میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صدر پاکستان کے لیے پی ٹی آئی امیدوار کا فیصلہ نہ کرسکی

صدر پاکستان کے لیے پی ٹی آئی امیدوار کا فیصلہ نہ کرسکی

ویب ڈیسک
پیر, ۲۶ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان تحریک انصاف نے تاحال صدر پاکستان کے انتخاب کے حوالے سے امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا ۔ملک کے 14 ویں صدر کا انتخاب9 مارچ تک کرلیا جائے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کے عہدے کے لیے انتخابات کرانے کی تیاری شروع کردی ہے ۔ صدر کے انتخاب کا مرحلہ نصف سینیٹر زکی 6 سالہ مدت کی تکمیل کے بعد ریٹائرمنٹ سے صرف دو دن قبل مکمل کیا جائے گا۔چاروں صوبائی اسمبلیوں کے مکمل ہونے کے بعد صدر کا انتخاب ہوگا۔مسلم لیگ(ن) صدر شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی میں مخلوط حکومت بنانے کے لیے بننے والے 6 جماعتی اتحاد نے آصف علی زرداری کو ملک کے اعلی ترین آئینی عہدے کے لیے متفقہ امیدوار بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق8 فروری کے عام انتخابات کے بعد ایک ماہ میں صدر کا انتخاب ہونا آئینی تقاضا ہے ۔صدر مملکت کے عہدے کی معیاد ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن اور کم سے کم تیس دن قبل انتخاب کرایا جائیگا۔ آئین شق 41 ذیلی شق 4 صدارتی مدت ختم ہونے پر اسمبلی تحلیل ہونے کے سبب صدر کا انتخاب نہ ہوسکا ہو تو عام انتخابات کے 30 دن کے اندر کا انتخاب کرانا ہوگا۔ آئین کی شق 41 ذیلی شق 4عارف علوی 4 ستمبر 2018 کو صدر منتخب کئے گئے تھے ۔عارف علوی نے نو ستمبر 2018 کو پاکستان کے 13 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔عارف علوی کی صدارتی مدت 9 ستمبر 2023 کو ہوگئی تھی۔ آئینی اختیار کے تحت وہ اس عہدے پر موجود ہیں۔ عارف علوی سبکدوش ہونے تک صدر مملکت کے عہدے پر تقریبآ ساڑھے پانچ برس فائز رہیں گے ۔ صدر عہدے کی میعاد ختم ہونے کے باجود نئے صدر کے عہدہ سنبھالنے تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔آئین کی شق 44 ذیلی شق ایک صدر مملکت جس روز عہدہ سنبھالیں گے تب سے پانچ سال مکمل ہونے تک وہ عہدے پر فائز رہیں گے ۔آئین کی دفعہ 44 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر صدر کے عہدے کے لیے انتخاب کا انعقاد اور انصرام کرے گا اور صدراتی انتخاب کے لیے افسر رائے شماری (ریٹرنگ آفسر) الیکشن کمشنر مقرر کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرے گا۔قومی اسمبلی ،سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان خفیہ رائے دہی کے ذریعے نئے صدر کا چناؤ کریں گے ۔صدارتی الیکشن کا حلقہ انتخاب سینٹ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ہوں گی۔سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ میں ایک ہی جگہ ووٹ ڈالیں گے ۔قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ اسمبلی میں کسی امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کو بلوچستان اسمبلی کی کل تعداد یعنی 65 سے ضرب دے کر متعلقہ صوبائی اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیا جائیگا۔ اور انتخاب کے بعدنئے صدر مملکت آئین کے آرٹیکل بیالیس کے تحت اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ان سے حلف لیں گے ۔ نئے صدر کے حلف اٹھانے کے دن سے صدارتی معیاد شروع ہوجاتی ہے ۔آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت صدر کی حلف اٹھانے سے شروع ہونے والی مدت پانچ برس پر مشتمل ہوتی ہے ۔صدر کے انتخاب کے لئے الیکٹرول کالج سینیٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ہے ۔عام انتخابات 8 فروری کو ہوئے ، اس لیے 100 رکنی سینیٹ میں سے نصف کی ریٹائرمنٹ سے صرف 2 روز قبل صدارتی انتخاب 9 مارچ تک کرانا ضروری ہے ۔سینیٹ کے انتخابات مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونے کا امکان تھا لیکن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کے باعث سینیٹ انتخابات اب مارچ کے آخری یا اپریل کے پہلے ہفتے میں ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ ایوان بالا کچھ مدت کے لیے غیر فعال اور نامکمل رہے گا۔صدر مملکت کے انتخاب کے فارمولے کے مطابق ایک سینیٹر کا ایک ووٹ شمار کیا جاتا ہے ۔ آئین کا آرٹیکل 44(1) کہتا ہے کہ صدر اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے دن سے 5 سالہ مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا لیکن وہ اس عہدے پر اس وقت تک فائز رہے گا جب تک کہ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کا انتخاب نہیں کرلیا جاتا۔ڈاکٹر عارف علوی 5 سالہ مدت پوری کرنے والے ملک کے چوتھے جمہوری طور پر منتخب صدر ہیں، اس سے قبل 3 صدور جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، ان میں چوہدری فضل الہی تھے جو ملک کے پانچویں صدر تھے وہ 1973 سے 1978 تک اس عہدیپر فائز رہے ، آصف علی زرداری 11ویں صدر تھے جو 2008 سے 2013 تک عہدے پر رہے جب کہ 12 ویں صدر ممنون حسین 2013 سے 2018 تک اس عہدے پر براجمان رہے ۔ڈاکٹر عارف علوی مسلسل تیسرے صدر ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی اور ملک کے پہلے صدر ہیں جنہیں الیکٹورل کالج نامکمل ہونے کی وجہ سے توسیع مل گئی صدارتی انتخاب میں ایوان بالا کا اہم کردار ہوگا ۔یادرہے کہ اس وقت سینیٹ کی مجموعی تعداد 100 ہے جس میں چاروں صوبوں کے 23، سابقہ فاٹا اور اسلام آباد کے چار چار اراکین شامل ہیں۔صوبوں کے لیے مختص کردہ 23 نشستوں میں سے 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہے ۔ جب کہ نئے الیکشن کے بعداس مرتبہ صرف 96 اراکین ایوان بالا میں ہوں گے 25ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی علاقوں کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔اس مرتبہ سینیٹ کے انتخابات میں 48 نئے سینیٹرز منتخب ہوں گے جن میں چاروں صوبوں سے جنرل اور ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر 11، اسلام آباد سے 2 جب کہ پنجاب اور سندھ سے 2 اقلیتی ارکان ہوں گے ۔مسلم لیگ (ن)کے رانا مقبول احمد کے انتقال، پی ٹی آئی کے شوکت ترین اور بلوچستان عوامی پارٹی کے انوار الحق کاکڑ کی جانب سے نگران وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد استعفیٰ دینے کی وجہ سے ایوان کے ارکان کی تعداد اس وقت 97 ہے ۔سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے ، ان میں سے آدھے اراکین ہر 3 سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے اراکین کے لیے انتخابات ہوتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں