افغان شہریوں کا بڑھتا احساسِ عدم تحفظ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
ڈیوڈ زکینو
ایک ٹیوشن سنٹر میں پڑھنے والے بچوں کو قتل کر دیا گیا، ایک کلب پر خودکش حملے میں کئی اتھلیٹ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، کئی نوزائیدہ بچے اپنی مائوں کے ہاتھوں میں مارے گئے؛ افغانستان کی ایک مظلوم اقلیت کے ان افراد کی بہیمانہ قتل و غارت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وسطی افغانستان کے رہنے والے ایک ہزارہ لیڈر ذوالفقار امید کے لیے اب مزید ظلم برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔ اپریل میں امید نے اپنی ملیشیا میں شامل مسلح افراد کو متحرک کرنا شروع کر دیا کہ وہ قبیلے کے لوگوں کو طالبان اور داعش کے حملوں سے بچانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس نے بتایا کہ اب میں 800 مسلح افراد کی کمان کر رہا ہوں جو ملک کے سات مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں ’’خود حفاظتی گروپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ امید نے بتایا کہ ’’لوگوں کو عام طور پر شہروں یا شاہراہوں پر قتل کیا جاتا ہے مگر حکومت ان کی حفاظت نہیں کرتی۔ بس‘ بہت ہو چکا! اب ہمیں اپنا دفاع خود کرنا ہے‘‘۔ چونکہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے جانے والی ہیں اور امریکی پشت پناہی سے بننے والی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اس لیے پورے افغانستان میں بسنے والی اقلیتوں نے اپنی اپنی ملیشیاز بنا لی ہیں یا اپنی حفاظت کے لیے خود کو مسلح کرنا شرو ع کر دیا ہے۔ جس طرح جنگجو تیار کیے جا رہے اور اسلحہ جمع کیا جا رہا ہے اس سے 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے مجاہدین کی بھرتی کے مناظر یاد اا رہے ہیں جب متحارب ملیشیاز نے ہزاروں سویلینز کو قتل کر دیا تھا اور کابل کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔
ایک مشترکہ اور پْرعزم ملیشیا تحریک‘ خواہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کی حمایت سے ہی کیوں نہ بنی ہو‘ صدر اشرف غنی کی کمزور حکومت کو ختم کر سکتی ہے اور یہ روش ملک کو چھوٹی چھوٹی جاگیروں میں تقسیم کر دے گی اور ہر جگہ جنگجو سرداروں کی حکمرانی ہو گی؛ تاہم یہ عارضی مسلح فورسز آخری دفاعی لائن کا کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ طالبان کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز کے مورچے اور فوجی چوکیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ جب سے اپریل میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان ہوا ہے‘ علاقائی مقتدر لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز لگانا شروع کر دی ہیں جن میں اسلحہ لہراتے مسلح لوگوں کو طالبان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نعرے لگاتے دکھایا گیا ہے۔ بعض ملیشیا لیڈرز کو خدشہ ہے کہ قطر میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات غیر ملکی افواج کے نکلتے ہی ختم ہو جائیں گے اور طالبان صوبائی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کرنے کے لیے ایک شدید حملہ کریں گے تاکہ اس کے بعد کابل کا محاصرہ کیا جا سکے۔4 جون کو کابل کے ایک ریسرچ گروپ‘ افغانستان اینلسٹس نیٹ ورک نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے ’’20 سال میں پہلی دفعہ یہ ہوا ہے کہ پاور بروکرز سر عام مسلح افراد کو متحرک کرنے کی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔ طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کا سب سے زیادہ خوف نسلی قبیلوں کو ہے کیونکہ ماضی میں بھی طالبان دورِ حکومت میں ان گروپوں کے افراد سب سے زیادہ غیر محفوظ تھے۔
اس قبیلے کے اہم ترین کمانڈر کا نام عبدالغنی علی پور ہے جس کی ملیشیا کا صوبہ وردک میں سرکاری فوج کے ساتھ مسلح تصادم ہوا تھا۔ اس پہاڑی صوبے کی سرحدیں کابل کے ساتھ ملتی ہیں۔ عبدالغنی علی پور کو مارچ میں ایک ہیلی کاپٹر گرانے کے واقعے میں ملوث کیا گیا تھا۔ ایک انٹرویو میں اس نے ایسے کسی واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی مگر ایک افغان مشیر کے مطابق‘ یہ ہیلی کاپٹر علی پور کی ملیشیا کے مسلح لوگوں نے ہی مار گرایا تھا۔ عبدالغنی علی پور کا کہنا ہے ’’اگر ہم کھڑے نہیں ہوتے اور اپنا دفاع نہیں کرتے تو تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی اور ہمیں عبدالرحمن خان کے دور کی طرح قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ عبدالغنی علی پور کا اشارہ مردِ آہن کے طور پر معروف پشتون حکمران کی طرف تھا جس نے انیسویں صدی کے آخر میں افغانستان پر حکومت کی تھی اور اس کے دور حکومت میں ان قبائل کا قتل عام ہوا تھا۔ افغان لوک داستانوں میں بتایا جاتا ہے کہ ا س نے لوگوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے تھے۔ علی پور نے افغان حکومت کے بارے میں کہا کہ وہ اپنے قبیلے کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ’’اس نے ہی ہمیں بندوقیں اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ ہمیں اپنی جانوں کا دفاع کرنے کے لیے لازمی بندوقیں اٹھانی چاہئیں‘‘۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران ان لوگوں نے مغربی کابل میں اور وسطی افغانستان کے پہاڑوں کے دامن میں اپنی کئی بستیاں تعمیر کی ہیں مگر اپنے جان و مال کے دفاع کے لیے کوئی ملیشیا نہیں بنائی اس لیے انہیں ہر وقت مخالفین کے حملوں کا خوف رہتا ہے۔
8 مئی کو جب کابل میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں سکول کی 69 بچیاں شہید ہوئی تھیں‘ اس وقت سے اس قبیلے کا پْرزور مطالبہ ہے کہ ان کے علاقے میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اس حملے کے بعد تین مہینے سے بھی کم عرصے میں کابل میں پبلک ٹرانسپورٹ کی تین منی ویگنوںکو بم دھماکوں میں اڑا دیا گیا جن میں 18 شہری جاں بحق ہوئے، مرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ پولیس نے مجھے بتایا کہ ان مرنے والوں میں ایک صحافی اور اس کی والدہ بھی شامل تھے۔ نیویارک ٹائمز کے اعداد وشمار کے مطابق 2016ء سے صرف کابل میں اس قبیلے پر 23 حملے ہو چکے ہیں جن میں کم از کم 766 لوگ جاں بحق ہوئے۔
پارلیمنٹ کے ایک رکن عارف رحمن کا کہنا ہے کہ ’’تاجک لوگوں کے پاس اسلحہ ہے، پشتون بھی مسلح ہیں۔ ہم لوگوں کے پاس بھی اپنے دفاع کا انتظام ہونا چاہئے‘‘۔ ایک اور رکن پارلیمنٹ مہدی راسخ کہتے ہیں کہ میری گنتی کے مطابق حالیہ برسوں میں ہماری کمیونٹی کے خلاف 35 بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ یہ کھلی نسل کشی ہے۔ حکومت ہمارے قبیلے کی مساجد، سکولوں اور سوشل سنٹرز کے دفاع کے اتنے وعدے کر چکی ہے کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ مہدی راسخ کہتے ہیں کہ اگر یہ ہمارا دفاع نہیں کر سکتے تو دیانتداری سے اس کا اعتراف کریں۔ ہمارے قبیلے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت ہماری جانوں کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی‘ لہذٰا اب ہمارے لوگوں کو خود بندوقیں اٹھانی ہیں اور اپنے قبیلے کا دفاع کرنے کے لیے لڑنا ہے۔ ہمارے فوجی، پولیس کے سپاہی اور انٹیلی جنس افسر اپنی ملازمتیں خود چھوڑ گئے ہیں یا انہیں سکیورٹی فورسز کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے کیونکہ انہیں نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے
بہت سے ہزارہ سیاستدانوں نے جن میں صدر اشرف غنی کے دوسرے نائب صدر سروردانش بھی شامل ہیں‘ حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ لسانی گروہوں کی نسل کشی رو کی جائے۔سینکڑوں لوگوں نے ٹویٹرپراس نسل کشی کو روکنے اور تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں ان قبائل کے لوگوں کو متحرک کیا جارہاہے وہیں ابھی تک اْن تاجک اور ازبک ملیشیاز کو بھی ختم نہیں کیا گیا جنہوں نے 2001ئ میں طالبان کی حکومت ختم کرنے میں امریکا کی مدد کی تھی۔اب جبکہ طالبان نے سرکاری اڈوں اور چیک پوسٹوں پر قبضہ کرنا شرو ع کر دیا ہے تو دیگر نسلی گروپس کے کمانڈرز نے بھی اپنی اپنی ملیشیاز بنانا شروع کر دی ہیں۔ بہت سے پاور بروکرز نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ زور ا?زمائی شروع کر دی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ وہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ علاقوں پرکنٹرول حاصل کر لیں۔ قومی سطح پرجس اہم لیڈر نے اپنی ملیشیا بنائی ہے وہ شمالی اتحاد کے نامور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے 32سالہ بیٹے احمد مسعود ہیں‘ جنہوں نے طالبان حکومت کے خاتمے میں امریکا کی اعانت کی تھی۔احمد مسعود نے شمالی افغانستان میں ملیشیاز کا ایک اتحاد قائم کیا ہے۔احمد مسعود‘ جنہوں نے اپنی تحریک کو’’ مزاحمتِ ثانی ‘‘کا نام دیا ہے‘ کو ہزاروں فائٹرز اور چند اْن پرانے کمانڈرز کا تعاون حاصل ہے جو طالبان اور سوویت یونین کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ بعض افغان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ احمد مسعود اتنے تجربہ کار نہیں ہیں کہ کسی مسلح تحریک کی قیاد ت کر سکیں مگر کئی مغربی ممالک کے رہنما انہیں افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دیگر علاقوں میں ان تمام رہنمائوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے جو 1990ء کی دہائی میں افغان جنگ آزادی میں شامل رہے ہیں مگر ان کی فورسز اس وقت اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ان سب کے کوائف کی جانچ پڑتا ل کی جارہی ہے۔ مشہور مگر انتہائی ظالم ازبک کمانڈر عبدالرشید دوستم ابھی تک جوزجان صوبے میں واقع اپنے گڑھ میں ہزاروں جنگجوئوں پر مشتمل ایک لشکر قائم رکھے ہوئے ہیں۔جنرل عبدالرشید دوستم‘ جن پرجنگی جرائم کے سنگین الزامات ہیں‘ طالبان کے خلاف کسی بھی مسلح تحریک کے مرکزی کمانڈر ہوں گے۔
ایک اور پاور بروکر جن کے اقدامات کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا جا رہا ہے وہ ہیں عطا محمد نو ر‘ جو صوبہ بلخ کے سابق وار لارڈ اور کمانڈر ہیں۔افغانستان کا معرو ف تجارتی مرکز مزار شریف بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔انہوں نے بھی گزشتہ ہفتے یہ بیان دیا ہے کہ وہ ابھی سے حکومت کے ساتھ مل کراپنی ملیشیا تیار کررہے ہیں تاکہ وہ تمام شمالی علاقے واپس لے سکیں جن پر طالبان نے حال ہی میں شدید حملوں کے بعدقبضہ کیا ہے۔ مغرب میں واقع صوبہ ہرات کے ایک سابق تاجک وارلارڈ اورشمالی اتحاد کے ایک اہم کمانڈر محمد اسماعیل خان‘ جنہوں نے طالبان کو شکست دینے میں مدد کی تھی‘ نے حال ہی میں فیس بک پر مسلح افراد کے ایک اجتماع کی تصویر شیئر کی ہے۔اسماعیل خان نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ ہرات میں پانچ لاکھ مسلح افراد آپ کی اور آپ کے شہروں کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔یہ بات اس امر کی طرف صاف اشارہ ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ناکام ہو جاتا ہے تو وہ فوری طو رپر اپنی ملیشیا کو متحرک کر دیں گے۔ہرات میں ہی رہنے والے ایک پشتون کامران علی زئی جو ایک صوبائی کونسل کی قیادت کر تے ہیں‘ نے بتایا ہے کہ وہ مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد کی کمان کر تے ہیں جو ان کے ایک اشارے پر اپنا دفا ع کرنے کے لیے تیارہیں۔کامران علی زئی نے مجھے بتایا کہ میں ا?پ کو یہ تو نہیں بتا سکتا کہ میرے پاس کتنی تعداد میں مسلح افراد موجود ہیں مگر افغانستان میں رہنے والا ہر شخص اسلحے سے لیس ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر سرکاری فورسز ہرات کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئیں تو ہم طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک نے رپورٹ دی ہے کہ ایک سابق ملیشیا کمانڈر اور کابل پولیس کے سابق چیف عبدالباصر سالنگی نے جنوری میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو شمال وسطی افغانستان کے ضلع سالانگ میں ایک بڑی ملیشیا تیار کی جا رہی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جب سے امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا عندیہ دیا ہے‘ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں متواتر رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں۔ جہاں تک ہزارہ قبائل کی ملیشیا کا تعلق ہے تو یہ فاطمیون ڈویڑن کے وہ ہزاروں جنگجو ہیں جنہیں افغانستان کے ایک پڑوسی ملک نے ٹریننگ دی ہے اور انہیں 2014-17ء کے عرصے میں شام میں متعین کیا گیا تھا تاکہ مقدس مقامات کو داعش کے جنگجوئوں سے بچایا جا سکے۔ باقی فائٹر زکو یمن بھیج دیا گیا تھا۔ بہت سے فاطمیون جنگجو واپس افغانستان آچکے ہیں جس سے یہ خدشہ بھی بڑھ گیاہے کہ اس طرح پڑوسی ملک کو افغانستان کے اندر ایک پراکسی فورس مہیا ہو جائے گی مگر تجزیہ کار اور قبائلی رہنمائوں کا موقف ہے کہ فاطمیون جنگجوئوں کوپڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات اور افغان حکومت کی پراسیکیوشن کی وجہ سے واپس کر دیا گیا ہے۔ کابل میں رہنے والے قبیلے کے نوجوان کہتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ایک دکاندار محمد‘ جو بہت سے افغان نوجوانوں کی طرح اپنے ایک ہی نام سے معروف ہے‘ نے بتایا کہ جب 8مئی کو سید الشہدا ہائی ا سکول میں خودکش دھماکا ہوا تھا اوروہ زخمیوں کو بچانے کے لیے اپنی دکان سے بھاگا تھا تو اسے خون کا ایک دریا پار کر نا پڑا تھا۔ا س سکول کی بچیاں جونہی اپنے گھروں کو جانے کے لیے نکلیں تو دھماکا ہوگیا اور درجنوں بچیاں اس حملے میں اپنی زندگی سے محروم ہو گئی تھیں۔اس نے بتا یاکہ میری عمر اس وقت 24سال ہے اور میری زندگی میں ہمارے قبیلے پر 24 حملے ہو چکے ہیں۔اس نے مزید بتایا کہ مئی 2020ء میں وہ اپنی حاملہ ماں سے ملنے کے لیے گیا تو ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ پر حملہ ہو گیا جس میں حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے 15لوگوں کو قتل کر دیا جن میں کئی نوزائیدہ بچے بھی شامل تھے۔ محمد نے مزید بتایا کہ اس کے بہت سے دوست حال ہی میں کامران علی زئی اور ذوالفقار امید کی ملیشیاز میں شامل ہوئے ہیں۔اگر یہی حالا ت جاری رہے تو میں بھی بندوق اٹھا لوں گا اور جو ہمیں قتل کرے گا میں اسے قتل کر دوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔