
پاک ترکیہ دوستی اور حقائق
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
ملک کی جذباتی اکثریت جذباتی اندھا اعتماد کرتی ہے لیکن اب سُستی بھی ہمارے مزاج کا حصہ بننے لگی ہے۔ یہ سُستی کا ہی نتیجہ ہے کہ منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں اور ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں، لگتا ہے حکومتی تشکیل میں بھی ایسے جذباتی اور سُست افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جو شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہتے ہیں اور خودکو ملک کے لیے ناگزیرسمجھتے ہیں ۔کاش دعوے کرنا اور خواب دکھانا چھوڑ کر عملی طورپر تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے کام کیا جائے، مگر لگتا ہے عدم منصوبہ بندی اور دوست ممالک کی چالاکیوں کی وجہ سے پاکستان غیرملکی سامان کی منڈی بنتاجارہا ہے یہ دوست ممالک اپنا سامان تو پاکستان کو فروخت کرتے ہیں لیکن جواب میں پاکستان سے خریداری نہیں کرتے مباداپاکستان کا بھلا ہو امریکہ ایسا ملک ہے جس سے تجارت میں پاکستان کا فائدہ ہے وگرنہ چین ہو یاترکیہ ، دونوں سے تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے ۔
پاکستان کا حکمران طبقہ چین کے بعد آجکل ترکیہ پر بھی فریفتہ ہے۔ یہ طبقہ طیب اردوان کو مسلم امہ کا رہنما سمجھتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں اپنے ملک کے مفاد کے تابع ہوتی ہیں جہاں مفاد نہ ہو یہ حکمران قدم آگے نہیں بڑھاتے غزہ کی صورتحال دیکھ لیں ساراشہر تباہ کر نے کے ساتھ بچوں،نوجوانوں ،بوڑھوں اور خواتین کی بھاری تعداد کو رزقِ خاک بنا دیا گیا مگر مسلم اُمہ کے رہنما نے اسرائیل سے تعلقات ختم نہیں کیے، تجارت بھی جاری رکھی اورایسے حالات بنائے جن کی وجہ سے دفاعی حوالے سے شام کے اہم علاقے گولان کی پہاڑیوں پراسرائیل آسانی سے قبضہ کر سکے ،یہ آئے روز جذباتی بیان بازی تو کرتے ہیں لیکن عالمِ اسلام کو مسائل سے نکالنے کا کوئی ایسا قابل عمل منصوبہ نہیں بننے دیتے جس سے درپیش مسائل حل کرنے میں مدد ملے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ یکطرفہ اُلفت چھوڑ کر ملکی مفاد کاتحفظ یقینی بنائے پاکستان میں قائم ترکیہ کے تعلیمی اِدارے بھاری منافع سمیٹ رہے ہیں ۔اُس نے ڈراموں کی آڑ میں الگ ثقافتی یلغار کررکھی ہے کاروباری شخصیات کو ویزہ سہولتوں کی آڑ میں پاکستانی سرمایہ ترکیہ منتقل ہورہا ہے اتنی بڑی وارداتوں کے باوجود دوستی کے نعرے سمجھ سے بالا ترہیں۔
پاک ترکیہ تجارتی حجم 1.4ارب ڈالر کے قریب ہے جس میں پاکستانی برآمدات کاحصہ محض 441ملین جبکہ ترکیہ کی پاکستان کو برآمدات 917ملین ڈالر ہیں ترکیہ کی دوگُناسے زائد برآمدات ظاہر کرتی ہیں کہ تجارتی توازن اُس کے حق جبکہ پاکستان خسارے میں ہے اِ س خسارے کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ترکیہ حکومت کا پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر اٹھارہ فیصد لوکل پروٹیکشن ڈیوٹی لگانا ہے اِس طرح مجموعی ڈیوٹی کی شرح چوبیس فیصد تک جاپہنچنے سے پاکستانی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہوئی وہی ڈینم کپڑا جس کی ترکیہ کو برآمدمیں اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا اضافی ڈیوٹی سے بڑھتی تجارت یکدم محدود ہوتی گئی ترکیہ نے یہ فیصلہ مقامی ڈینم صنعت کے مفادمیں کیا تھا اِس حوالے سے پاکستان نے کئی بار ترکیہ حکومت کی توجہ مبذول کرائی یہاں تک کہ آزاد تجارتی معاہدے کی پیشکش بھی کی لیکن ترکیہ سے ا ضافی ڈیوٹی ختم نہ کرائی جا سکی میاں شہباز شریف کی گزشتہ حکومت میں کافی سنجیدہ کوشش کی وزیرِ تجارت نوید قمر نے ایک ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط بھی کیے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ترکیہ نے اپنی مقامی مارکیٹ میں پاکستانی ڈینم مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی دینے سے صاف انکار کردیااب تو صورتحال ہے کہ پاکستانی ڈینم کپڑے کی ترکیہ کو برآمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اِس کے باوجود پاکستانی حکمرانوں کی ترکیہ سے جذباتی وابستگی کم نہیں ہو سکی بلکہ برقرارہے ۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے عائد کی جانے والی دفاعی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے متبادل پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ اِس حوالے سے چین اور ترکیہ اُس کی ترجیحی ہیں بھارت کومصروف رکھنے کے لیے مضبوط پاکستان، چین کی ضرورت ہے اِس لیے نہ صرف دفاعی سازو سامان فراہم کررہا ہے بلکہ اِس میدان میں پاکستان کو خودکفیل بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے خلائی تعاون کے ساتھ چینی تعاون سے پاکستان کی طیارہ سازی اور میزائل سازی کی صنعت ترقی کررہی ہے لیکن ترکیہ صرف تیارسامان فروخت کرتا ہے پاکستان نے ترکیہ سے دفاعی سازو سامان کی خریداری کے تین ارب ڈالرکے معاہدے کررکھے ہیں جس میں سے 1.5ارب ڈالر کے تیس فوجی ہیلی کاپٹر اورجاسوس ڈرونز خریدے جائیں گے جبکہ جنگی طیاروں ایف سولہ کی استعداد بڑھانے پر پچھتر ملین جبکہ ساڑھے تین سو ملین ڈالر آگسٹا آبدوز کو جدید بنانے پر خرچ ہوں گے دوصد کے لگ بھگ پاکستانی انجینئرز کاترکیہ ماہرین سے مہارت حاصل کرتاہے کہ پاکستان بہت جلد ترکیہ کے نیشنل فائٹر جیٹ پروگرام میں شامل ہونے والا ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ترکیہ سے طیاروں کی خریداری کے خطیررقوم کے بڑے معاہدے متوقع ہیں۔
کوئی ابہام نہیں کہ امریکہ ،روس اور چین کے بعد ترکیہ کی دفاعی صنعت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اُس کے جدید آلات کی دنیامیں مانگ ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق دفاعی آلات کی تیاری میں مصروف ترک کمپنیوں کی تعداد اڑھائی ہزار سے تجاوزکرچکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو دفاعی سامان فروخت کرنے کے ساتھ ترکیہ ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے کیوں ہچکچاتاہے ؟ جب وہ پاکستانی افواج کے ساتھ مشقوں میں حصہ لیتا اور مہارت و تجربات کے تبادلے کی بات کرتا ہے تو پاکستان سے ٹینک ،تھنڈرطیارے خریدنے کیوں گریزاں ہے ؟
ترکیہ چاہتاہے ساٹھ فیصد تک پہنچنے والے افراطِ زر کاخاتمہ ہو لیکن کیا اِس کے لیے پاکستانی معیشت کی قربانی ناگزیرہے؟اگر وہ اگلے چند برس کے دوران دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی تگ ودو میںہے توکیا یہ پاکستان جیسے ملک کا ستحصال کیے بغیر نا ممکن ہے؟ طیب اروان کے حالیہ دورے کے دوران سیاحت،دفاع۔آئی ٹی ۔انفراسٹرکچر اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے چوبیس معاہدوں اور مفاہمتوں پر دستخط ہوئے باہمی تجارت پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پربھی اتفاق ہوا حالانکہ حالات کا تقاضاہے کہ تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے سے زیادہ ترکیہ سے مال کے بدلے مال کی تجارت کرنے پر بات کی جائے ترکیہ کے صدرکا دوروزہ دورے کے دوران اسلام آبادمیں صدر ،وزیرِ اعظم اور عسکری قیادت نے پُر تپاک خیر مقدم کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ترکیہ بھی تجارتی توازن کی خواہش اورکوشش کرتاہے یا ماضی کی طرح اپنے تجارتی سامان کی منڈی جان کرمحض رسمی گفتگو سے مطمئن رکھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔