میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے!

قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے!

ویب ڈیسک
پیر, ۲۶ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر ‘تفسیرِ صغیر’ 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔ مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ ‘تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے’۔واضح رہے کہ ‘تفسیرِ صغیر’ احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر کچھ ابہام پایا جاتا ہے کہ عدالت نے توہین قرآن کے مرتکب شخص کو رہا کر دیا۔ فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ یہ حقوق ”قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع” ہی دستیاب ہوں گے۔ اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا گیا۔
جناب لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ مبارک احمد ثانی کیس میں آئین، قانون اور قرآن و سنت کی تشریح درست نہیں کی۔ بحیثیت مجموعی پوری قوم کا مؤقف ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کتاب تفسیر صغیر فساد کی بنیادی جڑ ہے۔ قادیانی آئین پاکستان کے مطابق غیر مسلم ہیں، اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ عقیدہ ختمِ نبوت کا تحفظ ہر قانون سے بالاتر ہے۔ ناموسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور عقیدہ ختمِ نبوت کی مخالفت میں ہر تبلیغ، ترویج، اشاعت پاکستان میں غیرقانونی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 22 کا اطلاق قادیانیوں پر اْس وقت تک ممکن نہیں جب تک آئین کے فیصلہ کو تسلیم کرکے اپنے آپ کو غیرمسلم گروہ میں شامل کرنے کا اعلان نہ کردیں۔ قادیانی استعماری مغربی قوتوں کی ناجائز کاشت ہے، جس کا کام سراسر فساد پھیلانا ہے۔ قادیانی اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کرلیں، انہیں آئین کے مطابق تمام بنیادی حقوق مل جائیں گے۔
اس حوالے سے اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے پیر گراف نمبر نو میں آرٹیکل 20کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی ۔ وضاحت نہ ہونے سے عدالتی فیصلے کا غلط تاثر لیا گیا ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آرٹیکل 20 کا ذکر آگیا تو وضاحت کی ضرورت نہیں تھی،تاہم اگر صوبائی حکومت چاہتی ہے تو ہم وضاحت کر دیتے ہیں، انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 20 کے مطابق مذہبی آزادی امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہے۔سپریم کورٹ بینچ نے ضمانت درخواست میں غیرضروری، قرآن و سنت سے متصادم تشریحات کے ذریعے خود ہی اعلیٰ ترین عدالت کو متنازع بنالیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن میں فریق بننے کی درخواست دے رہی ہے پورے ملک میں خطباتِ جمعہ میں علماء کرام اور نمازیوں نے سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کو قرآن و سنت اور آئینِ پاکستان کے منافی قرار دیا ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کا جذبہ ختم کرنے کے لئے قادیان کے رہنے والے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوت کا دعویٰ کرنے کے لیے تیار کیا۔ مرزا قادیانی نے انگریز کی سرپرستی میں جھوٹی نبوت کا اعلان کیا اور اسلام کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے خود کو ”احمدی” کہلواتے ہیں جبکہ انھیں مرزائی اور قادیانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ پاک و ہند کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ قادیانی عقائد و نظریات اسلام سے نہ صرف مکمل طور پر مخالف بلکہ سخت نقصان دہ ہیں۔ مرزا قادیانی کی کئی تحریریں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہیں۔ اس سے مسلمانوں کی سخت دل آزاری ہوتی ہے اور ان میں اشتعال پھیلتا ہے۔ خود علامہ اقبال مرزا قادیانی کی توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی تحریریں پڑھنے کے بعد نہ صرف اس کے سخت خلاف ہوئے بلکہ سب سے پہلے انھوں نے اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے نہرو کے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ ” احمدی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں”۔
قادیانی اپنی تقریروں اور تحریروں میں نہ صرف شعائر اسلامی کی توہین کرتے ہیں بلکہ اپنے اخبارات و رسائل اور لٹریچر کے ذریعے اپنے کفریہ اور ارتدادی عقائد و نظریات کی سرعام تبلیغ و تشہیر کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے جس سے ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو جاتی ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی جس میں 10 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک چلی۔ چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث کے بعد قادیانیوں کا موقف سننے کے بعد متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ قادیانیوں نے آئین پاکستان میں ہونے والی اس متفقہ ترمیم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی اینٹی اسلام سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ اس کے نتیجہ میں پھر 1984ء میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کی توہین سے روکنے کے لیے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا۔ جس کی وجہ سے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298ـB اورـC 298 کا اضافہ ہوا۔ اس قانون کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کو بطور اسلام پیش کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں