‘جب انتخابات ہوتے ہیں تو مقابلہ ضروری ہوتا ہے ، اس دوران دوسروں کو پیچھے دھکیلنا پڑتا ہے ، لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے ‘۔ سوال یہ ہے کہ مخالفین کو جیل کی سلاخوں پر بھیج کر یا بنک اکاونٹ منجمد کرکے ان حدود کو پامال کرنے والی اپنی بگڑیل اولاد کو انہوں نے روکا کیوں نہیں؟ بھاگوت کو اب جاکر خیال آیا کہ ”انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے ۔ اس انتخابی مہم کے دوران ‘اخلاقی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔’ سوال یہ ہے کہ اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت ۔
موہن بھاگوت انتخابی عمل کی غرض و غایت پر استفہامیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ لوگ کیوں منتخب کیے جاتے ہیں؟ اور پھر جواب دیتے ہیں کہ مختلف معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایوانِ پارلیمان میں نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق ” ہماری روایت اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے ”۔یہ بات اس لیے یاد دلائی جارہی ہے کیونکہ مودی جی ایک ایسے سخت گیر آمر میں تبدیل ہوچکے ہیں ، جو کسی کی نہیں سنتا بلکہ اپنی من مانی کرتا رہتاہے ۔ ایسے میں یہ نصیحت وزیر اعظم کے لیے ہے کہ ‘اختلاف رائے کو مخالفت کہنا بند کیجیے ‘۔بھاگوت نے اپنے خطاب میں یہ سوال بھی کیا کہ ”پارلیمنٹ میں دو پارٹیاں کیوں ہوتی ہیں؟ تاکہ کسی بھی مسئلے کے دونوں پہلو سامنے رکھے جا سکیں”۔ کاش کہ بھاگوت یہ نصیحت اس وقت کرتے جب ایوان پارلیمان میں حزب اختلاف کے مائیک بند کردئیے جاتے تھے ۔ یکلخت ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمان کو معطل کردیا جاتا تھا اور اڈانی کو بچانے کی خاطر راہل گاندھی و مہوا موئترا جیسے رہنماوں کی رکنیت چھین لی گئی تھی۔ اب جبکہ سانپ گزر چکا ہے لکیر پیٹنے سے کیا حاصل ؟ سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اپنی جانبداری سے اپنا اخلاقی مقام گنوا چکا ہے ۔
آر ایس ایس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دس سالہ طویل پراسرار خاموشی کا بندبالآخر اس وقت ٹوٹا جب پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ ہندوستانی سیاست کے مزاج میں واقع ہونے والی موجودہ تبدیلیوں کے تناظر میں سر سنگھ چالک کا تبصرہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے اپنی نصیحت ( پروچن ) کے لیے وزارتوں کے تقسیم کے دن (10 جون) کا انتخاب کیا اور سمجھانے بجھانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن اس کے دو ہفتہ بعد ایوان پارلیمان کے پہلے ہی دن یہ پول کھول دیا کہ سنگھ کی ساری کوششیں رائیگاں ہوچکی ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنا ایک شعر پروٹیم اسپیکر کے ہم نام دانشور بھرتری ہری سے منسوب کیا ہے ۔ وہ شعر وزیر اعظم پر پوری طرح صادق آتا ہے
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں