
بھارت میں گائے ذبحیہ پر خدشات
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ سے کسی نے ہندوستان میں گائے کی قربانی کے بارے میں سوال کیا تھا۔ سید ابوالاعلی مودودی نے اس سوال کا ایسا جواب دیا تھا جسے پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ یہ جواب انہوں نے پاکستان میں بیٹھ کر نہیں دیا تھا بلکہ یہ جواب 1945 میں دیا تھا اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا۔
سید ابوالاعلی مودودی نے ہندوستان میں گائے کی قربانی کے سوال پر کہا ” جس ملک میں گائے کی پوجا نہ کی جاتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا عقیدہ بھی پایا نہ جاتا ہو وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو وہاں تو گائے قربانی کرنے کا حکم ہے جیسے کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کر دیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گائے پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہو جائیں گے۔اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا۔ کہ اشربو فی قلوبھم العجل پھر اسی ماحول میں جو ہندوؤں اسلام قبول کریں گے، وہ چاہے اسلام کے دوسرے عقائد قبول کر لیں لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اس لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی میں واجب سمجھتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندؤ کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھائے "۔ سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللّٰہ ایک ایسے عالم تھے جنہوں نے دین کے معاملے میں کبھی بھی کسی مصلحت سے کام نہیں لیا ہے۔ انہوں نے ہر قسم آمیزش اور آلائشوں سے پاک دین پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے کسی بڑی سے بڑی شخصیت کا لحاظ بھی نہیں کیا ہے انہوں نے کسی کے اعترضات اور فتووں کی بھی پرواہ نہیں کی ہے۔ صاف شفاف دین بیان کرنے میں وہ کبھی کسی دھمکی اور لالچ سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو شہرت اور عزت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپ کے قلم میں اتنی زبردست تاثیر رکھی ہے کہ کوء سخت سے سخت مخالف بھی اس ڈر سے اپ کی کتابیں تحقیق کے لیے بھی پڑھنے کی جرآت نہیں کر سکتا کہ کہیں وہ خود سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کا پروانہ نہ بنے۔
کسی بھی جگہ صرف گائے کی قربانی کی تخصیص اسلامی حکم نہیں ہے مگر سید ابوالاعلی مودودی صاحب کے خدشات سے بہت حد تک اتفاق رکھا جا سکتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندو گائے ذبح کرتے تھے ،کھاتے اور کھلاتے تھے اور اپنے خیالی دیوی دیوتاؤں کے لئے کثیر تعداد میں عمدہ سے عمدہ جانور کی بلی چڑھاتے تھے۔ اس بات کا انکار کرنے کی کسی ہندو کو جرات نہیں ہوسکتی جس کی کتابوں میں گوشت خوری عبادت لکھی ہو اور جانوروں کی بلی چڑھانے کی عبادت کوعادت بنالیا ہو۔ یقینا اس وقت ہندؤں کے یہاں گائے معبود کے درجے میں ہے جسے کل تک کاٹ کر کھایاکرتے تھے۔ ہندؤں کے یہاں گائے کو معبود سمجھنے کے پیچھے اس جانور کا فائدہ مند ہونا بتلایا جاتاہے کہ اس کا دودھ اور پیشاب پینے کے قابل اوراس کاگوبر لپائی کے قابل ہے۔ عموما اسی وجہ سے ہندو خداؤں پر یقین کرتے ہیں ، جہاں کچھ فائدہ دیکھا اسے بھگوان سمجھ لیاجبکہ ان کے یہاں بھی اصلا ایک ہی خدا کا تصور ہے۔ بے شک گائے مفید جانورہے اور اس کی نسل ختم ہونے سے انسانوں کا خسارہ ہے مگر اس کی حفاظت کے لئے گائے کو بھگوان سمجھ لینا ، اس کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگانا ، اس کا قتل انسان کا قتل اور مذہب مخالف قرار دینا بالکل غلط ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں مرغیوں کی بڑی تعداد ذبح کی جاتی ہے مگر کہیں کم نہیں ہوتی کیونکہ اسے پالنے کا ہرجگہ اور بڑے پیمانے پر انتظام کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں گئوکشی یا کھانے کے لئے جانور کا ذبح کرنا ایک بڑا مسئلہ بنا ہواہے۔ یہ مسئلہ چند سالوں سے ہے ، قدیم تاریخ میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ مسلم وغیرمسلم بغیر کسی تفریق کے جانور کا گوشت کھاتے رہے بلکہ اندازہ لگایا جائے تو ہمیشہ سے ہندو قوم کے یہاں وافرمقدار میں گوشت کھانے اور کثیر تعداد میں جانور وں کی بلی( قربانی )دینے کا تصورپایا جاتا ہے۔دارلعلوم دیوبند کے شعبہ نشر واشاعت کے انچارج عشرت عثمانی نے عید الاضحی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ "دیوبند ہمیشہ ہی سے گائے کے ذبیحہ کے خلاف رہا ہے”۔ اسی طرح دارلعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمان ملکی قانون اور ہندو برادری کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عید الاضحی کے موقع پر گائے کی قربانی نہ کریں "۔