اکیسویں صدی کے انقلابی
شیئر کریں
منصور اصغر راجہ
*****************
ایک خبر کے مطابق جیل بھرو تحریک کے پہلے روز گرفتاری دینے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ؤں کی رہائی کے لیے عدالتِ
عالیہ لاہور میں درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں ۔الگ الگ دائر کی گئی درخواستوں میں عدالت کو بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی ، اسد عمر ،ولید اقبال ، اعظم سواتی اور دیگر رہنماؤں کو کھانا اور ادویات فراہم نہیں کی جا رہیں ۔ انھیں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کپتان نے بھی اپنے وڈیو لنک خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی کے رہنما سیاسی قیدی ہیں لیکن ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔
انقلاب اور قید وبند لازم و ملزوم ہیں ۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کسی بھی دور میں نرمی نہیں برتی گئی ۔ انقلابیوں کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلا جاتا تھا ۔ توپ کے منہ پر باندھ کر اُڑا دیا جاتا تھا ۔ کھڑے کھڑے کھال کھینچ لی جاتی تھی ۔ آنکھوں کے سامنے ان کے
معصوم بچوں کو ذبح کر دیا جاتا تھا ۔ منہ کالا کرنے کے بعد گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا ۔ لیکن ماضی کے انقلابی اتنے حوصلہ مند ہوتے تھے کہ وہ دار کو بھی یہ کہہ کر چوم لیتے تھے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
لیکن اکیسویں صدی کے دیسی انقلابیوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ ان کا انقلاب فیس بک سے شروع ہوتا ہے اور ٹوئٹر پر ختم ہو جاتا ہے ۔ کپتان کے جلسوں کی رونق بھی صرف اس لیے بڑھاتے ہیں کہ عمران خان دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا ۔ اس لیے جیل بھرو تحریک کو
بھی انھوں نے کوئی تفریحی پروگرام ہی سمجھا ۔ گرفتاری دینے والی پی ٹی آئی قیادت کا خیال تھا کہ جب وہ بن ٹھن کر گرفتاری کے لیے
خود کو پیش کریں گے تو پولیس حکام انھیں قیدیوں کی وین میں بٹھاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھیں گے کہ
میں چھج پتاسے ونڈاں
اج قیدی کرلیا ماہی نوں
لیکن وہ بھول گئے کہ سہاگن وہی ہوتی ہے جسے پیا چاہے ، اور شنید ہے کہ پیا آج کل سہاگن سے سخت خفا ہے ،جب کہ میاں کوتووال پیا
کے اشارہِ ابرو کے پابند ۔ اس لیے امکان ہے کہ گرفتار شدگان کو اب کچھ دن تو سرکار کی میزبانی کا لطف اٹھانا ہی پڑے گا ، چاہے بادلِ
نخواستہ ہی سہی ۔ایک انقلاب دوہزار تیرہ چودہ میں بھی لانے کی کوشش کی گئی ۔ کینیڈا سے ایک عدد ‘ شیخ الاسلام ‘ پاکستان درآمد کیے گئے ، جنھیں یہ شکایت تھی کہ موجودہ نظامِ ریاست و حکومت پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کماحقہ ادا نہیں کر رہا ، اس لیے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا
چاہئے ۔ شیخ الاسلام صاحب نے اپنے ایک ‘ کزن ‘ کو ساتھ لے کر اسلام آباد پرچڑھائی بھی کی تاکہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکیں۔ وہاں ڈی چوک میں تھیٹر بھی لگایا ۔ طلاقتِ لسانی کے جوہر بھی دکھلائے ۔ جب کبھی پولیس سے مڈ بھیڑ ہوتی تو اپنے تعلیمی اداروں کی طالبات کو فرنٹ لائن پر لے آتے ۔ لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ ایک شب اپنے ‘ کزن’ کو بتائے بغیر ہی شیخ الاسلام جہاں سے آئے تھے ،وہیں واپس چلے گئے ۔ نواز شریف حکومت کی رخصتی کے بعد پاکستانی قوم کے لیے ابتلا کا نیا دور شروع ہوا جو اِ س وقت اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ،لیکن کینیڈا والے ‘ شیخ الاسلام ‘ کو اب اس قوم کی یاد نہیں ستاتی ۔چند برس پہلے ایک ہی شب میں ہمارے گاؤں میں دو چوریاں ہوئیں ۔ایک گھر میں خوب جھاڑو پھیری گئی ، جب کہ دوسرے گھر میں صرف چوری کی تہمت لگائی گئی ، جس پر ایک سیانے نے یوں تبصرہ کیا تھا کہ دوسری چوری پہلی چوری کو چھپانے کے لیے کی گئی ۔
واقفانِ حال کے مطابق جیل بھرو تحریک کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔کپتان کو اس وقت جتنے اسکینڈلز اور مقدمات کا سامنا ہے ، ان سے
توجہ ہٹانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا نعرہ لگایا گیا ۔ لیکن یہاں بھی سیانے انقلابی اپنی قیادت کے ساتھ ہاتھ کر گئے ۔ بدھ کے روز لاہور
کی ٹھنڈی سڑک پر پولیس افسران اعلان کرتے رہے کہ جس جس انقلابی نے جیل جانا ہے ، اس کے لیے گاڑی حاضر ہے ،لیکن متعدد انقلابیوں نے قیدیوں والی وین کے قریب کھڑے ہو کر ایک عدد سیلفی بنائی اور گھر کی راہ لی تاکہ سوشل میڈیا پر انقلاب کی جدوجہد میں
حصہ ڈال سکیں ۔ خیبر پختون خوا کے نگران وزیر جیل خانہ جات باربار یقین دہانی کراتے رہے کہ پی ٹی آئی کے انقلابی پریشان نہ ہوں ۔ ہم
جیل میں چائے روٹی کے علاوہ مرغ پلاو ٔسے بھی ان کی تواضع کریں گے ۔ لیکن کے پی کے اسمبلی کے ایک سابق ایم اپی اے کو ان کی اس
یقین دہانی پر یقین نہ آیا ۔ اسی لیے وہ چھوٹے موٹے انقلابیوں کو قیدیوں کی وین کے پاس پہنچا کر خود فرار ہو گئے ۔ پی ٹی آئی قیادت
کی رہائی کی درخواستوں سے ہمیں دو ہزار چودہ کا وہ پیارا سا نوجوان انقلابی یاد آگیا جواسلام آباد میں پولیس کے ڈنڈے کھانے کے بعد دہائی دیتا پھرتا تھا کہ اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے ۔ اس موقع پر ہمیں خاص طور پر مخدوم شاہ محمود قریشی سے ہمدردی ہے کہ ایک تو وہ گرفتار ہوئے ، دوسرے سرکار نے انھیں پورا ایک مہینہ نظر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ، اور تیسری صدمے والی بات یہ ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ تحریک انصاف کا صدر بننے کے لیے پَر تول رہے ہیں ۔ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں ، اس سے بڑھ کر صدمے والی بات بھلا اور کیا ہو گی!
٭٭٭