میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سنتا جا شرماتا جا!!!  :   آئی سی آئی بغیر لائسنس ہربل ادویہ کی فروخت میں ملوث

سنتا جا شرماتا جا!!! : آئی سی آئی بغیر لائسنس ہربل ادویہ کی فروخت میں ملوث

ویب ڈیسک
منگل, ۲۶ فروری ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل)رواں سال کے آغاز میں روزنامہ جرأت کی جانب سے محکمہ صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں موجود سابق چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی، سابق چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی، غلام ہاشم نورانی جیسی کالی بھیڑوں کے کرتوں سے عوام کو آگاہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ۔ انسانی صحت سے براہ راست تعلق رکھنے والے اس مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے ان افراد اور اداروں کے خلاف شواہد جمع کرنے کے دوران بہت سی قومی اور کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کی جانب سے کی گئی منی لانڈرنگ، غیر معیاری اور جعلی ادویہ سازی کے شواہد ہمیں موصول ہوئے، جنہیں ہم تصدیق کے بعد مستقل شائع کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں روزنامہ جرأت نے 24اور 25مئی کی اشاعت میں مشہور کثیر القومی کمپنی آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے بھینسوں کو لگائے جانے والے ممنوعہ انجکشن سوماٹیک اور بغیر لائسنس متبادل ادویات کی فروخت میں ڈرگ ایکٹ کی پامالی کا احوال بھی بیان کیا ۔ روزنامہ جرأت کی اس اشاعت میں میں آئی سی آئی پاکستان کا ذکر بمعہ عکسی ثبوت کچھ اس طرح کیا گیا:


سپریم کورٹ نے سوماٹیک انجکشن پر پابندی عائد کرنے اور اسے مارکیٹ سے اٹھانے کا حکم جنوری2018ء کو دیا تھا، لیکن اس ممنوعہ انجکشن کی درآمدت پر برطانیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا یہاں تک کہ انڈیا جیسے ملک نے بھی تین سال قبل ہی پابندی عائد کر دی تھی۔ کاروباری اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئی سی آئی پاکستان کو تین سال پہلے ہی اس انجکشن کو مارکیٹ سے اٹھا کر اس کی فروخت بند کردینی چاہیے تھی۔


’ممنوعہ انجکشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں ملکی اور غیر ملکی ادویہ ساز اداروں کا کردار بھی نہایت گھناؤنا رہا۔ سوماٹیک بنانے والی کمپنی آئی سی آئی پاکستان نے تو ڈرگ ایکٹ 1976ء کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ گزشتہ سال 23؍اپریل کو آئی سی آئی پاکستان کو سرکلر نمبر DHSKDK(Drug)1-690 کے ذریعے ڈرگ ایکٹ 1976کے فارم 7رول نمبر14(2)کے تحت دو سال(20 Feb-2018-19 Feb- 2020) کے لیے درآمدات کا لائسنس نمبر(0538)جاری کیا گیا۔یہ لائسنس حاصل کرنے کے بعد آئی سی آئی پاکستان نے تقسیم کار کے طور پر ایک میڈیکل اسٹور ’ شاہین ‘ کا تقررکیا، جب کہ اس میڈیکل اسٹور کوڈرگ ایکٹ1976فارم 6کے سرکلر نمبرDHSKDK(Drug)1-2072کے تحت ریٹیل( خوردہ فروشی ) کا لا ئسنس نمبر 2530جاری کیا گیا ہے۔ آئی سی آئی پاکستان نے ریٹیل کے لائسنس پر سوماٹیک انجکشن فروخت کیے جب کہ ڈرگ ایکٹ1976کے تحت ایک ریٹیلر دوسرے ریٹیلر کو دوا فروخت نہیں کر سکتا۔‘
اسی رپورٹ کے تسلسل میں روزنامہ جرأت نے 25؍جنوری کو شائع ہونے والی اشاعت میں آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے کی گئی اس دھاندلی کا ذکربھی کچھ اس طرح کیا :
’’ایک کثیر القومی کمپنی آئی سی آئی پاکستان عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی کی آشیر باد سے ڈرگ ایکٹ 1976 ء کو بری طرح پامال کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی سی آئی پاکستان کے پاس فارم 7Aکا ایک بھی ڈسٹری بیوشن لائسنس نہیں ہے۔ پاکستان سے سالانہ اربوں روپے کا زرمبادلہ باہر لے جانے والی اس کثیر القومی کمپنی کے پاس صرف فارم 7برائے درآمدات اور فارم 6برائے خوردہ فروشی کا لائسنس ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے تحت آئی سی آئی پاکستان فارم7Aکا لائسنس حاصل کیے بغیر ادویا ت کی تقسیم نہیں کر سکتی۔ اور جس طرح ریٹیل لائسنس والا دوسرے ریٹیل لائسنس والے کو دوا فروخت نہیں کرسکتا، اسی طرح فارم 7Aلائسنس رکھنے والی کمپنی دوسری ایسی کسی کمپنی کو دوا فروخت کرنے کی مجاز نہیں ہے جو خود بھی فارم 7Aرکھتی ہو۔‘‘
روزنامہ جرأت میں مسلسل دو دن تک شائع ہونے والی ان رپورٹوں کے 20دن بعدکثیر القومی کمپنی آئی سی آئی پاکستان کو اپنی نیک نامی کا خیال آیا اور انہوں جرأت میں شائع ہونے والی رپورٹ اورتصویری شواہد کو دیکھے اور پڑھے بنا14؍فروری کو ادارے کے مدیر اعلیٰ محمد طاہر کے نام ایک خط لکھ دیا، آئی سی آئی پاکستان کی جنرل کاؤنسل، کمپنی سیکریٹری اینڈ ہیڈ آف کارپوریٹ کمیونیکیشنز اینڈ پبلک افیئرز نوشین احمد کی جانب سے لکھے گئے اس خط کا عنوان کچھ یوں تھا:
’نیوز اسٹوری میں آئی سی آئی پاکستان لمیٹڈ کے خلاف الزامات‘
خط کے مضمون میں 25جنوری کوصفحہ نمبر 3 پر شائع ہونے والی رپورٹ ’ ہربل کی آڑ میں غیر معیاری ادویات کی فروخت، آئی سی آئی کو عدنان رضوی کی سرپرستی حاصل‘کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاکہ ہم آپ کے مضمون میں موجود کچھ غلط حقائق کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، یہ الزامات بے بنیاد اور غیر مصدقہ ہیں کہ آئی سی آئی پاکستان لمیٹڈ عوامی صحت پر سمجھوتا کرتے ہوئے غیر معیاری متبادل ادویات کی تیاری اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی رجسٹریشن کی ضروریات کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے جو الزامات آئی سی آئی پاکستان پر عائدکیے گئے انہیں ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔


6؍جنوری2018ء کو سوماٹیک انجکشن کے حوالے سے لکھے گئے ایک اور خط نمبر F-1-1/2018-Add Dir(QA, LT) کے تناظر میں وضاحت طلب کرتے ہوئے آئی سی آئی پاکستان سے ایک بار پھر گزشتہ دو سال میں فروخت کی گئی درج بالا دوا کی خرید، فروخت ، مارکیٹ سے اٹھائی اور وڈ را کرنے کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔ اس کے علاوہ آئی سی آئی پاکستان سے اس خط کے اجرا ء کے تین دن کے دیگر معلومات بھی مانگی گئیں۔ 


1۔ سندھ ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی کی مدد سے آئی سی آئی پاکستان غیر معیاری مصنوعات فروخت کر رہی ہے:
اس جملے میں ادارے کی جانب سے ڈرگ ایکٹ 1976کے مطابق فارم 7Aکے بنا تیار ہونے والی ہربل ادویات کو غیر معیاری ادویات کے ذمرے میں رکھا گیا ،جرأت نے اپنی رپورٹ میں آئی سی آئی پاکستان کی تمام نہیں بلکہ صرف ان متبادل ( ہربل ) ادویات کو غیر معیاری لکھا جو مذکورہ فارم کے بنا تیار اور فروخت ہورہی ہیں۔ اس رپورٹ میں شاہین میڈیکل اسٹور اور آئی سی آئی پاکستان کو جاری کردہ لائسنس کے عکس بھی شائع کیے تھے، تاہم لائسنس ہولڈر کی تصویر اور نجی معلومات ان کی پرائیویسی کو مد نظر رکھتے ہوئے چھپا دی گئی تھیں( تاہم طلب کیے جانے پر یہ دستاویزات متعلقہ اداروں کر فراہم کی جاسکتی ہیں۔)
2۔آئی سی آئی پاکستان کھلے عام ڈرگ ایکٹ 1976 اور2012کی دھجیاں اڑا رہی ہے کیوں کہ اس کے پاس فارم7A کے تحت ایک بھی ڈسٹری بیوشن لائسنس نہیں ہے۔ جب کہ پاکستان سے سالانہ اربوں روپے کا زرمبادلہ باہر لے جانے والی اس کثیر القومی کمپنی کے پاس صرف فارم7برائے درآمدات اورفارم 6برائے خوردہ فروشی کالائسنس ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے وضع کردہ قوانین کے تحت آئی سی آئی پاکستان فارم 7Aحاصل کیے بنا کسی پراڈکٹ کو تقسیم نہیں کر سکتی۔
آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے درج بالا تحریر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ آئی سی آئی پاکستان فارماسیوٹیکل کے کاروبار کو ڈرگ ایکٹ 1976اور متبادل ادویات اور ہیلتھ پراڈکٹ انلسٹمنٹ رولز2014ء کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے متعلقہ اجازت ناموں ، لائسنس رجسٹریشن اور آتھرائزیشن کے حصول کے بعد کررہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جرأت کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں فارم 7A نہ ہونے کی بات کی گئی ہے، لیکن اپنی کمپنی کے دفاع میں لکھی گئی محترمہ کی اس تحریر میں آئی سی آئی پاکستان نے ایک بار بھی روزنامہ جرأت کی اس بات کو غلط ثابت نہیں کیا کہ ان کے پاس( آئی سی آئی پاکستان) ادویات کی تقسیم کے لیے فارم7Aموجود ہے۔ سوال مشرق کا اور جواب مغرب کا دیتے ہوئے آئی سی آئی سی کی جانب سے حقائق کو پس پشت ڈالا گیا۔ ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین سے دانستہ یا نادانستہ طور پر لاعلمی ظاہر کرنے والی کثیر القومی کمپنی آئی سی آئی پاکستان کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ :
پراونشل لائسنز ایز پر سندھ ڈرگ رولز:
فارم 6 ۔ ادویات کی ریٹیل ( خوردہ فروشی) کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔
فارم7۔ ادویات کی درآمدات اور مینو فیکچرنگ کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔
فارم7A۔ یہ لائسنس ادویات کی ہول سیل ( تھوک فروشی) اورڈسٹری بیوشن ( تقسیم کاری) کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔
فارم 8 فارمیسی کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔
اور اسی قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے لکھا ہے کہ شاہین میڈیکل اسٹور کے پاس فارم6 ( خوردہ فروشی) کا لائسنس ہے، اور آئی سی آئی پاکستان کے پاس امپورٹ کا لائسنس فارم 7ہے اور آئی سی آئی پاکستان ڈسٹری بیوشن کے لائسنس فارم 7Aکے بنا سوماٹیک انجکشن کی ڈسٹری بیوشن کرتی رہی ہے جو کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے کیوں انہیں فارم 7کا لائسنس صرف درآمدات کے لیے دیا گیا تھا نہ کہ تقسیم کاری کے لیے۔جب کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے انلسٹمنٹ رولز 2014 برائے متبادل ادویات کے لیے فارم 6 مینوفیکچرنگ کا لائسنس پرویژنل ( عارضی سرٹیفکیٹ) ہوتا ہے ۔ جب کہ فارم 7جس کے اوپر نئے قانون کے تحت ادویات رجسٹر ہورہی ہیں، ہر پراڈکٹ کی الگ رجسٹریشن اور ہر پراڈکٹ پر فارم 7رجسٹریشن نمبرلکھنا ضروری ہے اور آئی سی آئی پاکستان کی زیادہ تر متبادل ادویات اس رجسٹریشن نمبر سے محروم ہیں۔ اور ڈرگ ایکٹ 1976ء کے تحت ان رجسٹرڈ پراڈکٹ غیر معیاری پراڈکٹ کے ذمرے میں آتی ہے۔ اگر آئی سی آئی پاکستان ان قوانین سے نابلد ہے تو ادارہ جرأت انہیں تمام تر قوانین کی مصدقہ کاپیاں فراہم کرسکتا ہے۔
آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے بے بنیاد قرار دیاگیا تیسرا اور آخری نکتہ یہ ہے :
3۔ آئی سی آئی پاکستان نہ صرف عدنان رضوی کی سرپرستی میں ممنوعہ سوماٹیک انجکشن فروخت کرتی رہی ہے ، بلکہ درج ذیل ادویات ’کرین کیئر ساشے، Q-Co-19کیپسول،ایپٹی میکس پلس شربت، سن پلس سافٹ جل کیپسول، ایمی بیکٹ ساشے، ٹرائی لیف شربت، ریگنم مین گولیاں، ریجوآ گولیاں اور لپیرون ساشے فارم7کی ان لسٹمنٹ کے بنا فروخت اور تقسیم کر رہی ہے۔
آئی سی آئی پاکستان نے ایک بار پھر اصل موضوع کا رخ تبدیل کرتے ہوئے سوال گندم اور جواب چنے کا دیتے ہوئے حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ آئی سی آئی پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے سوماٹیک انجکشن کی درآمد اور مارکیٹنگ جنوری 2018ء میں ہی روک دی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے تو اس انجکشن پر پابندی عائد کرنے اور اسے مارکیٹ سے اٹھانے کا حکم جنوری2018ء کو دیا تھا، لیکن اس ممنوعہ انجکشن کی درآمدت پر برطانیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا یہاں تک کہ انڈیا جیسے ملک نے بھی تین سال قبل ہی پابندی عائد کر دی تھی۔ کاروباری اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئی سی آئی پاکستان کو تین سال پہلے ہی اس انجکشن کو مارکیٹ سے اٹھا کر اس کی فروخت بند کردینی چاہیے تھی۔ ڈرگ رول1976 کے سیکشن (a)کے تحت اگر کسی دوا پر امریکا، یورپی یونین کے ممالک، کینیڈا، جاپان یا آسٹریلیا میں پابندی عائد کردی گئی ہو تو پاکستان میں موجود اس دوا کے مینو فیکچرر کو فوراً پاکستانی مارکیٹ سے اس دوا کو اٹھا لینا چاہیے۔ مذکورہ کمپنی کو اس پابندی کا علم ہونے کے 14دن کے اندر اندر رجسٹریشن بورڈ اور متعلقہ اداروں کے علم میں لا کر ضروری کارروائی کی جانی چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے کاروبار کرنے والی آئی سی آئی پاکستان دنیا کے دیگر ممالک میں سوماٹیک پر پابندی سے لاعلم کیوں رہی اور اگر انہیں اس بات کا علم تھا تو پھر رجسٹریشن بورڈ کو کیوں آگا ہ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کے باجود یہ انجکشن چوری چھپے فروخت ہوتے رہے جس کی تصدیق اس انجکشن پر پابندی کے 8ماہ بعد 27 ؍اگست2018ء کو آفس آف دی پراونشل انسپکٹر آف ڈرگ کی جانب سے آئی سی آئی پاکستان سے خط نمبر DCA/PID/KHI/149/150 کے ذریعے طلب کی گئی وضاحت ہے۔
اس خط کا عنوان کچھ یوں تھا:
’وضاحت انڈر سیکشن 18(1)(f),(g)آف ڈرگ ایکٹ 1976، ڈریپ ایکٹ 2012 اینڈ رولز فریمڈ دیئر انڈر ریگارڈنگ الرٹ نوٹیفکیشن’ ودڈرال/ریکال آف سینتھیٹک ری کومبینینٹ بوون سوماٹو ٹروپین(آر بی ایس ٹی) انجکشن‘
اس خط میں 6؍جنوری2018ء کو سوماٹیک انجکشن کے حوالے سے لکھے گئے ایک اور خط نمبر F-1-1/2018-Add Dir(QA, LT) کے تناظر میں وضاحت طلب کرتے ہوئے آئی سی آئی پاکستان سے ایک بار پھر گزشتہ دو سال میں فروخت کی گئی درج بالا دوا کی خرید، فروخت ، مارکیٹ سے اٹھائیئے اور وڈ را کیے گئے انجکشن کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔ اس کے علاوہ آئی سی آئی پاکستان سے اس خط کے اجرا کے تین دن کے اندر درج ذیل معلومات بھی مانگی گئیں۔
1۔ پاکستان میں درج بالا دوا ( سوماٹیک) کو فروخت کرنے والے تمام ایجنٹ کی تفصیلات بمعہ متعلقہ دستاویزات ، ڈرگ سیل لائسنس، اتھارٹی لیٹرز اور ان کی فروخت کا ریکارڈ
2۔ کمپنی کا امپورٹ لائسنس
3۔ ڈرگ سیل لائسنس
4۔ ریکال/وڈرال کی گئی درج بالا دوا کا ریکارڈ
5۔درج ذیل دوا کو جلانے اور تلف کیے جانے کا ریکارڈ
اصولاً تو یہ تمام تر معلومات آئی سی آئی پاکستان کو خود فراہم کردینی چاہیے تھی۔
روزنامہ جرأت نے صحافتی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف آئی سی آئی پاکستان کی بے بنیاد قرار دی گئی باتوں کی سچائی کو ثابت کیا ہے
بلکہ لکھے گئے ہر لفظ کا ثبوت پیش کرنے کو بھی تیار ہے۔ اس خط میں آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے جرأت کو حقائق درست کرنے اور ڈھکے چھپے الفاظ میں قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، ادارہ جرأت آئی سی آئی پاکستان کی جانب سے اس قسم کی کسی بھی محاذ آرائی کو خوش آئند سمجھتا ہے اور اسے اس بدعنوان کثیرالقومی کمپنی کو بے نقاب کرنے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس کثیر القومی کمپنی کی جانب سے کیے گئے غیر قانونی اقدامات پر معززقانونی اداروں کے سامنے ثبوت وشواہد پیش کرنے کا موقع ہمارے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہوگا۔ او ر یوں ہم اپنی منصبی اور صحافتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے اور صحت دشمنوں کے خلاف جاری جہاد کے عزم کو مزید تقویت بھی دے سکیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں