میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۶ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

عدنان عادل

بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایرانی صدر رئیسی کا دورہ ایک رسمی سی کارروائی تھی اور پاکستان حکومت نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی یا کم سے کم ظاہر یہی کیا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی تین روزہ دورہ پر بائیس اپریل سے چوبیس اپریل تک پاکستان میں رہے ۔ پیر کے روز اسلام آباد پہنچے۔ اسلام آباد میں انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی، ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی اور بعد میں صدر مملکت آصف زرداری کے دیے گئے عشایہ میں شرکت کی۔ منگل کو وہ لاہور آئے جہاں انہوں نے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری دی۔ اسی روز شام کو کراچی پہنچے اور چوبیس اپریل کی صبح دورہ ختم کرکے سری لنکا کے دورہ پر روانہ ہوگئے ۔ ایرانی صدر کا ائیرپورٹ پر استقبال وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ریاض پیرزادہ نے کیا۔ ان کے استقبال کے لیے نہ صدر مملکت آصف زرداری گئے اور نہ وزیراعظم شہباز شریف۔ تاہم جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ایرانی صدر کا دورہ شروع ہوتے ہی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نواز شریف کے ساتھ چین چلے گئے ۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ پاکستان اس دورہ کو خاص اہمیت نہیں دیتا۔ کراچی میں ایرانی سفارت خانہ نے ایک عشائیہ کا اہتمام کیا تھا جسے آخری وقت میں سیکورٹی وجوہ کا بہانہ بنا کر منسوخ کردیا گیا۔ ایرانی سفارت خانہ نے مدعو مہمانوں کو فون کرکے معذرت کی۔ایران اور پاکستان کی الگ الگ ترجیحات اس بات سے بھی واضح ہیں کہ ایرانی صدر نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ پریس کانفرنس میں کشمیر کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔ شہباز شریف نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے کہا تھا کہ میں آپ کا اور ایرانی عوام کا کشمیر معاملہ پر آواز اٹھانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن صدر رئیسی نے جوابی بیان میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا بلکہ انھوں نے صرف فلسطین اور غزہ کا ایشو اٹھایا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایران انڈیا اور پاکستان سے تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے اس کا دوست ملک انڈیا ناراض ہو۔ اس سال جنوری میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ کی دعوت پر انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر نے تہران کا دورہ کیا تھا۔ ایران اور انڈیا کے درمیان تجارت کا حجم سوا دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔ ایسے وقت میں جب امریکہ کی پالیسی ہے کہ ایران کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کیا جائے تہران کی حکومت انڈیا سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتی۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان اور ایران اپنی مفاہمت کو زیادہ پبلسٹی دینا نہیں چاہتے تاکہ امریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ نہ آئے۔ پاکستان بھی یہی چاہے گا کہ ایران کی شدید مخالف امریکہ اور مغربی طاقتیں ناراض نہ ہوجائیں۔ خاص طور سے ایسے وقت میں جب ملک معای مشکلات کا شکار ہے اور اسے معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد کی ضرورت ہے ۔ یوں بھی مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے حریف سمجھے جاتے ہیں گو ان کے سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں۔ اور پاکستان سعودی عرب کا قریبی ساتھی ہے ۔ آنے والے دنوں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورہ پر آ رہے ہیں اور اسلام آباد کے حکمرانوں کوامید ہے کہ سعودی عرب ہمارے ملک میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا جس سے معاشی بحالی ممکن ہوسکے گی۔ فی الحال یوں لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے دورہ کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان جنوری میں ہونے والی کشیدگی کو ختم کیا جائے اور اس وقت پیدا ہونے والی دراڑ کو پر کیا جائے ۔ جنوری میں ایران نے بلوچستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کرکے مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانہ کو نشانہ بنایا تھا جبکہ پاکستان نے ردعمل میں ایرانی بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ اس دورہ میں دونوں ملکوں نے سیکورٹی تعاون کے سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے ۔ صدر ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر رئیسی نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران تعلقات خراب نہیں کر سکتی۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی دو طرفہ تعلقات بہتر بنانا اس کے مفاد میں ہے ۔ ایران کو یہ بھی تشویش ہے کہ اگر اس کی اسرائیل اور امریکہ سے کشیدگی بڑھتی ہے تو پاکستان اس میں امریکہ کا ساتھ نہ دے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا کو ختم کرنا بذات خود اس دورہ کا اہم مقصد ہے ۔ کیونکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے جبکہ ایران اور امریکہ کے تعلقات بہت خراب ہیں۔ ایرانی صدر کے دورہ کے دوران دونوں ملکوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کی آٹھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ۔ باہمی تجارت کو فروغ دینے کا عزم کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت بھی تقریباً ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سالانہ کی باقاعدہ تجارت ہے جسے دونوں ملک دس ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس میں دونوں کا فائدہ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر رسمی تجارت یا اسمگلنگ کا حجم کہیں زیادہ ہے ۔ بعض اندازوں کے مطابق پاکستان میں بکنے والے ڈیزل اور پیٹرول کا پچیس فیصد حصہ ایران سے اسمگل ہو کرآتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے تاجر خلیجی ممالک کے راستے بالواسطہ بھی تجارت کرتے ہیں۔ بلوچستان کے کئی سرحدی علاقوں کو ایران سے بجلی خرید کر دی جاتی ہے ۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے دوروں کے دوران میں بڑے بڑے اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ مثلا سنہ دو ہزار سولہ مین ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی دونوں ملکوں نے تعاون کی چھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے ۔ اس موقع پر صدر روحانی نے باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش کی تھی لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہیں اور عالمی بینکنگ نظام کے ذریعے اس سے لین دین نہیں ہوسکتا۔ امریکہ کھل کر پاکستان اور ایران کی قربت کی سخت مخالفت کرتا ہے ۔حسب توقع اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ صدر رئیسی کے دورہ کے دوران ہی پاک ایران تجارتی معاہدوں پر امریکا کا منفی ردّعمل بھی سامنے آگیا ہے ۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے پاک ایران تجارتی معاہدوں کے سوال پر جواب میں کہا کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور اس کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے ۔ ترجمان نے پاکستان کو یاد دلایا کہ امر یکا 20 برس سے پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار بھی ہے ، پاکستان کی اقتصادی کامیابی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے ۔ اس بیان کے اگلے ہی روز واشنگٹن میں وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والے نئے معاہدوں میں اگر پیش رفت ہوئی تو پاکستان پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ کے ذمہ داروں کو پابندیوں کے خطرہ سے آگاہ رہنا چاہیے ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کہ پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کے تحت دیکھے ۔امریکہ کا یہ بیان قابل فہم ہے ۔ پاکستان اور ایران کے مستحکم تعلقات سے امریکہ خوش تو نہیں ہوگا، لیکن ہمارے مفاد میں جو بہتر ہوگا ہمیں تو وہی کرنا چاہیے ۔ پاکستان کے مشرق میں انڈیا سے تعلقات اچھے نہیں۔ مغرب میں افغانستان سے دہشت گردی کا بڑا خطرہ درپیش ہے ۔ ان حالات میں پاکستان ہرگز نہیں چاہے گا کہ اس کے تعلقات ایران سے مزید کشیدہ ہوں جس کے ساتھ اس کی نو سو کلومیٹر طویل سرحد ہے ۔
صدر رئیسی کے دورہ میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان اور ایران نے اپنے اپنے ممالک میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کیا۔ اس لائحہ عمل میں باہمی تعاون اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کو مزید بہتر بنانا شامل ہے ۔ اس سلسلے میں جلد از جلد سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ ایران سے انڈیا کے تربیت یافتہ جاسوس اور بلوچ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں جبکہ ایران کو شکایت ہے کہ پاکستان سے جیش عدل نامی تنظیم کے شدت پسند ایران میں داخل ہو کر کاروائیاں کرتے ہیں۔
صدر رئیسی کے دورہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس دورہ میں اب تک ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ اس پائپ لائن کا معاہدہ دو ہزار نو میں ہوا تھا۔ ایران اپنی سائیڈ کی 900 کلومیٹر پائپ لائن کئی سال پہلے مکمل کر چکا ہے ، پاکستان نے 80 کلومیٹر کی پائپ لائن ایران پاکستان بارڈر سے گوادر تک لانی تھی، 2009 سے اب تک پاکستان اس پہ کام نہیں کر سکا، ڈونلڈ لو نے کانگریس کو بتایا تھا کہ پاکستان کے پاس تو پیسے ہی نہیں تو پائپ لائن کیسے مکمل کریں گے ۔ خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے معاہدہ کی پاسداری نہ کی تو ایران اس معاملہ کو عالمی عدالت میں لے جا کر 16 ارب ڈالر جرمانہ طلب کر سکتا ہے۔ پاکستان کی سفارتی سطح پر خواہش ہوگی کہ ایران امریکی پابندیوں کے پیش نظر اس معاملہ کو نہ اٹھائے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کا اتحادی ترکیہ (ترکی) ایران سے گیس خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ ایرانی گیس سے پاکستان کو اربوں ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔ پورے ملک میں گھر گھر گیس پہنچ جائے گی۔ سی این جی اسٹیشن کھل جائیں گے ۔ گیس نرخ مستحکم ہو جائیں گے ۔ اگر پائپ لائن کو انڈیا تک توسیع دے دیں تو راہداری کے اربوں ڈالر سالانہ ملیں گے ۔ لیکن امریکی دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان حکومت اس کا اب ذکر بھی نہیں کرنا چاہتی۔
لاہور میں مزار اقبال پر حاضری دیتے ہوئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ "میں چاہ رہا تھا کہ پاکستان میں عوامی جلسہ کا اہتمام کیا جاتا اور میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتا، لیکن کچھ وجوہات کے باعث ایسا ممکن نہ ہو پایا”۔ بظاہر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہوا ہوگا لیکن حکومت چاہتی تو ایرانی صدر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر سکتے تھے ۔ لیکن انہیں اس کی دعوت نہیں دی گئی۔ اس عمل سے بھی ظاہر ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات کو بہت احتیاط سے ڈیل کرنا چاہتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی خفیہ مفاہمت ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن بطاہر یہی لگتا ہے کہ فی الحال پاکستان حکومت ایران سے تعلقات کو وسعت دینے کی بجائے مزید گراوٹ سے بچانا چاہتی ہے ۔ صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ اسی مقصد کے لیے تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں