میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میٹروپولیٹن سٹی میگا مویشی منڈی سٹی میں تبدیل

میٹروپولیٹن سٹی میگا مویشی منڈی سٹی میں تبدیل

ویب ڈیسک
پیر, ۲۶ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

کراچی(رپورٹ: جوہر مجید شاہ)میٹروپولیٹن سٹی میگا منڈی مویشی سٹی میں تبدیل تمام نو مولود ٹاؤنز کے گلی کوچوں سڑکوں فٹ پاتھوں کو منی مویشی منڈیوں میں تبدیل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے شہر بھر میں ناردرن بائی پاس کی میگا منڈی کیساتھ 7نئی منڈیوں کی باضابط طور پر منظوری دی تھی، جو کہ ہر سال کی طرح محض روایتی رسمی اور خانہ پری کے طور پر دی جاتی ہے، وجہ خود کو عدالتی زد میں آنے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کیساتھ جاری کردہ نوٹیفکیشن کو آڑ بنا کر لوٹ مار کا بازار گرم کرنا ہوتا ہے، مزکورہ نوٹیفکیشن کے ذریعے اس 20روزہ سیزن میں کروڑوں کا غیرقانونی دھندا کرنا بھی مقصود ہوتا ہے، غیرقانونی مویشی منڈی کے نام پر رشوت و بھتہ خوری کا کھلا بازار شہر و ملک بھر میں چلایا جاتا ہے۔ ادھر ایک سروے رپورٹ میں نجم نامی بیوپاری نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ ہوشربا مہنگائی نے انسان سے سانس کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنادیا اپنی مختصر گفتگو میں اس نے نمائندہ جرأت کو بتایا کہ فی من گوشت بھی لگ بھگ 4تا 5 ہزار روپے اضافہ ہوگیا ہے، گوشت میں اضافہ شدید مہنگائی کا سبب بنا جو ٹرک محض کرایہ کی مد میں 80ہزار میں بک کیا جاتا تھا اس میں روڈ و دیگر ٹیکس،محصولات جو کہ سرکار کا حق ہیں وہ شامل نہیںآج وہی ٹرک 1لاکھ 20 ہزار تک جا پہنچا، چارہ و دیگر اشیا میں بھی دگنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ اسی طرح کے معاملات نے بیوپاریوں کو بھی بے بس کردیا۔ آج سے قبل بیوپاری و گاہک دونوں کہیں کم کہیں زیادہ پر راضی تھے، اب تو دونوں ہی مہنگائی کے ہاتھوں زچ و پس کر رہ گئے ہیں ہوشربا و کمر توڑ مہنگائی نے اس مرتبہ سنت ابراہیمی علیہ السلام جیسے مقدس و متبرک عمل کو بھی متاثر کیا ہے، جو لوگ پوری گائے خرید کرتے تھے وہ حصے لینے پر مجبور ہیں، اس مرتبہ گزشتہ سال کی نسبت قربانی میں واضح کمی دیکھی جارہی ہے۔ قربانی کے حوالے سے یاد رہے کہ شہر کراچی میں لگ بھگ 3یا 4دھائیوں قبل مویشی منڈی کا کوئی منظم و مربوط نیٹ ورک قائم نہیں تھا۔ شہری مویشیوں کی خریداری کیلئے قریبی علاقوں میں قائم باڑوںیا قریبی نزدیکی گوٹھوں یا پھر چلتے پھرتے جانوروں کو لیکر فروخت کیلئے لانے والوں سے براہ راست خرید لیتے باقاعدہ منڈی کا مربوط نیٹ ورک قائم ہوئے تقریباً لگ بھگ 30سال یا اس سے کچھ زائد کا عرصہ ہوا ہے۔یاد رہے کہ جانوروں ،مویشیوںکا شعبہ قانونی طور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام رہا ہے اور آج بھی مزکورہ شعبہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام ہے، مگر شہر بھر سے ان منڈیوں و چارہ فروخت کرنے والوں سے لاکھوں،کروڑوں بھتہ و رشوت وصولیوں کا ٹھیکہ مختلف ٹاؤنز و سندھ سرکار کے کمشنریٹ سسٹم نے غیرقانونی طور پر سنبھال رکھا ہے، جو کہ کے ایم سی کے ریونیو آمدنی پر بڑا ڈاکہ ہے، میگا سٹی کی میگا منڈی سہراب گوٹھ ہوا کرتی تھی یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس میگاسٹی کی میگا منڈی کو ناردرن بائی پاس منتقل کیا گیا ہے، مزکورہ منڈی عید قرباں میں شہر اور شہریوں کیلئے سب سے بڑی منڈی ہے جہاں ہزاروں جانور روزانہ لائے جاتے اور ابھی بھی لائے جارہے ہیں۔ ناردرن بائی پاس منڈی کے حوالے سے شروع میں مایوس کن خبریں آتی رہی جن میں لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے معاملات جو کہ زیادہ تر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر رپورٹ ہوئے، جبکہ اکا دکا واقعات متعلقہ تھانہ میں بھی رپورٹ ہوئے، مزکورہ واقعات شہر اور شہریوں کیلئے شدید تشویش کا باعث بھی تھے۔ واضح رہے کہ شہر کراچی ملک کا تجارتی حب اور ریونیو انجن ہے بالکل اسی طرح ناردرن بائی پاس منڈی بھی اربوں کا بزنس و ٹیکس وصولی کا ذریعہ ہے۔ دوسری طرف شہر میں سارا سال لگنے والی ملیر منڈی بھی اہمیت کی حامل ہے بہرحال ناردرن بائی پاس منڈی کے رپورٹ ہونے والے معاملات پر اعلیٰ سطح پر ایکشن ہوا اور حکومت نے روایتی سستی کو چھوڑ کر فوکس منڈی کو کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کردیا گیا۔ حفاظتی اداروں نے منڈی کے داخلی و خارجی راستوں کیساتھ درمیانی راستوں پر بھی اپنا نیٹ ورک قائم کردیا اور آج شہر اور شہری بڑی تعداد میں ناردرن بائی پاس منڈی کا رخ کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ سنت ابراہیمی علیہ السلام کے موقع پر ملک بھر میں کھربوں کا بزنس اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہونے کے ساتھ وفاقی صوبائی اور شہری حکومتوں کو ریونیو آمدنی کی مد میں کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ کراچی شہر میں ملک کے دور دراز علاقوں کے علاہ برادر اسلامی ملک افغانستان ،ایران اور بھارت سے بھی جانور لائے جاتے ہیں۔ شہر بھر میں اندرون سندھ گاؤں دیہات گوٹھوں کے علاہ پنجاب بلوچستان سے بھی کثیر تعداد میں جانور لائے جاتے ہیں۔ ان میں مختلف اقسام کے نایاب نسل کے بکرے بیل اونٹ گائے بچھڑے بچھیا آسٹریلین لمبے دراز قد والے بیل و دیگر جانور بھی شامل ہیں اس کار خیر سنت ابراہیمی علیہ السلام کے سبب اربوں کھربوں کا ریونیو جنریٹ ہوتا ہے اس پورے نظام کا باقاعدہ فائدہ وفاقی صوبائی و شہری حکومتوں کو ہوتا ہے، ان قربانی کے جانوروں مویشیوں کی منتقلی کا بڑا سبب سڑکیں بنتی ہیں جن پر بذریعہ ٹرک سوزوکی ہائی لکس ٹرالے یہ جانور ایک صوبے و شہر سے دوسرے علاقوں میں منتقل کئے جاتے ہیں سڑکوں کے استعمال سے سرکار کو ٹول ٹیکسکی مد میں محض ایک ماہ میں کروڑوں کا اضافی ریونیو میسر آتا ہے، جبکہ چنگی ناکوں سے جانوروں کی فیس وصولی شہری حکومت کی ذمہ داری ہے اس مد میں بھی قلیل مدت میں بلدیات کو کروڑوں کا اضافی ٹیکس ملتا ہے سنت ابراہیمی علیہ السلام بڑی نیکی کیساتھ محصولات اور روزگار کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں