میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایاز امیرصاحب کی خدمت میں۔۔

ایاز امیرصاحب کی خدمت میں۔۔

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۶ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

عماد بزدار

پچھلے دنوں یو ٹیوب پر ایاز امیر صاحب کااوریا مقبول جان کے ساتھ ایک انٹرویو دیکھ رہا تھا ان کی گفتگو کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا خوف بلا وجہ تھا حاصل کلام یہ کہ پاکستان کی تخلیق بے جا اندیشوں کی وجہ سے ہوئی۔ 1937 میں کانگریسی وزارتوں میںبھی مسلمانوں کے خلاف کچھ ایسا خاص نہیں ہوا جس کو بنیاد بنا کر الگ ملک کا مطالبہ کیا جاتا ، یہ محض ہمارے خوف اور خدشات تھے ۔ ویسے تو اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی بھی گئی ہیں مزید بھی لکھی جاسکتی ہیں لیکن کالم کا دامن تنگ ہے تو ایاز صاحب کی خدمت میں مختصرا کچھ حوالے پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔
علیحدہ وطن کا مطالبہ جناح لیکر اٹھے دوسری طرف مسلمانوں میں جوشخص یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی قطعا کوئی ضرورت نہیں مسلمانوں کے حقوق متحدہ ہندوستان میں محفوظ ہیں وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے ۔ جو کہ کانگرس کے صدر بھی رہے
۔۔۔
مان لیا جناح کا پاکستان کا مطالبہ غیر ضروری تھا یا انتہا پسندانہ تھا بے بنیادخوف اور خدشات پر مبنی تھا دوسری طرف جو شخص مسلمانوں کا مستقبل متحدہ ہندوستان میں محفوظ سمجھتے تھے وہ اپنے پاس کیا حل رکھتے تھے کیا ایسا کچھ متحدہ ہندوستان کے حامی مسلمانوں کو لیکر دلوا رہے تھے جوجناح کی انتہا پسندی کی نظر ہوگئی؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں
۔۔۔
متحد ہ ہندوستان کے کٹر حامی مولانا ابوالکلام آزاد نے کافی غوروخوض کے بعد 2 اگست 1945 کو ( جب وہ کانگرس کے صدر تھے ) گاندھی کو ( جوکانگرس کے چار آنے کے ممبر بھی نہیں تھے ) ایک خط ذاتی حیثیت میں لکھا جس میں ہندو مسلم مسئلے کی تصفیئے کے حوالے سے اپنا حل گاندھی کی خدمت میں پیش کیا ۔ یاد رہے یہ خط کسی مطالعہ پاکستان میں نہیں لکھا نہ
ہی مولانا آزاد نے اپنی ” آزادی ہند”میں اس کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھا ۔ جب برطانیہ نے یہ ڈاکیومنٹ ڈسکلوز کئے تب پتہ چلا مولانا آزاد نے گاندھی کو ہندو مسلم تصفیئے کے لئے یہ حل پیش کیا۔( دونوں خطوط مکتوب الیہ سے پہلے برطانوی سی آئی ڈی کے ہاتھ لگے تھے ) آزاد ، پاکستان ا سکیم کو مسترد کرتے ہوئے ،کیونکہ پاکستان اسکیم ان کی نظر میں شکست خوردگی کی علامت تھی، لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے خدشات جینوئن اور جائز اور حقیقی ہیں اس لئے ان کا حل کرنا بھی ضروری ہے ۔ آزاد لکھتے ہیں
1 ۔آئندہ ہندوستان کے بننے والا آئین وفاقی ڈھانچے کی بنیاد پر ہوگا جس میں مرکز کے کچھ امور شامل ہونگے جنہیں اس کے آئینی اکایئوں نے از خود تسلیم کیا ہو۔
2۔ ان اکائیوں کو علیحدہ ہوجانے کا اختیار ہوگا۔
3۔ مرکز اور صوبوں میں مخلوط طرز انتخاب اور محفوظ سیٹوں کا نظام رہے گا
4۔ مرکزی اسمبلی اور مرکزی ایگزیکٹو میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی ایسا تب تک رہے گا جب تک پارٹیاں
معاشی اور سیاسی بنیادوں پر منظم نہیں ہوتیں اور فرقہ وارانہ خدشات رفع نہیں ہوتے۔آزاد نے اپنی تجاویز کا اختتام اپنے ہندو دوستوں سے اپیل کے ساتھ کیا کہ ہندوستان کے آئندہ آئین میں مسلمانوں کے مقام کی بات کلیتاً مسلمانوں پر چھوڑ دیں اگر مسلمانوں کو یقین آجائے کہ غیر مسلم ان پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کررہے تو وہ تقسیم کا خیال ترک کردیں گے اور انہیں احساس ہوگا کہ وفاقی متحدہ ہندوستان ان کے مفادات کی حفاظت کرسکتا ہے ۔16 اگست کو گاندھی نے مولانا کے خط کے جواب میں تار بھیجا جس میں انہیں ہندو مسلم مسئلے پر بولنے سے منع کیا اور کہا کہ میری اورکانگرس ورکنگ کمیٹی کی مرضی کے بغیر آپ اس معاملے کچھ نہ کہیں ۔ اور آپ کا یہ خط پریس میں نہیں جانا چاہیے ۔
ایچ ایم سیروائی اس خط کو گاندھی کا ناشائستہ جواب کہتے ہوئے باقی ہندو مؤرخین کی طرف سے اس خط کا تذکرہ نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں جیسے وہ بتاتے ہیں کہ وی پی مینن جسے اپنے اعلیٰ عہدے کی وجہ سے دونوں خطوط دیکھنے کا موقع ملا اس نے صرف آزاد کے خط کا تذکرہ کیا گاندھی کے جواب کا ہلکا اشارہ بھی نہیں دیا۔
ٹنڈولکر نے ” مہاتما ”میں ان دونوں خطوط کا تذکرہ تک نہیں کیا نہ ہی مولانا نے”آزادی ہند”میں ان خطوط بارے کچھ لکھا اس پر ہندوستانی مسلمان منصور احمد اپنی کتاب میں معنی خیز انداز میں حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
۔
ایچ ایم سیروائی لکھتے ہیں کہ آزاد کے اس خط پر ورکنگ کمیٹی نے کہاں تک توجہ دی یہ معلوم نہیں ہے تاہم جیسا کہ آگے چل کر معلوم
ہوگا آزاد کے اس حل کا اتا پتا کانگرس کے اس ریزولیوشن میں کہیں نہیں ہے جو کانگرس نے ہندو مسلم مسئلے کے لئے پاس کیا۔
ایاز صاحب ! جناح کے خدشات بے بنیاد تھے مولانا آزاد کے خدشات کی تو کوئی بنیاد تھی ناں؟ متحدہ ہندوستان میں مسلم خدشات کو جینوئن اور حقیقی سمجھنے والے آزاد اپنے ہندو دوستوں سے کیا کچھ منوا کر دے سکے جو جناح کی انتہا پسندی کی نذر ہوگئی؟
ایاز صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں اس کے باوجود کہتے ہیں 1937 میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا تو کیا انہوں نے مولانا ہی کی کتاب کے 1959 اور 1988والے ایڈیشن کا موازنہ کیا ہے ؟ قومی مفاد ( ہندوستانی قومی مفاد ) میں دبائے تیس صفحات میں جو 1959 کے ایڈیشن میں چھپنے نہیں دیئے گئے ان میں ایسا کیا تھا کہ جو تیس سال بعد 1988 کے ایڈیشن میں جا کر چھپے ؟ایاز صاحب ! بمبئی اور بہار میں نریمان اور سید محمود کو پیچھے ہٹا کر ہندوؤں کو ڈرایئونگ سیٹ پر کیوں بٹھایا گیا ؟ اور خود مولانا آزاد ان تیس صفحات میں اس بارے کیا لکھتے ہیں؟1945-46میں ایاز صاحب لیگ پر مذہب کے استعمال کا الزام لگاتے ہیں تو 1937 میں کانگریسی وزارتوں کو ٹھوس حقائق کی موجودگی کے باوجود کیوں کلین چٹ دیتے نظر آتے ہیں؟ جنہوں نے وندے ماترم کو قومی ترانہ بنا کر مسلمانوں پر مسلط کردیا۔۔ یہ محض ایک مثال ہے جب جناح نے اس گیت پر بولتے ہوئے کہا کہ
” آپ کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ وندے ماترم کا احترام کرے گا یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ بت پرستانہ ہے اور اگر آپ اس کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ گانا مسلمانوں کے
خلاف نفرت سے پر ہے ”کانگرس جو ایک”قومی پارٹی”تھی سیکولر تھی مذہبی تعصب سے بالاتر تھی تو پھر ایسی نظم کو قومی ترانے کے طور پر مسلط کرنے کی اسے کیوں ضرورت پیش آئی جس کا ایک تاریخی پس منظر موجود تھا جس میں مسلمانوں کے لئے بدترین مغلظاتی الفاظ جیسے ملیچھ ، یون ودھرم، زانی لٹیرے وغیرہ کا بہ کثرت استعمال کیا گیا ۔ اسی نظم میں موجود تھا جس میں مصنف بھارت ماتا کے سپوتوں سے کہلواتا ہے ”بھائی وہ دن کب آئے گا جب ہم مسجدوں کو مسمار کریں گے اور ان کی جگہ رادھا اور مہادیو کے مندربنائیں گے” ۔
کچھ بند نکالنے کے باوجود اس پس منظر کے ساتھ یہ نظم مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہوسکتی تھی؟
ہندوستان کو متحد رکھنے کے لئے آخری آئینی حل جو پیش کیا گیا وہ کیبنٹ مشن پلان تھا تفصیل میں جائے بغیر مولانا ہی کی کتاب کے 30 دبائے صفحات سے ایک پیرا جو 1988 کے ایڈیشن میں موجود ہے ، ایاز صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ اس ا سکیم کو ناکام کس نے بنایا تھا؟
”آج جب میں دس سال کے بعد ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جناح کی بات میں وزن تھا ۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں اس معاہدے میں فریق تھے اور مسلم لیگ نے مرکز ، صوبوں اور گروپوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی بنیاد پر پلان کو تسلیم کیا تھا۔ کانگریس نے اس پر شکوک کا اظہار کرکے دانائی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس میں حق بجانب تھی۔ کانگرس کے مؤقف میں آئے روز کی تبدیلی نے جناح کو ہندوستان کی تقسیم کا موقع فراہم کرنا ہی تھا”۔
یہ وہ تمام حوالے ہیں جو پاکستان سکیم کے مسترد کرنے والے ایک اہم ترین مسلمان کے قلم سے نکلے ہیں جو کانگرس کے صدر بھی رہے ہیں مولانا کے ان تیس صفحات پڑھ کر سمجھ آجاتی ہے کہ کیوں یہ باتیں 1958 میں چھپنے نہیں دی گئیں ۔ ایچ ایم سیروائی کے ہی الفاظ میں اپنے کالم کو ختم کرتا ہوں کہ
” اگر آزاد 1959 میں ان خیالات کا اظہار کردیتے تو ایک کٹر قوم پرست مسلمان کی طرف سے جو 1940-1946 کے نازک دور میں کانگرس کا صدر رہا ہو ، اس طرح کی رائے کے سامنے آنے سے بیرونی دنیا میں کانگریس کا امیج بری طرح متاثر ہوتا اور پاکستان میں اس رائے کو جناح کے اس قول کی تائید کے ثبوت کے طور پر سراہا جاتا کہ کانگرس نے 1937ہی میں اعلان کردیا تھا کہ ہندوستان ہندوؤں کے لئے ہے ۔ محسوس ہوتا ہے کہ آزاد نے سوچا ہوگا کہ 1959 میں کانگرس کے بارے میں اپنے سچے خیالات کا اظہار کرکے پاکستان کو بالواسطہ مدد فراہم کرنا قومی مفاد کے لئے ضرر رساں ہوگا۔ تاہم 30 سال بعد ان کی اشاعت سے قومی مفاد کو کوئی قابل ذکر نقصان
کا احتمال نہیں”۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں