ایل این جی کیس، شاہد خاقان عباسی نیب کو بیان ریکارڈ کرا دیا
شیئر کریں
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایل این جی کیس میں نیب راولپنڈی میں کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرادیا ۔ نیب نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ایل این جی کیس میں پوچھ گچھ کی۔ نیب کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کی سربراہی ملک زبیر نے کی۔نیب ٹیم کی طرف سے شاہد خاقان کو کہا گیا کہ آپ کو اس کیس میں چوتھی مرتبہ طلب کیا ہے مطلوبہ ریکارڈ نیب کو کیوں فراہم نہیں کر رہے ؟،شاہد خاقان عباسی نیب کی جانب سے طلب کردہ ریکارڈ ساتھ نہ لا سکے ۔شاہد خاقان عباسی نے درخواست کی کہ نیب مطلوبہ ریکارڈ لانے کے لیے مزید مہلت دے ۔ نیب ایل این جی معاہدے پر جو ریکارڈ مانگے گا فراہم کر دوں گا ۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس سے قبل بھی پیشی کے موقع پر ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے نیب راولپنڈی میں پیش نہیں ہوئے تھے ۔ نیب کی جانب سے چارمرتبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کو طلبی کے نوٹس بھیجے گئے مگر وہ صرف ایک مرتبہ ہی پیش ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم 19؍فروری2019کو ایل این جی اسکینڈل میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب محمد زبیر کی سربراہی میں چار رکنی ٹیم نے شاہد خاقان عباسی سے تفتیش کی تھی۔تفتیشی ٹیم نے سابق وزیراعظم کو 70 سوالات پر مبنی سوالنامہ بھی سپرد کیا تھا اوران کا بیان بھی ریکارڈ کیا تھا۔ایل این جی اسکینڈل میں تحقیقات کے لیے نیب نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کوبھی ریکارڈ سمیت گیارہ جنوری کو طلب کیا تھا جس میں مفتاح اسماعیل نے نیب کی جانب سے پوچھے گئے 30 سوالات کے جوابات جمع کرائے تھے ۔گزشتہ سال جون 2018 میں من پسند کمپنی کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دینے کے الزام میں چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے سابق وزیراعظم سمیت دیگر کے خلاف تحقیقات کرنے کی منظوری دی تھی۔سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت پاکستان ہر سال قطر سے 3.75 ملین ٹن ایل این جی خریدے گا جو پاکستان کی قومی ضرورت کا کل 20 فیصد ہے ۔قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے اکتوبر 2018 میں ایل این جی سکینڈل کیس دوبارہ کھولنے اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ نیب کی جانب سے وزارت پٹرولیم کو خط لکھا گیا تھا جس میں متعلقہ وزارتوں سے ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔