بلاول دورے کی خوشی میں یہ مت بھولیں !
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری آئندہ ماہ بھارت جارہے ہیں جہاں وہ آٹھ ملکی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے چاراور پانچ مئی کو ہونے والے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اِس دوران ایک وفد بھی اُن کے ہمراہ گوا جائے گا۔وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاززہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میںبتایا کہ دورے کی دعوت بھارتی وزیرخارجہ اور ایس سی او کے چیئرمین ایس جے شنکر نے گزشتہ جنوری میں دی تھی ۔انھوں نے اجلاس میں شرکت کو شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر سے وابستگی اور خطے کے لیے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں پاکستانی عزم و اہمیت کی عکاس قراردیا۔ کانفرنس سے ہٹ کر میزبان ملک کے وزیر خارجہ سے ابھی کوئی ملاقات طے نہیں ہوئی، پھر بھی اِس دورے کو دونوں ممالک میں موجود ڈیڈ لاک ختم کرنے کی کوشش کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ بارہ برس کے طویل وقفے کے بعد یہ کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا دورہ بھارت ہے۔ حنا ربانی کھر 2011میں بطور وزیرِ خارجہ بھارت گئیں۔ اُس کے بعد بھارتی رویے اور جارحانہ اقدامات کی وجہ سے کسی وزیرِ خارجہ نے بھارت جانے سے گریز کیا۔ اب اچانک بلاول بھٹو زرداری کی دورے کی دعوت پر رضامندی نے کئی سوال پیدا کردیے ہیں کہ کیا پاکستان اپنے تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے یا پھرہم معاشی یا عالمی دبائو کی وجہ سے اِس حدتک جانے پر مجبور ہیں؟جوبھی ہے موجودہ دورے سے پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے یا نہیں اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ بغیر تیاری ،مشاورت ایسے دورے سے تنازعات کے حوالے سے پاکستان کاکشمیر مقدمہ کمزور ہوناخارج ازامکان نہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں یہ پاکستان کی پہلی شرکت نہیں۔ پاک بھارت حکام گزشتہ سات برس سے کئی اجلاسوں میں شرکت کر چکے ہیں جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل ہے۔ گزشتہ برس اِ س تنظیم کے تاشقند میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی بلاول شریک ہوئے تھے۔ اسی طرح موسمیاتی تحفظ بارے تنظیم کاجو وزارتی اجلاس رواں برس اٹھارہ اپریل کو نئی دہلی میں منعقد ہواتھا۔ اِس میں شیری رحمٰن نے شرکت کی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اجلاس کیونکہ آن لائن تھا۔ علاوہ ازیں آجکل پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے حوالے سے عالمی سطح پر اپنا مقدمہ لڑرہا ہے۔ اسی لیے نئی دہلی اجلاس آن لائن شرکت پرتنقید نامناسب ہوگی۔ مگریہ پہلا موقع ہے کہ آٹھ ملکوں کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھارت میں منعقد ہورہا ہے جس کے لیے بلاول بھٹوزرداری دورے پر جائیں گے جس سے خدشہ ہے کہ نہ صرف کشمیری بددل ہوں گے بلکہ پاکستان کا بطور فریق مقدمہ بھی کمزور ہوسکتاہے کیونکہ بھارت دورے سے یہ تاثر دے گا کہ پاکستان نے کشمیرکی تبدیل شدہ حیثیت تسلیم کرلی ہے جب دورے کے دوران ہمارے وزیرِ خارجہ کی کسی کشمیری رہنما یا کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت سے کوئی ملاقات طے نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی امکان ہے، اسی بناپر یہ خدشہ بے بنیادمعلوم نہیں ہوتا کہ پاکستان جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر آگے بڑھنے اور ساتھ چلنے پرآمادہ ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی کشمیرکے حوالے سے اپنے روایتی موقف سے انحراف ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری نے جب سے وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالاہے ۔وہ بے مقصد غیر ملکی دوروں میں مصروف ہیں۔ اکثر یہ ہی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس ملک میں ہیں اور اُن کی مصروفیات سرکاری ہیں یا نجی ہیں ۔ اسی بناپر ہفتوں اُن کا ملک سے غیاب کھٹکتا ہے وہ خود ہی مودی کوجوشِ خطابت میں قصائی کہہ چکے جس پر ہندوستان میں نہ صرف مظاہرے ہوئے بلکہ بلاول کو جسمانی نقصان پہنچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پربھارت سے اعلانات بھی ہوئے۔ اب اچانک سب بُھلاکر دورے کے لیے رخت سفر باندھنے کے فیصلے نے سبھی حلقوں کو ششد ر کردیا ہے اور ایسے قیاسات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ بھارت کے خلاف کی جانے والی باتیں مصنوعی اور یہ شہرت حاصل کرنے کے سواکچھ نہیں۔نیزایسی باتوں کا مقصد پاکستانی عوام میں مقبولیت حاصل کرناہوتاہے، وگرنہ بھارت کوپی پی قیادت بطور دشمن ملک نہیں دیکھتی۔ بلکہ علاقے کی ایک بڑی طاقت تصور کرتی ہے، اسی لیے تعلقات بہتر کرنے اور دورے کے لیے بہانوں کی تلاش میں ہے لیکن کیا ایسی حرکتیں عوام سے پوشیدہ ہیں ؟اگر کسی کا جواب ہاں میں ہے تو وہ غلطی پرہے کیونکہ عام پاکستانی تمام ترغربت اور معاشی مجبوریوں کے باوجود اب بھی بھارت سے فاصلہ رکھنے کا قائل ہے پھربھی حکومت اور پی پی قیادت کا عوامی رائے کے برعکس چلناناقابلِ فہم ہے۔
بھارت ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہتا ہے۔ بلوچستان سے لے کر کے پی کے تک اُس کی دہشت گردوں کی سرپرستی اور فنڈنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ عالمی سطح پر بھی مختلف تنظیموں کے ذریعے دبائو ڈلوانا اُس کا وطیرہ ہے۔ اکثر جوہری پروگرام غیر محفوظ ہونے کا الزام لگاتا ہے، حالانکہ اِس حوالے سے اُس کااپنا کردار داغدار ہے۔ بڑے پیمانے پرغیر قانونی رقوم کے لین دین سے لیکر جوہری مواد کی بھارت میں نجی ہاتھوں سے برآمدگی جیسے واقعات منصہ شہود پر آچکے ۔کیا ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کا نام نکلوانے کا دعویٰ کرنے والے بلاول بھٹو زرداری اِس بارے لا علم ہیں ؟یا کچھ سمجھنے سے زیادہ اُن کے ذہن پر بھارت سے تعلقات کا بھوت سوار ہے؟ پاکستان کچھ بھی کر لے بھارت کبھی ہمدرد نہیں ہوسکتا اگر بھارتی بالادستی تسلیم کرلیں اور مطیع وفرمانبردار بن جائیں تو بھی وہ تقسیم ہند کو بھلا نہیں سکتا۔ بھارتی ذہنیت کا نوجوان وزیرِ خارجہ کو ادراک ہونا چاہیے، اگر غیر ملکی دورے کرنے کا ریکارڈ بنانا اور ملکی خزانہ ہی برباد کرناہے تو یہ مقصد دیگر ممالک کی سیرتفریح سے بھی حاصل کیاجاسکتاہے۔ بہترہے بے مقصد بھاگ دوڑ کی بجائے زمینی حقائق کوپیشِ نظر رکھیں اور جس ملک نے اُنھیں عزت ،دولت اور شہرت سے نواز اہے اُس کے مفاد کاتحفظ یقینی بنائیں۔
پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت ہر حد تک بھی جا سکتا ہے جس کے بے شمار ثبوت ہیں۔ مغربی ممالک کی کشمیریوں سے ہمدردی ختم کرانے کے لیے بھارت نے جولائی 1995 میںاپنے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں چھ مغربی سیاحوں کے اغوا و گمشدگی کے منصوبے پر عمل کیا جس میں اُس کے خفیہ اِداروں نے ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش دنیا کے سامنے پیش کی اور اِس واقعہ کو پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے ثبوت کے طورپر پیش کرتے ہوئے کشمیری حریت پسندوں کو بدنام کیا ۔حالانکہ ایک خاتون کوہ پیما جب نارویجن سیاح کے اغواکی اطلاع دینے بھارتی راشٹریہ رائفلزکے کیمپ آئی تو اطلاع پر کارروائی کرنے کی بجائے بھانڈہ پھوڑنے کی پاداش میں اجتماعی آبروریزی کی گئی جب الفاران نامی تنظیم نے سیاحوں کو رہاکردیا تو انھیں بھی تحویل میں لیکر راشٹریہ رائفلزکیمپ لے جا کر گولیوں سے اُڑا دیا گیا۔ اسی طرح اغواکاروں کی نقل و حرکت کے متعلق آگاہ رکھنے کی ذمہ داری پر مامور پولیس کے مخبرایجنٹ اے کو بھی فوج نے عسکریت پسندوں کا ساتھی کہہ کر مار دیا۔ اس بارے میں تمام تر تفصیلات سے برطانوی صحافی ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے اپنی تحریر کردہ کتاب the meadowکے ذریعے پردہ ہٹادیا ہے لیکن ہر بات پر بھڑک اُٹھنے والے بھارت نے اِتنے اہم واقعہ کے متعلق پیش کیے گئے شواہد کی آج تک تردید کرنے کی ہمت نہیں کی ۔اسی طرح دسمبر1999 میں انڈین ائیر لائن کے طیارےic814 کے اغوا پر خفیہ ایجنسی نے مسافروں سے بھرے طیارے کو بارود سے اُڑانے جیسااحمقانہ مشورہ دے ڈالا تاکہ پاکستان کو بدنام کرنے کی مُہم میں تیزی لائی جا سکے۔ تیرہ دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا لیکن حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ افضل گوروکو پھانسی دینا ثابت کرتا ہے کہ بھارت کو تحقیقات کی بجائے صرف پاکستان کو بدنام کرنے سے دلچسپی ہے ۔ اب تو اِس میں بھی کوئی راز نہیں رہا کہ نومبر2008میں ممبئی ہوٹل پر ہونے والے حملے کے متعلق بھارت کے خفیہ اِداروں آئی بی ،راء بشمول سی آئی اے تک سب کو پیشگی اطلاع تھی لیکن بھارت نے حفاظتی انتظامات نہ کیے تاکہ حملہ ہو اور پھر پاکستان کو بدنام کرنے کی مُہم شروع کرنے کا موقع مل سکے ۔
چودہ فروری2019 کوکشمیرکے علاقے پلوامہ میں بھارت کی پیراملٹری فورس کے ایک ٹرک پر حملہ ہواجس میں چالیس افراد مارے گئے جس کی حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ مودی سرکار کی ہدایت پر یہ راء کا فالس فلیگ آپریشن تھامقبوضہ کشمیرکے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران یہ ہوشربا انکشاف کیا۔ مودی حکومت کو پلوامہ حملے کا پیشگی علم تھالیکن اپنے فوجیوں کو بچانے کی بجائے سیاسی فائدے کے لیے مروا دیا۔اب بھی بھارتی ذہنیت کے پیشِ نظر خدشہ ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیری حریت پسندوں کو بدنام کرنے کے لیے کوئی مذموم چال چل سکتا ہے کیونکہ جی 20 اجلاس گزشتہ ماہ ہوچکا آئندہ ماہ مئی میںشنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں جس کے لیے دنیا بھر سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور مبصرین موجودہیں۔ اگراِس دوران کوئی کارروائی ہوتی ہے تو پاکستان پر الزام لگا کر بھارت باآسانی خود کو مظلوم ثابت کر سکتا ہے۔ اُسے ایسی کارروائیوں میں خوب مہارت حاصل ہے لیکن سچ یہی ہے کہ ملک کے اندر اوربیرونِ ملک خون خرابے میں بھارت کے اپنے اِدارے ملوث ہیں جن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ اِن واقعات کا تقاضا ہے کہ بلاول دورے کی خوشی میں زمینی حقائق مت بھولیں ۔ رواں ماہ بیس اپریل کوکشمیرمیں بھارتی فوج کے ایک ٹرک پر بجلی گرتی ہے جس میں پانچ فوجی ہلاک ہوجاتے ہیںجس کی ابتدائی اطلاعات میں ذرائع ابلاغ میں ذکر ہوچکا کہ یہ واقعہ آسمانی بجلی گرنے سے پیش آیا مگر بھارتی حکومت نے حسب ِ روایت اِس کا الزام بھی جیش محمد نامی تنظیم اور پاکستان پر لگا دیا۔ اب بھی بھارتی حکومت سے ہر قسم کی گھنائونی حرکت ممکن ہے۔ لہٰذادوستی استوار کرنے میں محتاط رہنا ہی دانشمندی ہے ۔
٭٭٭